محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات دور نہ ہوں تو قرآن کریم (سورۃ النساء ۳۵) کی تعلیم کے مطابق دونوں خاندان کے چند افراد کو حکم بناکر معاملہ طے کرنا چاہئے۔ غرضیکہ ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے کہ ازدواجی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے ۔جس کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: (۱)عورت پاکی کی حالت میں ہو۔ (۲) شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کئے جاسکتے ہیں۔عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتو صرف ایک طلاق دے دی جائے تاکہ غلطی کا احساس ہونے پر عدت کے دوران رجعت اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ کھلا رہے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بالکل بچنا چاہئے کیونکہ اس کے بعد رجعت یا دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ بظاہر بند ہوجاتا ہے۔
طلاق کا اختیار مرد کو:مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دونوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سور�ۂ النساء ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے طلاق دینے کا اختیار مرد کو دیا ہے۔
خُلَع:لیکن عورت کو مجبور محض نہیں بنایا کہ اگر شوہر بیوی کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کررہا ہے یا بیوی کسی وجہ سے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تو عورت کو شریعت اسلامیہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر عورت واقعی مظلومہ ہے تو شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کرے ورنہ عورت کے مطالبہ پر اسے طلاق دیدے خواہ مال کے عوض یا کسی عوض کے بغیر۔ لیکن اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کررہا ہے تو بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے تاکہ مسئلہ کا حل نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہوجائے گی اور عورت عدت گذارکر دوسری شادی کرسکتی ہے۔ خلع کی شکل میں طلاق بائن پڑتی ہے یعنی اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو رجعت نہیں ہوسکتی بلکہ دوبارہ نکاح ہی کرنا ہوگا، جس کے لئے طرفین کی اجازت ضروری ہے۔
طلاق کی قسمیں: عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: طلاق رجعی، طلاق بائن اور طلاق مغلظہ۔
طلاق رجعی: واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائے۔ مثلاً شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح فوراً نہیں ٹوٹتا بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عدت کے دوران مرد جب چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شرعاً رجعت کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
طلاق بائن:ایسے الفاظ کے ذریعہ جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے نہ ہوں، جیسے کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے میکے چلی جا، میں نے تجھے چھوڑ دیا۔ اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہوگی جبکہ شوہر نے ان الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن پڑتی ہے یعنی نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوسکتے ہیں۔
طلاق مغلظہ: اکٹھا طور پر یا متفرق طور پر تین طلاق دینا طلاق مغلظہ (سخت) ہے، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں ، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور دونوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی طلاق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ البقرۃ آیت ۲۳۰)میں اس طرح بیان فرمایا ہے: فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجاً غَےْرَہُ، فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَےْہِمَا اَن یَّتَرَاجَعَا اِنْ ظَنَّا اَن یُّقِےْمَا حُدَوْدَ اللّٰہِ پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ) عورت اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر (دوسرا شوہر بھی ) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں، بشرطیہ کہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ وہ اب اللہ کی حدود قائم رکھیں گے۔ اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے ، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ اس کے صحیح ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں: دوسرا نکاح صحیح طریقہ سے منعقد ہوا ہو۔ دوسرے شوہر نے ہم بستری بھی کی ہو۔ دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے یا وفات پاجائے اور دوسری عدت بھی گزر گئی ہو۔ حلالہ کے لئے مشروط نکاح کرنا حرام ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق: طلاق رجعی اور طلاق بائن کی شکلوں میں عمومی طور پر اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے ابغض الحلال طلاق کے صحیح طریقہ کو چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں عورت کی ناپاکی کے ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جس میں کوئی صحبت کی ہو، یا ایک ہی وقت میں تین طلاقین دے دیں،تو مذکورہ بالا تمام صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، ہند، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے علماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ ۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی فیصلہ کیا تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ صرف علماء کرام کی ایک چھوٹی سی جماعت یعنی اہل حدیث (غیر مقلدین) کی رائے ہے کہ ایک واقع ہوگی۔ ان حضرات نے جن دلائل کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین نے ان کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کی بہت بڑی تعداد اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گذارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں یعنی صحبت کریں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر متعدد مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف بھی کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے دلائل پر بحث نہیں کی ہے لیکن میرے دوسرے مضمون میں قرآن وحدیث کے دلائل مذکور ہیں۔ (ملت ٹائمز)