چودھری آفتاب احمد
ملک میں پارلیمنٹ کے عام انتخابات ہو رہے ہیں،تیسرے مرحلہ کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے،گزشتہ پانچ برس سے ملک میں این ڈی اے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت ہے،اس الائنس کی اہم پارٹی بی جے پی ہے،وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے لیڈر ہیں،باقی چھوٹی پارٹیاں بی جے پی کی معاون پارٹیاں ہیں،پچھلے انتخابات میں بی جے پی نے بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی تھی،بی جے پی کو یہ کامیابی شمالی ہند کی ان ریاستوں میں ملی تھی،جن ریاستوں میں ہندی زبان بولی اور پڑھی جاتی ہے، یعنی وہاں کی سرکاری زبان ہندی ہے،غیر ہندی ریاستوں میں بی جے پی کو وہاں کی علاقائی پارٹیوں کے سامنے حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا،ایسی ریاستیں جنوبی ہند اور شمال مشرق میں ہیں،جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوں میںبی جے پی کو کامیابی نہیں ملی تھی،
اب 2019کے عام پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں،شمالی ہند میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے،شمال مشرق اور جنوبی ریاستوں میں وہ عوام کی حمایت تلاش کر رہی ہے،وہاں کی علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے،تاکہ شمالی ہند کی ریاستوں کے نقصان کی بھر پائی کی جا سکے،لیکن ان ریاستوں میں بی جے پی کو کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں سمیت ان علاقائی پارٹیوں سے مقابلہ کا سامنا ہے،جن پارٹیوں نے کانگریس یا دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم نہیں کیا ہے،
ہم نے گزشتہ مضمون میں شمالی ہند کی ہندی بولنے والی ریاستوں کا تجزیہ کیا تھا،اور جانا تھا،کہ 2014میں بی جے پی کی فتح کی وجوہات کیا تھیں،اور اب 2019میں اسے کیوں نقصان ہو رہا ہے؟اسی کے تناظر میں ہم اس مضمون میں ان ریاستوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ،جن ریاستوں میں ہندی زبان بولی اور پڑھی نہیں جاتی،ایسی ریاستوں میں بی جے پی کو گزشتہ انتخابات میں ناکامی ہاتھ لگی تھی،اب ان ہی ریاستوں میں بی جے پی شمالی ہند میں ہو رہے نقصان کی بھر پائی کرنے جا رہی ہے،
ہندوستان کی مغربی ریاستوں میں حالانکہ غیر ہندی ریاستیں ہونے کے باوجود بی جے پی کو کامیابی ملی تھی،اس کامیابی کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق گجرات سے ہونا ہے،مغربی ریاستوں میں سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو گجرات سے ہی ہوا تھا،گجرات میں پارلیمنٹ کی 26سیٹیں ہیں،بی جے پی نے تمام 26سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی،اس ریاست میں بی جے کو60.11فیصد ووٹ ملے تھے،جبکہ اس کی حریف کانگریس پارٹی کو33.45فیصد ووٹ ملے تھے،مگر اب یہاں کانگریس کی پوزیشن پہلے سے مضبوط ہو رہی ہے،کانگریس نے اسمبلی انتخابات میں پہلے ہوئے انتخابات سے بہتر مظاہرہ کیا ہے،امید ہے اس مرتبہ کانگریس یہاں سے کچھ سیٹیں حاصل کے گی،اور بی جے پی کی سیٹوں میں کمی آئے گی،لیکن مقابلہ سخت رہے گا،مرکز کے زیر انتظام دمن دیو کی ایک سیٹ بھی بی جے پی نے ہی جیتی تھی،
مغربی ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں پارلیمنٹ کی سیٹیں 41ہیں، ان میں بی جے پی نے 23سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی،مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت ہے،اور عوام اس حکومت سے بیزارہے،مہاراشٹر کا کسان غریب مزدور بی جے پی کو بدلنا چاہتا ہے،اس کا نقصان بی جے پی کو پارلیمانی انتخاب میں بھی اٹھانا پڑسکتا ہے،مغربی ریاست گوا میں پارلیمنٹ کی ایک سیٹ ہے،یہ سیٹ بی جے پی کے پاس ہے،یہاں کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کا انتقال ہو چکا ہے،منوہر پاریکر کی گوا میں امیج تھی،لیکن ان کے جانے کے بعد بی جے پی اس سیٹ کو بچانے میں کامیاب رہہ پائے گی کہنا قبل از وقت ہے،یہاں بی جے پی کو کانگریس سے سخت مقابلہ ہے،
ہندوستان کی مغربی ریاستوں کے تجزیہ کے بعد روخ کرتے ہیں جنوبی ہند کی ریاستوں کا،جنوبی ہند کی ریاستوں میں کرناٹک ایسی ریاست ہے،جہاں بی جے پی کی حکومت رہی ہے،کرناٹک میں پارلیمنٹ کی 26سیٹیں ہیں،ان میں بی جے کے پاس 17سیٹیں ہیں،حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میںکانگریس نے بی جے پی کو ہراکر کرناٹک میں جنتا دل سیکولر کو حمایت دیکر حکومت بنوائی ہے،کانگریس ۔ جنتا دل سیکولر اتحاد کو پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی کامیابی ملنے کی امید ہے،
کیرلا میں پارلیمنٹ کی 20سیٹیں ہیں،یہاں بی جے پی کا اثر نہیں ہے،بی جے پی اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے،اسی اثر کو کم کرنے کے ارادہ سے کانگریس صدر راہل گاندھی نے وائناڈ سے پرچہ داخل کیا ہے،یہاں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مین اسٹریم میں ہیں،تمل ناڈو میں بھی بی جے پی کا اثر نہیں ہے، یہاں بھی بی جے پی چھوٹی پارٹیوں کا سہارا لیکر پیر جمانے کی کوشش کر رہی ہے،
اندھرا پردیش اور تیلنگانہ میں بھی بی جے پی عوام پراپنا اثر نہیں رکھتی،یہاں سے بھی بی جے پی کو فائدہ کی امید نہیں ہے،تیلنگانہ اسمبلی انتخابات میں میں بی جے پی کی بری ہار ہوئی ہے،وہ بھی تب جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حیدر آباد اور سکندر آباد کا حکومت میں آنے پر نام بدلنے کا وعدہ کر ڈالا تھا،پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی عوام اسے کامیابی سے ہمکنار نہیں کر پائے گی،
بی جے پی کی سب سے تیز نظری جنوب مشرقی ریاست اوڈیشہ پر ہے،یہاں بیجو جنتا دل کی حکومت ہے،جو کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہے،بی جے پی نے پچھلے الیکشن میں ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی،وہ یہاں اپنی سیٹوں کو بڑھانے کی فکر میں ہے،مگر بیجو جنتا دل سے حزیمت کا سامنا ہے،بی جے پی اوڈیشہ کی ہی طرح بنگال میں ممتا بنرجی کے پیچھے پڑی ہے،ممتا بنرجی بنگال میں بی جے پی کے پیر نہیں جمنے دے رہی ہیں،یہاں ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے،کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس مین اسٹریم کی پارٹیاں ہیں،
شمال مشرقی ریاستوں میں سب سے پہلے آسام کا ذکر کرتے ہیں،آسام ہی شمال مشرقی ریاستوں میں جانے کا دروازہ ہے،آسام میں بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں سات سیٹیں جیتی تھیں،بی جے پی کی یہ جیت سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوئی تھی،یہاں کانگریس،آسام گن پریشد اور اے آئی یو ڈی ایف پارٹیاں مین اسٹریم میں ہیں،آسام میں بی جے پی نے اسمبلی میں اپنی حکومت بھی بنائی ہے،حکومت سازی کی وجہ یہ رہی،کہ اے آئی یو ڈی ایف کی قیادت مولانا بدر الدین اجمل کرتے ہیں،وہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے اتحاد کر ناچاہتے تھے،تاکہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روک کر بی جے پی کواقتدار میں آنے سے روکا جا سکے،کانگریس نے اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد نہیں کیا تھا،نتیجہ وہی ہوا،کہ بی جے پی پہلی بار آسام کے اقتدار میں آگئی،اب وہ اپنی سات سیٹوں میں اضافہ کی کوشش کر رہی ہے،اے آئی یو ڈی ایف سے کانگریس نے پارلیمانی انتخابات میں بھی اتحاد نہیں کیا ہے،حالانکہ مولانا بدر الدین اجمل نے اس کی کئی مرتبہ کوشش کی،لیکن کانگریس اتحاد کے لئے تیار نہیں ہوئی،ممکن ہے،یہاں بی جے پی پھر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ اٹھاکر پارلیمنٹ کی سیٹوں میں اضافہ کر لے،
شمال مشرق کی سات ریاستوںکی نو پرلیمانی سیٹوں میں سے بی جے پی نے اروناچل پردیش کی ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی،ان ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کی بھرمار ہے،جن کا مقابلہ کہیں کہیں کانگریس کے ساتھ رہتا ہے،ملک بھر کی ہر ریاست میں کئے گئے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے،کہ بی جے پی کودوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے حریف پارٹیوں کے ساتھ سخت ترین مقابلہ کا سامنا ہے۔
(مضمون نگار ہریانہ کے سابق وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر ہیں)