مولانا زبیر احمد قاسمی مقبول مدرس اور نمایاں اوصاف کے حامل عالم دین تھے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ہندوستان دنیا کے ان علاقوں میں ہے، جہاں اسلام بالکل ابتدائی دور میں پہنچا؛ بلکہ بعض تاریخی روایتوں کے مطابق عہد نبویﷺ میں ہی اسلام کی روشنی اس خطہ کو منور کر چکی تھی، اگرچہ یہاں اسلام کی آمد جنوبی ساحل اور مغربی علاقوں کی طرف سے ہوئی؛ لیکن اسلام کی کشش نے بہت جلد پورے ملک میں اپنی قبولیت کا عَلَم گاڑ دیا، مغربی سمت سے مسلمانوں کی آمد ایران کے راستے سے ہوئی، جو حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد ہی سے علوم اسلامی کا دار الخلافہ بن چکا تھا؛ اس لئے جب وہاں سے مسلمانوں کا قافلہ ہندوستان میں داخل ہوا تو وہ علم و فکر کی سوغات بھی ساتھ لایا ، اور ہر جگہ علماءنے علم وتحقیق کے اور صوفیاءکرام نے احسان و سلوک کے دسترخوان بچھائے، اور ایک خلقت نے اس سے استفادہ کیا، ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں اگرچہ اسلام دیر سے پہنچا، اور خلجیوں کے عہد میں یہاں مسلمانوں کے قدم مضبوط ہوئے؛لیکن بہت جلد اس خطہ میں بھی علم و فن کی بزمیں آراستہ ہوئیں اور تشنہ گان علم و معرفت کے قافلے پہنچنے لگے، خاص کرعالم اسلام میں تاتاریوں کی تگ و تاز کی وجہ سے اہل علم کی بڑی تعداد نے ہندوستان کا رخ کیا اور انہیں جدوجہد کا ایک وسیع میدان ہاتھ آگیا۔
اگرچہ انگریز وں کے تسلط نے اسلام کے اس بڑھتے قدم کو روکنے کی بڑی کوششیں کیں، لیکن ٹھیک اسی دور میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے جو تحریک مدارس کی بنیاد رکھی، اس نے دینی تعلیم کو ایک عوامی تحریک بنا دیا، پہلے حکومتوں، رئیسوں اور جاگیرداروں کے زیر سایہ دینی تعلیم کا نظم چلتا تھا؛ لیکن اب بے سر وسامان درویشوں نے چٹائیوں پر بیٹھ کر اسلام کی حفاظت و اشاعت اور مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رکھنے کے لئے مدارس کے نظام کو ملک کے چپے چپے تک پہنچا دیا، یہاں تک کہ یہ تحریک پوری دنیا میں پھیل گئی، اور آج مشرق سے مغرب تک ہر جگہ اس شجرہ ¿طوبی کی گھنی چھاﺅں مسلمانوں کو کفر و ارتداد اور الحادوبددینی کی جھلسا دینے والی تپش سے بچا رہی ہے۔
————
ہندوستان کے مشرقی حصہ کے جن علاقوں میں بڑے بڑے علماءپیدا ہوئے اور دور دور تک ان کا فیض جاری ہوا ،ان میں ایک بہار بھی ہے، جہاں بڑے بڑے علماءحدیث و فقہ، سیرت نگار، مو¿رخین اور ادباءپیدا ہوئے، گزشتہ تقریبا نصف صدی میں وہاں صاحب نظر، محنتی، لائق اور بافیض اساتذہ کی ایک بڑی تعداد تیار ہوئی ہے، جس سے پورے ملک نے فائدہ اٹھایا ہے اور آج بھی اٹھا رہا ہے، میرا اپنا گمان ہے کہ علوم اسلامی کی تدریس اور علمی کاموں میں اتر پردیش کے بعد بہار کا حصہ سب سے زیادہ ہے، ماضی قریب میں اس خطہ سے جو باکمال اساتذہ پیدا ہوئے اور جن کی تدریس کو پورے ملک میں شہرت اور قبولیت حاصل ہوئی ،ان میں ایک اہم شخصیت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی دامت برکاتہم کی ہے۔
کھلا ہوا رنگ، روشن کتابی چہرہ، کشادہ پیشانی، سفید ریش، سرمگیں آنکھیں، سر پرگیسوئے تابدار، متوسط قدوقامت اورڈیل ڈول، لباس اورپوشاک کا ذوق لطیف، سر سے پاﺅں تک ایسا سفید لباس کہ گویا کپڑوں نے دودھ میں نہا لیا ہو ، آواز تیز ، لیکن قوت سماعت ایسی مستغنی کہ چھوٹے تو کیا بڑوں کی بھی سننے کو تیار نہیں، یعنی گراں گوش؛ اس لئے میں مزاحاً کہا کرتا ہوں کہ آپ ہم جیسوں کی کیا سنیں گے کہ آپ تو بڑے بڑوں کی نہیں سنتے ہیں،مہمان نواز اور دوستوں سے محبت کرنے والے، سینے میں ایک طرف آنسوو¿ں کا چشمہ اور دوسری طرف آتش غضب، اکثر آگ پہلے اپنا رنگ دکھاتی ہے ؛لیکن جلد ہی دل کی گہرائیوں میں پنہاں محبت کی شبنم اس کو بجھا دیتی ہے؛ اسی لئے قریب رہنے والوں کو ان کے غصہ پر شکایت نہیں ہوتی، دل رقیق اور دماغ بے حد اخاذ، ان اوصاف کو جمع کردیجئے تو پھر اس سے بنتی ہے مولانا موصوف کی شخصیت۔
مولانا کی پیدائش ۱۳۵۹ ھ مطابق ۱۹۳۸ءمیں ہوئی، والد ماجد کا نام جناب عبد الشکور مرحوم ،جن کاانتقال مولاناکے بچپن ہی میں ہوگیا؛ اس لئے چچا کے زیر شفقت ابتدائی تعلیم گاﺅں کے مکتب میں حاصل کی ،۱۳۶۷ھ یا۱۳۶۸ھ میں علاقہ کے ایک بڑی دینی درسگاہ مدرسہ بشارت العلوم ،کھرایاں، پتھرا، میں داخل ہوئے اور یہاں اس زمانہ کے مقبول اورماہر فن استاذ حضرت مولانا سعید احمد صاحب کی خصوصی توجہ اور شفقت حاصل رہی، اور فارسی سے لے کر”ہدایہ اولین “ تک تقریبا تمام کتابیں ان ہی سے پڑھیں، مولانا سعید احمد صاحب کو تدریس کا خداد ملکہ اور افراد سازی کا غیر معمولی سلیقہ ملا تھا، پھرشوال ۱۳۷۷ھ میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، مشکوة شریف اور دورہ حدیث کی یہاں تکمیل ہوئی، اور حضرت مولانا فخر الدین احمدصاحبؒ، علامہ ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا فخر الحسن صاحبؒ، حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحبؒ اور حضرت مولانا ظہور احمد صاحبؒ وغیرہ سے حدیث کی مختلف کتابیں پڑھیں، نیز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سے ”مو¿طا امام مالک“ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ۱۷شعبان المکرم ۱۳۷۹ھ میں تعلیم سے رسمی فراغت حاصل کی۔
استاذ محترم حضرت مولانا سعید احمد صاحبؒ کے تو پہلے ہی سے معتمد شاگرد تھے، فارغ ہوتے ہی شوال ۱۳۷۹ھ میں ان ہی کے زیر سایہ تدریس کی خدمت متعلق ہوئی اور پہلے ہی سال علیا کی کتابیں بھی متعلق ہوگئیں؛ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد نوادہ میں تدریس سے متعلق ہوگئے؛ لیکن وہاں بھی چند ہی مہینے ٹھہر پائے، اور استاذ محترم کے حکم پر مدرسہ بشارت العلوم لوٹ آئے، جہاں ۶ سال تک ”ہدایہ“ اور ”جلالین“ تک بیشتر کتابوں کا درس دیتے رہے؛مگر اب بھی یہ جگہ راس نہیں آئی اور وہاں سے بھی رخت سفر باندھا، تدریس کی شہرت کی وجہ سے کئی مدارس کی دعوت آئی؛لیکن قرعہ فال مدرسہ اشرف العلوم کنہواں کے حق میں نکلا، اور شوال ۱۳۸۳ھ سے وہاں خیمہ زن ہوگئے، دس سال تک اسی ادارے کی خدمت انجام دیتے رہے، اور آپ کی کوششوں سے ادارے نے کافی ترقی کی، یہ دور تدریس اور انتظامی تجربہ کو سنوارنے اور ترقی دینے کا سنہرا دور ثابت ہوا؛ لیکن بعض حضرات سے اختلاف کی وجہ سے دس سال قیام کر کے ۱۳۹۷ھ میں مدرسہ ہذا سے بھی علاحدگی اختیار کرلی، اس درمیان ایک سفر جامعہ قاسمیہ (گیا) کا بھی کیا، مدرسہ جامع العلوم مظفر پور سے بھی دعوت آئی؛لیکن امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب ؒ کی دعوت اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ کی تائید و تقویت کی بنا پر ۱۳۹۸ھ میں جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر آئے،جو صوبہ بہار کی سب سے بڑی دینی درسگاہ ہے اور تعلیمی معیار اور ماحول کے اعتبار سے بہت سی بڑی دینی جامعات پر بھی فائز ہے ، ۹سال اس ادارے کی خدمت کی،یہاں آپ کی تحریری اور تقریری صلاحیت پروان چڑھی؛ لیکن مسافر علم کو یہ منزل بھی موافق نہ ہوئی، اور ۹شوال۱۴۰۶ھ میں جامعہ مفتاح العلوم (مﺅ) کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے وہاں آپ کا پرتپاک استقبال ہوا، لیکن غذا راس نہیں آسکی اور بعض مسائل بھی پیش آئے۔
جب معلوم ہوا کہ مفتاح العلوم مﺅ سے آپ کی مناسبت نہیں ہے، تو حضرت مولانا محمدرضوان القاسمی صاحبؒ اور اس حقیر نے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کے لئے دعوت دی، اور مﺅ میں ایک سال سے بھی کم وقت گذار کر وہ حیدرآباد آگئے، یہاں اس وقت مشکوة شریف تک تعلیم تھی، مدرسہ کی عمارت بھی معمولی تھی، انتظام میں بھی پختگی نہیں تھی اور طلبہ بھی کم تھے؛ اس لئے طبیعت میں جماﺅ پیدا نہیں ہوسکا، حضرت امیر شریعت مولانا سیدمنت اللہ رحمانی صاحبؒ بڑے جو ہر شناس تھے اور جس جوہر کو پہچان لیتے تھے، اس کی خوب قدربھی کرتے تھے، چنانچہ آپ کے مشفقانہ اصرار پر جامعہ رحمانی واپس لوٹ آئے، جامعہ رحمانی اور دارالعلوم سبیل السلام سے کئی بار فراق اور اتفاق کا رشتہ قائم ہوتا رہا، یہاں تک کہ ۱۴۱۲ھ میں اپنے قدیم تدریسی مرکز اشرف العلوم کنہواں کو اپنا منبع فیض بنایا، اور بحمد اللہ آج بھی مولانا کا علمی فیضان بہار کی اس قدیم اور بافیض درس گاہ سے جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ جامعہ بشارت العلوم کا نظم و نسق بھی اب آپ ہی کے کندھوں پر آچکا ہے، اور بحمد اللہ یہ دونوں ادارے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، عام طور پر جو لوگ بار بار جگہ تبدیل کرتے ہیں، ادارے ان کی خدمت سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں رہتے ہیں؛ لیکن مولانا کی تدریسی صلاحیت، طلبہ پر اس کے اثرات اور جس ادارے میں ہوں، وہاں سے مخلصانہ ربط و تعلق اور اس کی اصلاح و ترقی کا بھرپور جذبہ ،وہ نمایاں صفات ہیں ،جس کا نتیجہ ہے کہ:
باغ میں لگتا ہے صحرا سے گھبراتا ہے دل
ایسے دیوانے کو آخر کس جگہ لے جائیں ہم
کے مصداق ہونے کے باوجود مولانا کے قدر دانوں اور مرتبہ شناسوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، ادھر جب سے جامعہ اشرف العلوم کنہواں شمسی (سیتا مڑھی )آپ کے زیرانتظام آیا ہے، ایک نئی تاریخ رقم کر رہاہے، اور ملک کی بڑی بڑی دینی درسگاہوں میں بھی اس کا شہرہ ہے۔
————
مولانا کے علمی کمالات میں دو باتیں بہت نمایاں ہیں، ایک: تدریس کا ملکہ ،دوسرے: تفقہ، وہ تدریس کے کام کو سلف صالحین کی طرح ایک عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں، ایام واوقات کی پابندی، اسباق کی تکمیل، کسی بھی مضمون کو پڑھانے سے پہلے اس کی تیاری اور بھرپور مطالعہ، پھر سبق پڑھانے کے دوران مضمون کی ایسی وضاحت کہ ذہین ہی نہیں غبی طلبہ بھی سمجھ لیں، وہ گونگے سبق کے نہیں ؛بلکہ بولتے ہوئے سبق کے قائل ہیں، طلبہ کو درس میں اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کے نامکمل جملوں کو طلبہ کوپورا کرناپڑتاہے، اس کی وجہ سے کوئی سوتا ہوا طالب علم ان کے درس میں شریک نہیں ہوسکتا، اور کوئی غافل شریک درس اپنی غفلت کو چھپا نہیں سکتا، اسی طرز تدریس کی وجہ سے کمزور طلبہ بھی کتاب سمجھ لیتے ہیں، جہاں تک میرا اندازہ ہے، ان کا درس مختصر لیکن جامع ہوتا ہے، گفتگو میں اتنا پھیلاﺅ نہیں ہوتا کہ طلبہ اس کو ہضم نہ کر پائےں، اور یہ مدرس کا کمال ہے کہ وہ طلبہ کی صلاحیت اور ذہنی سطح کے اعتبار سے ہی مضامین ان کے سامنے رکھےں، مزاج میں ایک گونہ شدت اور گاہے گاہے لب و لہجہ میں پیدا ہونے والی تلخی اور تربیتی نقطہ نظر سے سخت گیری کے باوجود طلبہ ان سے مانوس رہتے ہیں، اس کا سبب یہی ہے۔
مولانا کا دوسرا نمایاں وصف ان کا تفقہ ہے، فقہی معلومات کا جمع کرلینا ،فقہی جزئیات کو پڑ ھ جانا اور اسے اپنے ذہن میں مستحضر کرلینا یقینا ایک بڑا کام ہے؛ لیکن اس سے آگے کی منزل یہ ہے کہ شریعت کے اصول و مقاصد، فقہی قواعد اورسلف صالحین کے اجتہادات کو سامنے رکھ کر نیز زمانہ کے احوال و مسائل سے آگہی کے ساتھ ایک درست رائے قائم کی جائے، یہاں تک کہ کوئی مسافر تلاش و تحقیق کا طویل سفر طے کرنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ وہی ہو جو اس نے پہلے مرحلہ میں کہہ دیا تھا، اس حقیر کے خیال میں یہی اصل تفقہ ہے، اور یہ ملکہ کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، اس کے لئے قوت مطالعہ کے ساتھ ساتھ قوت فکریہ اور جزئیات پر نگاہ کے ساتھ ساتھ اصول و مقاصد پر نظر بھی ضروری ہے، بحمد اللہ مسائل فقہیہ کے مذاکرہ کے درمیان مولانا کی یہ شان نظر آئی؛ اسی لئے مختلف اہل علم خاص کر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ ان کی بڑی قدر دانی کرتے اوران کی آراءکی وقعت کو تسلیم کرتے تھے۔
————
مولانا اگر تصنیف و تالیف کی طرف توجہ کرتے تو ملک کے بڑے مصنفین میں شمار ہوتا؛ لیکن وہ پڑھتے زیادہ ہیں، سوچتے اس سے زیادہ ہیں، اور لکھتے کم ہیں، اور چونکہ تدریس سے زندگی بھر کا تعلق رہا ہے؛ اس لئے تحریر میں بھی مشکل الفاظ ، فنی اصطلاحات اور مدرسانہ تعبیرات در آتی ہیں، تاہم عوام کے لئے جو کچھ لکھتے ہیں، اس میں نسبتاً آسان زبان اور عام فہم اسلوب اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحبؒ کے پاس ملک بھر سے خطوط آتے رہتے تھے اور ان میں بعض خطوط شبہات اور اشکالات پر مبنی ہوتے تھے، اسی طرح ایک فاضل کا خط یتیم پوتے کی میراث سے متعلق آیا تھا، حضرت امیر شریعتؒ نے وہ خط مولانا موصوف کے حوالہ کردیا، اور انہوں نے اس کا اطمینان بخش اور عالمانہ جواب لکھا، جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی طرف سے شائع ہوچکا ہے، اسی طرح ایک صاحب علم نے ہندوستان میں دار القضاءکے نظام کے خلاف ایک رسالہ لکھا اور اس کو پورے ملک میں تقسیم کرایا، حضرت مولانا سیدمنت اللہ رحمانی صاحبؒ کی ایما پر مولانا موصوف نے اس کا جواب لکھا اور خوب لکھا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا) کے بانی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ نے شروع سے اکیڈمی کے قافلہ میںمولانا کو شامل رکھا، جب اکیڈمی کا نقش اول ”مرکز البحث العلمی،پٹنہ“کے نام سے وجود میں آیاتو حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ نے اس کے لئے چند افراد کو نامزد فرمایا تھا، اس میں بھی مولانا موصوف کا نام نامی شامل تھا، وہ شروع ہی سے اکیڈمی کے سمیناروںمیں زیر بحث آنے والے موضوعات پر لکھتے رہے ہیں اور چند سال پہلے تک اس کا تسلسل قائم رہا، ان کی یہ تحریریں اکیڈمی کے فقہی مجلات میں شامل ہیں اور بڑی وقعت کی حامل ہیں، وہ زیادہ لمبی تحریر نہیں لکھتے ہیں؛ لیکن ان کی تحریرمیں مغز ہی مغز ہوتا ہے اور موضوع سے متعلق اصولی اور اساسی بحث ہوتی ہے، فقہی سمینار کے عنوانات سے ہٹ کر بھی انہوں نے بہت سے عنوانات پر قلم اٹھایا ہے، اور مسئلہ کی روح کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے، اگرچہ گراں گوشی کی وجہ سے اکیڈمی کے سمیناروں میں ہونے والی بعض بحثیں ان کی سماعت سے بچ کر نکل جاتی ہیں؛ لیکن ان کی مدلل رائے اور مخالف نقطہ نظر پر گرفت بہت مضبوط اور مبنی برتحقیق ہوتی ہے۔
انہوں نے دارالعلوم سبیل السلام میں کئی سال بخاری شریف کا درس دیا، وہاں ان کی تشریف آوری میں اس حقیر کی کوششوں کا بھی دخل تھا، پھر جب انہوں نے سبیل السلام چھوڑا تو بخاری کا درس اس حقیر سے متعلق ہوگیا، اور جب تک وہاں رہنا مقدر تھا، بلااستحقاق اس کی سعادت حاصل ہوتی رہی، مدرسہ میں ہندوستان کے مطبوعہ بخاری شریف کے ایک نسخہ کو پانچ اجزاءپر تقسیم کر کے مجلد کرا دیا گیاتھا؛ تاکہ استاذ کو سہولت ہو، یہی نسخہ پہلے ان کے زیر تدریس تھا اور یہی بعد میں میرے زیر تدریس آیا، مولانا نے اس نسخے میں جگہ کے اعتبار سے کہیں بین السطور اور کہیں حاشیے پر اشارات لکھ رکھے ہیں، یہ بے حد مختصر ؛لیکن بہت جامع اور مفید ہیں، اسے مدرس ہی سمجھ سکتا ہے، اور وہی مدرس کہ بخاری کی متداول شروح جس کے سامنے ہو۔
اہل علم کی ایک شان یہ ہوتی ہے کہ انہیں دوسروں کی رائے قبول کرنے میں تا¿مل نہیں ہوتا اور جذبہ¿ اَنا اعتراف میں رکاوٹ نہیں بنتا، اگر بزرگوں کی یہ شان نہ ہوتی تو ان کی آراءمیں کثرت رجوع کے اقوال نہیں پائے جاتے اور امام ابوحنیفہؒ جیسے عظیم فقیہ کی رائے کے ساتھ صاحبین کی رائے کا ذکر نہیں آتا، یہ عالمانہ شان مولانا کے یہاں بھی بدرجہ¿ اتم موجود تھی، جب تک دار العلوم سبیل السلام میں ہم دونوں کا قیام رہا، عام معمول تھا کہ اگر میں کوئی اہم فقہی تحریر لکھتا تو ان کو پیش کرتا، اس وقت چونکہ ”قاموس الفقہ“ کی ترتیب کا کام چل رہا تھا؛ اس لئے ایسی تحریریں بار بار لکھنے کی نوبت آتی تھی، اور میری خواہش ہوتی تھی کہ یہ کسی اور صاحب علم کی نظر سے بھی گزر جائے اور مولانا موصوف سے بڑھ کر اس کے لئے اور کون موزوں ہوسکتا تھا، مولانا بہ نظر غائر پڑھتے اور جہاں کہیں کوئی بات کھٹکتی تو اس پر ہم لوگوں کی آپس میں گفتگو ہوتی، جہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی وہاں تبدیلی بھی کی جاتی، اسی طرح مولانا جب کوئی اہم تحریر لکھتے تو مجھے پڑھنے کو دیتے ،یا خود پڑھ کر سناتے اور اس پر بھی گفتگو ہوتی، اور کوئی ترمیم کی تجویز ہوتی اور اس پر مطمئن ہوجاتے تو بے تکلف اس میں تبدیلی کردیتے؛ بلکہ زبان و بیان کے نقطہ نظر سے تواکثر تر میری ہی رائے کو ترجیح دیتے، اس عالمانہ عالی ظرفی نے دل میں ان کی محبت و عظمت اور بڑھاد ی۔
مولانا اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا) کے سمیناروں میں پابندی سے شریک ہوتے رہے ہیں، اور اپنے وقیع مقالات بھی تحریر کرتے رہے ہیں، بعض مقالات مختصر ہیں اور بعض متوسط حجم کے؛ لیکن علمی تحریروں میں اصل اہمیت مقدار کی نہیں، معیار کی ہوتی ہے، اس اعتبار سے ان کی تحریریں بڑی چشم کشا اور مسئلہ کے حل میں کلیدی اہمیت کی حامل ہیں، فقہاءنے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ شارع کی نصوص میں تو مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ؛لیکن فقہاءکے کلام میں مفہوم مخالف کا اعتبار ہے، فقہاءجب بھی کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے مد مقابل کو اس حکم کے دائرے سے باہر نکالنا مقصود ہوتا ہے، فقہی حدود و شرائط کی یہ رعایت ان کی تحریروں میں بھرپور طور پر موجود ہوتی ہے اوران کے مقالات و مناقشات سے مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے، کاش، مولانا کے کوئی شاگرد اُن کی تحریروں کو مرتب کردیتے، اور جہاں حوالہ جات مختصر ہوں، ان کی تخریج کردیتے، اور ان مقالات کے ساتھ ساتھ ان تحریروں کو بھی شامل کردیتے ،جو انہوں نے کسی اور پروگرام میں پیش کی ہے، یا کسی خاص مناسبت سے لکھی ہے، نیز حسب ضرورت ذیلی عنوانات قائم کردیتے اور عربی عبارتوں کا ترجمہ ہوجاتا، تو ایک بہتر کام ہوجاتا، اس طرح اس سے اہل علم اور خواص کو بھی استفادہ کا موقع ملتا۔
اس حقیر نے مولانا کو قریب سے دیکھا ہے؛ اس لئے ان کے بعض اخلاقی اوصاف کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے؛ تاکہ مدارس اسلامیہ کے نئے فضلاءاس سے روشنی حاصل کرسکیں، مولانا کے اندر نماز باجماعت اور صف اول کا اہتمام خاص طور سے پایاجاتا ہے، اسی طرح رقیق القلبی بھی آپ کا ایک نمایاں وصف ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کے مزاج میں دو متضاد چیزیں جمع ہیں، غصہ کی چنگاری اور محبت کی شبنم دونوں دوش بہ دوش رہتی ہیں، جب یہ چنگاری سلگتی ہے تو تنبیہ وفہمائش تندگوئی اور تلخ نوائی کی آخری سرحدپر پہنچ جاتی ہے، اور جب محبت کا رنگ غالب آتا ہے تو شفقت و رافت کے آنسو آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں،اس معاملہ میں کئی واقعات چشم دید ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا غصہ وقتی ہوتا ہے، اور جلد ہی وہ اظہار محبت اور مشفقانہ معذرت میں تبدیل ہوجاتا ہے، جب کوئی بات اصول کے خلاف ہوتی ہے یا کوئی کارکن اپنے کام میں کوتاہی کرتا ہے تو یہ بات ان کو بہت ہی ناگوار گزرتی ہے، اور اس پر خاموش رہنا ان سے برداشت نہیں ہوتا،چاہے یہ مصلحت کا تقاضا ہی کیوں نہ ہو؛ لیکن اگر کسی معاملہ میں یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ان کو غلط فہمی ہوئی ہے یا انہوں نے تنبیہ میں حدود سے تجاوز کرلیا ہے تو پھر انہیں رجوع واعتراف میں بھی کوئی تامل نہیں ہوتا ۔
مولانا اس وقت جامعہ اشرف العلوم کنہواں شمسی کے ناظم ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ بشارت العلوم کھرایاں،پتھرا کے بھی نگراں اعلی ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے رکن تاسیسی اور مختلف دینی مدارس کے سرپرست ہیں، ان کے شاگرد پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، اور جن طلبہ نے ان سے پڑھا ہے، وہ سب مولانا کے حق میںرطب اللسان اور ممنونِ احسان ہیں، سلف صالحین کے ہاں تدریس کے کام کو ایک عبادت کی طرح انجام دیاجاتا تھا،مولانا نے ہمیشہ اسی طرح اس کام کو انجام دیا، پیرانہ سالی اور مسلسل علالت و نقاہت کی وجہ سے ادھر کچھ عرصہ سے تدریسی سلسلہ منقطع ہے اور اپنے مکان ہی پر مقیم ہیں؛ لیکن جامعہ اشرف العلوم کنہواں ان کے زریں مشوروں سے روشنی حاصل کرتا رہتا ہے اور ان کی ہدایات کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر تعلیمی سفر طے کر رہا ہے، دعاءہے کہ اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے اور تادیر عافیت کے ساتھ ملت اسلامیہ پر ان کا سایہ قائم رکھے۔
اس وقت تحریروںکا یہ مجموعہ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے، یہ اہم یادداشتوں پر مشتمل ہے، مولانا نے اپنے طویل مطالعاتی سفر میں جہاں ایسے جواہر ریزے پائے ، جو علوم اسلامی کے اساتذہ اور طالبان علوم نبوت کے لئے اہمیت کے حامل تھے توان کو بطور یادداشت کے اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا؛ اسی لئے یہ کہیں عربی میں ہےں اور کہیں اردویافارسی میں، اب یہ متفرق شہ پارے مل کر خاصے کی چیز ہوگئے ہیں، انشاءاللہ اہل علم اس سے فائدہ اٹھائیں گے، اور بہت سی ایسی چیزیں جو کتابوں میںبکھری ہوئی ہیں، انہیں یکجا مل جائیں گی، دعاءہے کہ اللہ تعالی اس خزانہ علمی کے نفع کو عام و تام فرمائے، ربنا تقبل منا انک ا¿نت السمیع العلیم۔
(نوٹ: یہ مضمون مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پیش لفظ کے طور پر مولانا زبیر احمد قاسمی کی شائع ہونے والی ڈائری” علمی یاداشتیں “کیلئے تحریر کیاتھا جو مولانا زبیر احمد قاسمی رحمة اللہ علیہ بقید حیات تھے )