یہ موازنہ نہ مسلمانوں کیلئے قابل برداشت ہے اور نہ ہی آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں کیلئے۔ صاف لفظوں میں یوں کہیئے کہ راہل گاندھی کاکیاگیایہ موازنہ حقیقت کے بھی خلاف ہے اوران کے سیاسی کیریئر کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے
خبر درخبر(570)
شمس تبریز قاسمی
کانگریس صدر راہل گاندھی ان دنوں یورپ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں ۔متعدد اجلاسوں میں شرکت کررہے ہیں ۔ان ممالک میں مقیم ہندوستانیوں سے ان کی ملاقات ہورہی ہے ۔سیاسی پنڈٹوں کے مطابق یورپ سے وہ 2019 کی شروعات کر نا چاہتے ہیں ۔ این آر آئی کے یہاں وہ اپنی بہتر شبیہ بنانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے گئے ہیں ۔ادھر ہندوستان میں ان کی تقریر پر بی جے پی چراغ پاہے ۔جرمنی میں بے روزگاری اور نفرت کی سیاست کے تعلق سے انہوں نے جو کچھ کہاہے بی جے پی اس کی تردید کرنے میں شب وروز ایک کرچکی ہے لیکن پھر لگ رہاہے کہ اس مرتبہ وہ راہل گاندھی کو صحیح سے کاﺅنٹر نہیں کرپارہی ہے ۔
اس سفر میں جرمنی کے ہمبرگ میں ہوئے خطاب کے بعد لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میںان کا ہونے والا خطاب بھی موضوع بحث ہے ۔لندن کا خطاب اس لئے موضوع بحث ہے کہ انہوں نے آ ار ایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمین سے کیاہے ۔یہ موازنہ نہ مسلمانوں کیلئے قابل برداشت ہے اور نہ ہی آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں کیلئے۔ صاف لفظوں میں یوں کہیئے کہ راہل گاندھی کاکیاگیایہ موازنہ حقیقت کے بھی خلاف ہے اوران کے سیاسی کیریئر کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔آر ایس ایس کا موازنہ اگرمسلم ممالک میں پنپنے الی کسی تنظیم سے کیا جاسکتاہے تو ہ داعش اور طالبان ہے ۔داعش اور آر ایس ایس کی سوچ تقریبایکساں ہے ۔داعش کا اصل بانی کون ہے ،کہاں سے یہ تنظیم وجود میں آئی اور کون لوگ اس کی فنڈنگ کرتے ہیں یہ سوالات اب بھی جواب طلب ہیں تاہم جن خطوط پر یہ تنظیم کام کرتی رہی ہے ،جس طر ح داعش نے قتل وغارت گری کی ،اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل کیا ،مختلف مذاہب کے درمیان نفرت کی مہم چھیڑی ،انسانوں کو غلام بنایا،عورتوں کو باندی بناکر رکھا یہی سب کچھ ہندوستان میں آر ایس ایس کرتی ہے ۔دوسال قبل اسی حقیقت کا اعتراف معروف سیاسی رہنما غلام نبی آزاد نے جمیعة علما ءہند (الف) کی ایک کانفرنس میں صاف لفظوں میں کیاتھا ۔
اخوان المسلمین اور آر ایس ایس کے نظر یہ میں کوئی مناسبت نہیں ہے ۔اخوان المسلمین کے نظریات میں اسلامی اخلاقیات کا فروغ ،انسانی اقدار پر مبنی حکومت کا قیام ،عدل وانصاف ،مساوات اورانفرادی آزادی ، جمہوریت پر یقین ،مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی جیسی چیزیں سرفہرست ہیں ۔ جبکہ آر ایس ایس کے نظریات میں ان بنیادی ایشوز کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔آر ایس ایس خود ہندومذہب کی پامالی کرتی ہے ،برہمنزم اس کی اصل بنیاد ہے جہاں انسانوں کے درمیان تفریق برتی گئی ہے ۔منواسمرتی پر ان کا یقین ہے جہاںانسانوں کے درمیان مساوات ،آزادی اور انصاف کو جرم بتایاگیاہے ۔برہمنوں، راجپوتوں اور اعلی ذات کے علاوہ کسی کو مندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے ،دلتوں کی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں ۔عورتوں کی ان کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔منواسمرتی میں دلتوں کے خلاف جو کچھ لکھاگیاہے اس کا تصور نہیں کیاجاسکتاہے ،دلبرداشتہ ہوکرکر بابابھیم راﺅ امبیڈ کر نے اسے نذر آتش کردیاتھا۔ہندوستان میں ہونے والے دسیوں فسادات اور دہشت گردانہ واقعات میں آ رایس ایس کے کارکنان ملوث پائے گئے ہیں ۔آج بھی اس کے کارکنان مختلف ناموں سے دہشت گردی اور غنڈ ہ گردی مچائے ہوئے ہیں ۔
اخوان المسلمین ایک سماجی ،سیاسی اور ملی تنظیم ہے ،دہشت گردی اس کا کوئی واسطہ نہیں رہاہے ۔انگریزوں کے خلاف یہ تنظیم بر سر پیکار رہ چکی ہے ۔ وہ نفرت کی پالیسی کے بھی خلاف ہے ۔مختلف مذاہب کے درمیان بھید بھاﺅ بھی اخوان المسلمین نہیں کرتی ہے اس لئے راہل گاندھی کی یہ بات مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ ہے کہ اسلامی اقدار اور اخلاقیات کو فروغ دینے والی تنظیم کا موازنہ انہوں نے آر ایس ایس جیسی ہندو انتہاءپسند تنظیم سے کردیاہے ۔دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی کے ممبران کو بھی یہ بات ناگوار گزرے گی کیوں کہ اخوان المسلمین کی سیاسی جدوجہد انہیں منظور نہیں ہے ۔ان کے گمان میں یہ دہشت گرد تنظیم ہے ۔حماس کی حمایت اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے تئیں ہمدردی رکھنے کی وجہ سے بھی آر ایس ایس اخوان المسلمین کو ناپسند کرتی ہے ۔ان کے گمان کے مطابق اخوان المسلمین کا موازنہ آر ایس ایس سے کرنے کی وجہ سے انہیں تکلیف پہونچی ہے۔ حالاں کہ راہل گاندھی نے یہ موازنہ یہ سمجھ کر کیا تھاکہ اخوان المسلمین کے نام سے آر ایس ایس ناراض نہیں ہوگی ۔ہاں !داعش اور طالبان سے موازنہ کی صورت میں ان کی مخالفت سامنے آئے گی ۔