عظیم اتحاد نہیں، بلکہ عزم و اتحاد کی ضرورت

سہیل عابدین
پارلیمانی انتخابات میں غالباً 100دن رہ گئے ہیں۔ اس لئے مختلف سیاسی جماعتوں نے اس سیاسی موسم میں چھلانگ لگانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مخالف جماعتوں نے عظیم اتحاد قائم کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ وہیں برسر اقتدار جماعت کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ 2019کے انتخابات جیتنے کے لئے ہر ناممکن کو ممکن میں تبدیل کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کے قومی صدر نے اپنی مخالف پارٹی کو نشانہ بنایا ۔ انہوں نے عظیم اتحاد کو ٹھگ بندھن سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ اپنی سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو متنبہ کیا کہ آنے والے انتخابات کو سنجیدگی سے دیکھیں۔ 2019کا انتخاب نظریاتی انتخابات ہے۔ دو مختلف نظریے کے لوگ آمنے سامنے ہونگے۔ آنے والا انتخابات ہندوستان کے غریبوں ، نوجوانوں اور ملک کے کڑوروں لوگوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مخالف پارٹی کے عظیم اتحاد کے سلسلے میں تنز و مزاح کا سلسلہ جاری ہے۔ مخالف پارٹی کو معلوم ہے کہ اکیلے کے دم خم پر مودی سرکار کو گرانا اتنا آسان نہیں۔ بی جے پی نے اعلانیہ طور پر اپنے ورکروں سے اپیل کی ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے عزم مصمم کریں۔ 2014میں چھ ریاستوں میں بی جے پی کی سرکار تھی، موجودہ وقت میں 16ریاستوں میں بی جے پی کی سرکاریں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی نے نئے لائحہ عمل کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حال ہی میں کاشتکاروں کے فصلوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیاہے۔ ملک میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے کو مستحکم بنایا جا رہا ہے۔ تاکہ ملک کی عوام راحت محسوس کر سکے۔ بی جے پی کا ووٹ بینک جو کھسک رہا تھا۔ اسے پھر سے پارٹی کی جانب متوجہ کرنے کے لئے اقتصادی طور پر کمزور طبقے کو ریزرویشن دے کر ثابت کر دیا ہے۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی کی جڑیں ہندو ووٹ بینک ہی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مرکزی سرکار نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلم یعنی ہندوﺅں کو ہندوستانی شہریت حاصل کروانا آسان بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم اتحاد سے مقابلہ کرنے کے لئے موجودہ سرکار عجلت سے کام کر رہی ہے۔ جیسا کہ گجرات میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے کے لئے 10فیصد ریزرویشن کو نافذ کر دیا گیا۔ لیکن عین انتخابات سے قبل لایا گیا بل اونچی ذات کے لوگوں کو کس طرح متاثر کریگا یہ بڑا سوال ہے۔ بی جے پی اپنی بقا کے لئے اتر پردیش اور بہار میں اپنی سیٹوں کو بچانے کے لئے پوری شد و مد کے ساتھ انتخابی جنگ لڑنے کو تیار ہے۔ اتر پردیش میں نفرت کی سیاست بام عروج پر ہے۔ وہیں مغربی بنگال میں بھی بی جے پی اپنی سیٹوں میں اضافہ کے لئے کوشاں ہے تاکہ اپنے اکثریتی حلقوں میں گنوا چکے سیٹوں کی بھرپائی مغربی بنگال سے پوری کر سکے، لیکن بی جے پی کی بدنصیبی کہئے کہ سپریم کورٹ نے نفرت کی لہر پیدا کرنے والوں پر بریک لگا دیا۔ بلا خوف و خطر اتر پردیش بی جے پی کے لئے اقتدار کی چابی ثابت ہو سکتی ہے۔ اتر پردیش کی 80سیٹیں در اصل بی جے پی کے لئے کار آمد ثابت ہونگی ، جس کے سہارے دہلی کا قلعہ فتح کیا جا سکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اترپردیش میں عظیم اتحاد کے بعد ایس پی، بی ایس پی نہ صرف ریاستی طور پر سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے گی بلکہ بی جے پی کے کئی قدآور لیڈروں کو عبرت ناک شکست بھی دے سکتی ہے۔ کیونکہ اترپردیش میں پہلے جیسے حالات نہیں ہیں، 2014میں بی جے پی اتحاد کی بنیاد پر انتخابی میدان میں آئی تھی جبکہ ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس وغیرہ الگ الگ لڑ رہے تھے اب ایس پی ، بی ایس پی ساتھ ساتھ ہیں لہذا یہ ساتھ بی جے پی کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
آنے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں میں عظیم اتحاد بنانے کے جو سلسلے شروع ہوئے ہیں ، انہیں حال ہی میں ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان ہوئے اتحاد سے جھٹکا سا محسوس ہوا ہے۔ اس اتحاد نے کانگریس کو صرف دو سیٹ دینے کی بات کہی تھی جسے کانگریس نے ٹھکرا دیا۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ انکی پارٹی ریاست کے سبھی 80سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریگی۔ بی ایس پی کے اڑیل رویے کی وجہ کر RLD(راشٹریہ لوک دل) سے ابھی تک کوئی باہمی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ انہیں تین سیٹیں دینے کی پیش رفت کی گئی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا ہے۔ اسی طرح سے بی جے پی مخالف کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی اس اتحاد سے الگ ہو کر اپنی اپنی کھچڑیاں پکانے میں جٹی ہوئی ہیں۔ بی جے پی کو یہ امید ہے کہ اپوزیشن کا یہ بکھراﺅآنے والے پارلیمانی انتخابات میں انکے لئے کار آمد ثابت ہوگا۔ 2014کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اتر پردیش کی 80سیٹوں میں سے 73سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ مرکز میں کس پارٹی کی سرکار بنے گی اس کا فیصلہ اتر پردیش ہی طے کرتا آیا ہے۔ لہذا دہلی کی گدی پر کون قابض ہوگا ۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کولکتہ میں منظم کئے جانے والے عظیم اتحاد کی ریلی سے ملک کی سیاست ایک نیا موڑ لے گی۔ بی جے پی کے خلاف ہر چہار جانب یکجہتی دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ قومی سیاست میں چھلانگ لگانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ عظیم اتحاد میں ایک ہی امید کی کرن دیکھائی دیتی ہے اور وہ ہے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ جو کہ غیر بی جے پی کو یکجا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تلنگانہ کے انتخاب میں منھ کی کھانے کے باوجود بھی وہ ایک ایسا سیاستداں ہے جو کہ بی جے پی مخالف پارٹی کو قبول ہو سکتا ہے۔
موجودہ حالات کا جائزہ 2014سے لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بی جے پی نہ تو صرف باہر سے بلکہ اندرونی طور پر بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ لیڈران اس کا حل نکالنے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورت میں مخالف پارٹی کے پاس بہتر موقع ہے کہ وہ عوام کو اپنی جانب راغب کریں۔ بر سر اقتدار پارٹی کے تمام سیاستدانوں پر دباﺅ ہے اور آنے والے مہینوں میں یہ دباﺅ اور بھی بڑھ جائنگے۔ وزیر اعظم اور پارٹی کے صدر ان دونوں کو ہندوتوا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر ان دونوں لیڈروں کو حاشئے پر لگا دیا جائے تو مخالف پارٹیوں کے لئے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ حالات حاضرہ میں اپوزیشن اور حکمراں دونوں ہی کسی نہ کسی محاذ پر کمزور ہیں۔ اپوزیشن کے پاس مواقع نہیں تو حکمرانوں کے پاس نظریات نہیں۔ اگر بی جے پی ہندوتوا کے نظریے کو ترک کر دیتی ہے تو یہ پارٹی لیکئے بہتر قدم ہوگا کیونکہ ملک کے حالات غیر جمہوری ہوتے جا رہے ہیںجسے ملکی سطح سے لیکر بین الاقوامی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات جب تبدیل ہونگے تو ان میں مذہب اور قوم پرستی زیادہ نظر آئیگی ۔