احمد شہزاد قاسمی
پورے عالم میں مسلمانوں کو ان کے دین وشریعت سے بر گشتہ وبیزار کرنے کی مختلف کوششیں ہو رہی ہیں ،عراق شام افغانستان یمن لیبیا اور مصرکے علاوہ پورے عالمِ اسلام میں جو قیامت بر پا ہے اسکا مقصد اسکے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت اور دینی امور کی ادائیگی چھوڑکر مغرب کے بتائے ہوئے راستہ پر آنکھ بند کر کے چلنے لگیں۔ عالمی صہیونی طاقتوں کی کی جانب سے داعش جیسی سفاک وظالم تنظیموں کو اسلام کے نام سے پیش کرنے کے پیچھے نئی نسل کو دینِ اسلام سے بیزار وبد ظن کرنے کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔وطنِ عزیز ہندوستان میں بھی سات دہائیوں سے مختلف شکلوں میں مسلمانانِ ہند کو اس امتحان سے گزر نا پڑرہا ہے ۔بے پناہ فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردینا ہزاروں بلکہ اربوں کروڑوں کا مالی نقصان اور اب تعلیم یافتہ بے قصور مسلم نو جوانوں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں سڑا کر انکی زندگی برباد کرنا ،گھر واپسی لو جہاد اور یکساں سول کوڈ (مشترک قانون) کا مطالبہ اسی پالیسی کا حصہ ہے ۔
فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے آپ کو معلوم ہوگا کہ جن شہروں کی صنعت مسلما نوں کے ہا تھوں میں تھی جہاں مسلما ن خوش حال وخود کفیل تھے وہاں انکو بھکاری اور مزدور بنانے کے لئے سیکو لرازم کی علمبردار کانگریس پارٹی کے دورِ حکومت میں پورے کے پورے شہر فسادیوں اور ظالم پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ میرٹھ علی گڑھ مرادآباد بھاگل پور اور بھیونڈی کے علاوہ اکثر فسادزدہ مقامات کی صنعتیں مسلما نوں کے ہاتھوں میں تھی آزادی کے بعد باستثنا ئے چند سالوں کے ملک میں کانگریس ہی بر سرِ اقتدار رہی ہے اس لئے یہی کہا جائے گا کہ کانگریس نے مسلما نوں کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جس سے مسلمان دین وشریعت کو چھوڑ کر اپنے جان و مال کی خیر منا نے میں لگ جائیں ۔یہ کانگریس کا نرم ہندو توا ہے ،دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی ہے جو ملک کو علی الاعلان ہندو اسٹیٹ بنانے کی وکالت کرتے ہیں ،رام مندر کی تعمیر کے ساتھ یکساں سول کوڈ بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل ہے ،ہندو توا نظریہ کے حامل افراد برسوں سے یہ مطالبہ کر ہے ہیں کہ ملک.میں ہر طرح کے پرسنل لا کو ختم کرکے مشترک قانون کو نافذ کیا جائے، مئی 2014 سے اس مطالبہ میں شدت پیدا ہوگئی اور اپنے اس پرانے موقف کے ساتھ سامنے آنے لگے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جو شرعی قانون نافذ ہیں ان میں سے بعض کی بنا پر عورتوں اور بچوں کے بہت سے حقوق ضائع ہورہے ہیں ،اس لئے اسکے سدِ باب کے لئے قانونِ شریعت(مسلم پرسنل لا) کے بجائے مشترک سول کوڈ نافذ کیا جائے۔
حال ہی میں اترا کھنڈ کی ایک مسلم خاتو ن سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے اور پرسنل لا سے متعلق قوانین کو مسلم خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ،جس پر سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا سے متعلق شادی اور طلاق سے جڑے معا ملات میں مر کزی حکو مت کو نوٹس جاری کیا ہے جسکی وجہ سے ایک بار پھر فرقہ پرستوں کو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا موقع مل گیا ،جو لوگ قانونِ طلاق پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرد اسکے ذریعہ عورت کو پریشان کرتا ہے اور طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہی ہے وہ اپنے اس حق کو استعمال کرکے کبھی بھی عورت سے خلاصی پا سکتاہے ،جبکہ عورت کو طلاق کا حق نہ ہو نے کی وجہ سے خواہی نا خواہی اسکے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہوگی ان کے لئے عرض ہے کہ شریعت میں صلح صفائی کے ذریعہ عورت بھی علیحد گی اختیا ر کرسکتی ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں خلع کہاجاتاہے، اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو کسی وجہ سے اتنا نا پسند کرتی ہو کہ اسکے ساتھ کسی قیمت پر نبھاؤ ممکن نہ رہا ہو تو اسکا بھترین طریقہ تو یہی ہے کہ وہ شوہر کو سمجھا بجھا کر طلاق دینے پر آمادہ کردے ایسی صورت میں شوہر کو بھی چاہئے کہ جب وہ نکاح کے رشتہ کو خوشگواری کے ساتھ نبھتا نہ دیکھے اور یہ محسوس کرے کہ اب یہ رشتہ دونوں کے لئے نا قابلِ برداشت بوجھ کے سوا کچھ نہ رہا تو وہ شراافت کے ساتھ اپنی بیوی کوایک طلاق دے کر چھوڑ دے تاکہ عدت گزرنے کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کر سکے ،لیکن اگر شوہر اس بات پر راضی نہ ہو تو عورت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مالی معاوضہ پیش کرکے اسے آزاد کر نے پرآمادہ کر سکتی ہے،شریعت کی اصطلاح میں اس عمل کو خلع کہتے ہیں ۔
اس تفصیل کے بعد بھی یہ اعتراض رہ جاتاہے کہ عورت شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع نہی لے سکتی جبکہ مرد عورت کی رضامندی کے بغیر اس کو طلاق دے سکتا ہے اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مرد کے لئے یہ حق وحی الہی سے ثابت ہے اور وحی الہی سے ثابت ہو نے والے احکام کی کی مصلحتوں اور حکمتوں کو عقل کے دائرہ میں نھی لا یا جا سکتا ،اس کو یوں سمجھئے کہ انسانی اعضا کے کام کر نے کے دائرہ محدود ہیں اور ہر عضو صرف اپنی حد تک ہی کام کر سکتا ہے مثلا آنکھ کا دائرہء کار دیکھنے اور کان کا سننے تک محدود ہے اسی طرح عقل کا دائرہ یہ ہے کہ وہ ایک حد تک سوچ سکتی ہے وحی سے ثابت ہو نے والے حقوق و احکام عقل کے دائرہء کار سے باہر ہیں ۔اس لئے جو شخص نصِ شرعی سے ثابت شدہ حکم کو یہ کہ کر رد کردے کہ یہ ہماری سمجھ سے با ہر ہے تو گو یا وہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے کا نوں سے دکھائی نہیں دے رہا ہے یا آنکھوں سے سنائی نہیں دے رہا،کیونکہ جس طرح سننا آنکھ کے دائرہ اور دیکھنا کان کے دائرہ سے باہر ہے ٹھیک اسی طرح احکامِ الہی کی مصلحتیں اور حکمتں عقل کے دائرہ سے باہر ہیں ،دوسری بات جو اس سلسلہ میں زور وشور سے اٹھائی جا رہی ہے وہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینا ہے،اس سلسلہ میں بس اتنا عرض ہے کہ پوری دنیا میں کوئی شخص نہیں ہوگا جو تین کے عدد کو ایک شمار کرے تین کو تین ہی کہا جائے گا ایک نہیں ۔
دوسرے یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقوں کے وقوع پر صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے لہذا اس اجماع کے بعد جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اس اجماع کو توڑ نے والا ہو گا اور کسی مسئلہ میں اتفاق ہونے کے بعد کوئی شخص اس میں اختلاف کرے تو جمہور کے نز دیک اسکا اختلاف کرنا معتبر نہیں ،تین طلاقوں کو نہ ماننے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا وہ متعہ کی حرمت کا بھی انکار کر دینگے کیونکہ متعہ کی حرمت پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی اجماع ہوا ہے ۔
حافظ ابنِ حجر رحمتہ اللہ علیہ فتح الباری میں اس سلسلہ میں فر ماتے ہیں کہ طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ بعینہ’’متعہ‘‘کے مسئلہ کی نظیر ہے چنانچہ متعہ کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتداء دورِ خلافت میں’’متعہ‘‘کیا جا تا تھا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کردیا تو ہم اس سے باز آگئے اور دونوں مسئلوں میں راجح قول یہ ہے کہ متعہ حرام ہے اور طلاقِ ثلاثہ واقع ہوتی ہیں ۔ان دونوں مسئلوں پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں مسئلوں میں اس اجماع کی مخالفت کی ہو (فقہی مقالات مفتی محمد تقی عثمانی)
بات ذرا دوسرے رخ پہ چلی گئی در اصل آج کل کچھ نام نہاد روشن خیال ترقی پسند مسلمان بھی عائلی قوانین کو جمہوریت اور ترقی میں رکا وٹ مان رہے ہیں ان کے لئے یہ تفصیل ضمنا لکھ دی گئی ،جو لوگ مسلم پرسنل لا میں ترمیم یا تنسیخ کے ذریعہ مسلمان عورتوں کو انکے مردوں کی زیادتیوں سے بچانے کی فکر کر رہے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی انکو فسادات کا زخم کھانے اور سراپا فریاد نظر آنے والی ان عورتوں کے عام شہری حقو ق (جان ومال وآبرو) کے تحفظ کی فکر ہوئی ،عجیب بات ہے کہ عائلی قوانین کی رو سے مظلوم ومقہور نظر آنے والی عورت اس وقت مظلوم نہیں لگتی جب مراد آباد میرٹھ مظفر نگر علی گڑھ بھاگل پور گجرات اور ممبئی میں اسکے شوہر کو آگ کے حوالہ کر دیا جا تا ہے فسادیوں کے ذریعہ آبرو ریزی کر کے اسے داغدار کیا جاتاہے
اور وہ پچیس تیس سالوں تک انصاف کے چکر میں عدالتوں کے چکر کاٹ کر بھی محروم رہ جاتی ہیں۔
1991 میں پیلی بھیت میں گیارہ سکھ نو جوانوں کو پو لیس اہلکا روں نے مبینہ طور پہ فرضی انکا ؤنٹرمیں مار گرایا تھا اس معاملہ میں گزشتہ مہینہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اس میں ملوث 47 پولیس اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے عدالت نے متاثرہ خاندانوں کو 14 14 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔دوسری طرف ہاشم پورہ ہے جہاں 1987 میں 47 بے گناہ مسلم نو جوانوں کو پی اے سی کے جوان ٹرک میں بھر کے لے گئے اور انکو گولیوں کا نشانہ بنا بنا کر نہر میں بہا دیا ۔
اس معاملہ میں گزشتہ برس تیس ہزاری عدالت کا جو فیصلہ آیا وہ نہ ہاشم پورہ فساد متاثرین کے لئے مایوس کن تھا بلکہ تمام انصاف پسندوں کو اس نے حیران کر دیا کہ 47 افراد کے بہیمانہ قتل کے معاملہ میں ایک آدمی کو بھی معمولی سی سزا تک نہیں ہوئی۔
مسلم عورتوں کے حقوق کی دہائی دینے والوں کو اس موقع پہ انکی بے بسی مجبوری اور حق تلفی نظر نہیں آئی،آپ کو اگر انصاف دینا ہے مسلم خواتین سے ہمدردی جتانی ہے تو فسادات میں ملوث افراد کو سزا دیجئے۔
دہشت گردی کے جھو ٹے الزامات میں کسی کے بھائی کسی کے بیٹے کسی کے شوہر کی زندگی خراب کرنے والے افسران پر کا ر روائی کیجئے ،جس معاملہ میں پوری قوم کو شکا یت ہو وہاں نہ تو کسی فرد نے نہ کسی ادارہ نے آج تک سچ مچ کا کوئی ایک قدم اٹھا یا مگر مسلم پرسنل لا کا معاملہ جس میں شکا یت کا کوئی قابلِ ذکر ریکارڈ نہیں ہے اس میں فرض شناسی دکھانے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ بے شمار افراد میدان میں کود پڑتے ہیں ۔
ہندوستان کی حد تک ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وطنِ عزیز میں جو کوئی بھی مسلمان عورت سے ہمدردی کرتا ہے اسے سب سے پہلے فسادات کی اس مصیبت کے خلاف کھڑا ہونا چاہئےء جو آزادی کے بعد سے لا تعداد مسلمان عورتوں کی زندگی کو جہنم بنا چکی ہے اور جس کا سلسلہ ہر آنے والے دن میں مختلف شکلوں میں خوفناک ہو تا جا ریا ہے جب تک یہ عظیم اور ہمہ گیر مصیبت ہندوستان کی مسلمان عورت کے سر سے نہی ٹلتی اس وقت تک مسلم معاشرہ میں عورت کی مظلومیت کے خلاف حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا کوئی شخص ہو یا ادارہ اسے شرفِ توجہ بخشنے والی حکومت ،کسی کو بھی یہ توقع نھی رکھنی چاہئے کہ یہ فعل کسی ادنی خلوص پر محمول کیا جائے گا ،بلکہ اس کو یکساں سول کوڈ کے پردہ میں مسلما نوں کو ہندوانے کے حربہ سے تعبیر کیا جائے گا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار نوجوان فاضل اور آزاد صحافی ہیں )