کانگریس ، آرایس ایس اور جمہوریت

ذاکر حسین ، اعظم گڑھ Zakir
گزشتہ روز ملک کی قدیم سیاسی جماعت کانگریس نے دہلی کے جنتر منتر پر جمہوریت بچاؤ کے عنوان پر ایک پروگرام منعقد کیا۔جس میں کانگریس نے وزیر اعظم اور ہندو مذہب کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والی تنظیم آر ایس ایس کے خلاف تنقید کانشانہ بنایا ۔ کانگریس سربراہ سونیا گاندھی نے وزیر اعظم اور آر ایس ایس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ کہ دونوں ملکر ملک کی جمہوری بنیاد کو کمزور کرنے کی قابلِ مذمت کوشش کر رہے ہیں ۔ا ب اگر ہم این ڈی اے کی دو سال کی کارکردگی دیکھیں تو کانگریس سربراہ کا وزیر اعظم اور آر ایس ایس پر عائد کیا گیا الزام حقیقت کے بہت پاس ہے ۔ گزشتہ تقریباَدو سالوں میں اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ فرقہ پرستوں کا وحشیانہ سلوک مرکزی حکومت کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہیکہ اگر وزیر اعظم اور آر ایس ایس ملک کی جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں تو کیا کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدام کئے ؟ یہ حقیقت ہیکہ ملک کی جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے کانگریس کی جانب سے جس قسم کی کوششیں کی جانی چاہئے تھی ویسی کوشش کانگریس نے کبھی نہیں کی اور اسی کا نتیجہ ہیکہ ملک میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کھلے عام آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہیکہ ابھی تک آرٹیکل ۳۴۱ پر لگی مذہبی کو ہٹایا نہیں جا سکا ہے ۔ آرٹیکل ۳۴۱ پر لگی مذہبی پابندی جمہوریت کے لئے ایک بد نما دھبّہ ہے ، اگر ہم ماضی کے پردے میں جھانکنے کی کوشش کریں گے تو ہماری یادداشت کے پردوں کی آڑ سے یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ اگر آج وزیراعظم اور آر ایس ایس جمہوریت کو معذور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ماضی میں کانگریس بھی اس قسم کے قابلِ مذمت عمل کی مرتکب ہوئی ہے ۔۲۰۰۸ میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس میں دہلی پولس دو مسلم طلباء کو دہشت گرد بتا کر انکاؤنٹر کرتی ہے اور جب ملک کے مسلمان اور حقوق علمبردار کی تنظیمیں جب اس پولس تصادم کی حکومت سے جو ڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا ہے تو کانگریس کی حکومت یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ انکوائری سے پولس کا مورل ڈاؤن ہوگا ۔یہ کتنے افسوس کی بات ہیکہ کانگریس کو مٹھی بھر پولس کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اس لئے اس نے ملک کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو پسِ پشت ڈال دیا۔آئین ہند کے مطالعے سے پتہ چلتا ہیکہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ (مجموعہ ضابطہ ء فوجداری )کی دفعہ ۱۷۶ کے تحت کسی بھی طرح کے پولس تصادم کی جانچ مجسٹریٹ سے کروانا لازمی ہے ۔لیکن کانگریس کا اس سانحہ کی منصفانہ جانچ سے راہِ فرار اختیار کرنا جمہوری نظام کے ساتھ نا انصافی کرنے جیسا ہے ۔ ماضی کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ راجیو گاندھی نے ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا کھلواکر ملک میں ہندتوا نظریات کی اشاعت کا کام کرنے والوں کو سکون فراہم کیا ۔ ماہرین کی مانیں تو راجیو گاندھی نے یہ قدم سیاسی فائدے کے لئے اٹھایا تھا اور کانگریس کو اس کاعارضی فائدہ بھی ہوا لیکن بعد میں راجیو گا ندھی کی ہندتو اکی تئیں اس نرم پالیسی نے کانگریس کے لئے طویل مدتی خسارے کاسبب بنی ۔کہا جاتا ہیکہ کانگریس میں ہندتوا کے تئیں نرم رویے کی ابتد دگ وجے سنگھ ، ارون نہرو، وسنت ساٹھے اور بوٹا سنگھ سے ہوئی ۔ کانگریس کا ہندتوا نظریات سے نزدیکی نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور کر دیا ۔ اس کاخمیازہ کانگریس کو اتر پردیش اور بہار کی سیاسی حیثیت گنوانے کی شکل میں چکانی پڑی ۔ مظفر نگر فرقہ وارنہ فساد میں مسلمانوں بے شمار نقصانات ہوئے اور انگنت مسلمانوں کو اپنے آشیانے کو خیر آباد کہنا پڑا ۔اس وقت مسلمانوں سے اظہارِ آزادی کے لئے سیکو لرزم کی علمبردار کہی جانے والی کانگریس کے لیڈران کے پاس وقت نہیں تھا۔ لیکن جب وہیں نوئیڈا میں پولس نے بر بریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسا نوں پر لاٹھی چارج کی تو ان سے اظہارِ ہمدردی کے لئے کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی فوراَ وقت نکال لیتے ہیں اگر راہل گاندھی نے کسانوں کے تئیں اپنی ہمدردی جتائی تو کچھ غلط نہیں کیا بلکہ ان کے اس کام کی ستائش ہونی چاہئے ۔لیکن راہل گاندھی کے پاس کسانوں کے لئے وقت ہے تو مسلمانوں کے لئے کیوں نہیں ۔کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ( ۲۰۰۳۔۱۹۹۳) جب مدھیہ پر دیش کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ اس وقت کے این ڈے اے کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کو ممنوعہ تنظیم سیمی کی کارکردگیوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے وزیر داخلہ ایل کے اڈ وانی کو سیمی کے خلاف ایکشن لینے کے لئے اکسایا۔ اس کے بعد سے لیکر اب تک نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر کے ظلم و ستم کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے ۔۲۰۰۶ میں سچر کمیٹی رپورٹ آئی اس رپورٹ نے اگر ملک کے مسلمانوں کو آئینہ دکھا یا تو ملک کی ان سیاسی پارٹیوں کوبھی آئینہ دکھایا جو سیاسی پارٹیاں خود کو مسلم ہمدردی کا راگ الاپتی رہتی ہیں کیونکہ اس رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی کا تفصیلی ذکر ہے ۔ اگر سیاسی پارٹیاں حقیقت میں مسلمانوں کی ہمدر د ہیں تو اب تک ملک کے مسلمان نمبر دو کے شہری بن کر زندگی کیوں گذار رہے ہیں ؟ ۱۹۹۳ ممبئی فساد ات کی انکوائری کے لئے بنائی گئی سری کرشنا رپورٹ اب تک ٹھنڈے بستے میں پڑی ہوئی ہے ۔بہرحال کانگریس کے اس احتجاج کی ستائش ہونی چاہئے کیونکہ ان کے اس احتجاج سے عوام میں مثبت پیغام گیا ہے اورکانگریس نے مرکزی حکومت کی اب تک خراب کارکردگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر کے اپنے سیاسی وجود کا احساس دلایا ہے ۔(ملت ٹائمز)
hussainzakir650@gmail.com

SHARE