بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کے ایک بیان کے مطابق’’جسٹس سونیت کمار نے رٹ پٹیشن کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ سے کسی طور جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔وہ ان کی ذاتی رائے ہے جو پٹیشن کے جواب میں دی گئی ہے‘‘۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ کیلئے رہنما ثابت ہوتے ہیں،اکثر ان فیصلوں کی روشنی میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سناتی ہے ایسے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کی یہ رائے صرف رائے نہیں بلکہ آنے والے فیصلے کی غمازی کررہی ہے اور اس بات کے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت نچلی عدالتوں کے ذریعہ اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور بورڈ کے موقف کو غلط ٹھہرانے کی کوششوں میں مصروف ہے
خبر درخبر(488)
شمس تبریز قاسمی
آئین بالاتر ہے یا مذہب ؟ جب آئین اور مذہب کے درمیان ٹکراؤہوگا تو کون قابل ترجیح ہوگا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ دشوارکن ہے کیوں کہ مسلمانوں کیلئے مذہب سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے ،مذہبی احکامات کے اوپر کسی بھی قانون اور آئین کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ہے ،دوسری طرف ہندوستان جیسے ملک میں آئین سے انحراف کی بھی گنجائش نہیں ہے ،آئین کی مخالفت غداری اور انتہائی سنگین جرم ہے ۔آئین سازی کے دوران کچھ دفعات کے ذریعہ بہ ظاہر دونوں کے درمیان ٹکراؤکے آثار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہوسکا اور بارہا مذہب اور آئین کے درمیان ٹکراؤکے واقعا ت پیش آئے۔ ہندوستانی مسلمان ان دنوں ایک مرتبہ پھر کچھ ایسے ہی حالات کا سامناکررہے ہیں اور بیچ منجدھار میں پھنس گئے ہیں۔
طلاق ایک شرعی اور مذہبی معاملہ ہے ،مسلم پرسنل لاء بورڈ قرآن وحدیث سے ماخوذ مسائل کے مجموعہ کا نام ہے اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ،مذہبی تعلیمات کے خلاف کسی اور طریقے کے مطابق ایک مسلمان عائلی زندگی نہیں گزارسکتاہے ،دوسری طرف الہ آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ روز ایک فیصلہ میں یہ کہاہے کہ’’ ایک مجلس کی تین طلاق غیر قانونی ہے ،مسلم پرسنل لاء آئین سے بالاتر نہیں ہے ،خواتین کے خلاف کسی طرح کے ظلم وزیادتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے‘‘ اس کا واضح مطلب یہ ہواکہ مسلمان انہی امور کے پابند ہوں گے جو ہندوستانی آئین کے مطابق ہے ،مسلمانوں کو انہیں اعما ل وعبادات کرنے کی اجازت ہوگی جس کی سپریم کورٹ اجازت دیتی ہے ،اگر سپریم کورٹ کسی عبادت کو ،شرعی مسئلہ کو یامذہبی عقیدہ کو آئین ہند کے خلاف قراردیتی ہے تو اس کی بجاوآوری ارتکاب جرم کے دائرے میں آئے گی اور مسلمانوں کو اس پر حصول ثواب کے عقیدہ کے ساتھ جیل جانے کیلئے بھی ذہنی طور پر آمادہ رہنا ہوگا۔
طلاق ثلاثہ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،تین طلاق کی مخالفت میں حکومت اپنا حلف نامہ داخل کراچکی ہے ،اس معاملے کی ایک فریق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اپنا موقف داخل کراچکی ہے ،اس کے علاوہ جمعیۃعلماء ہند کے دونوں گروپ نے بھی اپنا حلف نامہ داخل کرایاہے ، خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سربراہ ذکیہ سونم تین طلاق کے خاتمہ کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قانونی حیثیت کو ختم کرنا چاہتی ہے ،پچاس ہزار خواتین کے دستخط کے دعوی کے ساتھ وہ کہ ہ ری ہیں کہ خواتین تین طلاق کے خلاف ہیں دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء نے بورڈ تین طلاق کی حمایت میں لاکھوں خواتین کے دستخط کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔
یہ تمام باتیں ہورہی تھیں،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ انتہائی مضبوطی کے ساتھ سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنے کی تیاری کررہاتھا اسی دوران الہ آباد ہوئی کورٹ نے اپنا یہ فیصلہ سنادیاہے اور لگے ہاتھوں کانگریس سمیت متعدد اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس فیصلہ کی حمایت کردی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،حکومت نے جب مسلم آئین کے خلاف حلف نامہ داخل کرایاتو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے تمام مذاہب فکر کے رہنما اور اہم تنظیموں کے سربراہ نے بیک زبان ہوکر حکومت کی مخالفت کی اور اسے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جانب ایک قدم قراردیاتو پھر الہ آباد ہائی کورٹ کو بغیر کسی سبب کے یہ فیصلہ سنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ایساتو نہیں ہے کہ نوٹ بندی کے خلاف جاری اتھل پتھل کو پس پشت ڈالنے ،ٹی وی چینل اور میڈیا کی بحث کا رخ موڑنے کیلئے بغیر کسی وجہ کے طلاق کا یہ مسئلہ چھیڑا گیا ہے تاکہ ایک مرتبہ پھر مسلمان میدان میں آجائیں ،سڑکوں پر اتر کر احتجاج کریں اور بحث کا رخ تبدیل ہوجائے ۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کے ایک بیان کے مطابق’’جسٹس سونیت کمار نے رٹ پٹیشن کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ سے کسی طور جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔وہ ان کی ذاتی رائے ہے جو پٹیشن کے جواب میں دی گئی ہے‘‘۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ کیلئے رہنما ثابت ہوتے ہیں،اکثر ان فیصلوں کی روشنی میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سناتی ہے ایسے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کی یہ رائے صرف رائے نہیں بلکہ آنے والے فیصلے کی غمازی کررہی ہے اور اس بات کے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ حکومت نچلی عدالتوں کے ذریعہ اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور بورڈ کے موقف کو غلط ٹھہرانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔(ملت ٹائمز)