خالد انور پورنوی المظاہری
لائن میں کھڑے ہوگئے پھر سے آپ ،لائن میں کھڑا ہونا عادت جو ہے آپ کی ،کبھی ووٹ دینے کیلئے اور اب نوٹ لینے کیلئے،اپنے ہی خون ،پسینے کی کمائی خیرات کی طرح لینے کیلئے لائن میں کھڑے ہوگئے ،اے ٹی ایم کے باہر دکھے کھارہے ہیں ،اور بینکوں میں پٹائی ،پھر بھی خاموش تماشائی،ابھی تک اچھے دنوں کے انتظار میں ہیں ہم،رو بھی رہے ہیں ، اور تڑپ تڑپ کر جان بھی دے رہے ہیں ؛مگر بو ل نہیں سکتے!
ہمیں بھولنے کی بیماری ہے ،اس لئے بہت کچھ بھول جاتے ہیں ،اچھے دنوں کا خواب دکھاکر سیاسی آقائیں ہمارے جذبات کا خوب استحصال کرتی ہیں ،اورہم ہیں کہ ان کے دام فریب میں پھنستے جارہے ہیں،نوٹ بندی سے پورے ملک میں ہاہاکار ہے اور اب بھی شیخ چلی کی طرح دن میں اچھے دنوں کاسپنادیکھ رہے ہیں۔
ملک کے وزیر اعظم کے اس خطاب کو ہم نہیں بھول سکتے ،8؍نومبر کی رات ہے ،اور دھر،ادھرپانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی منسوخی کا اعلان ہوجاتاہے،اور دلیل بھی دی جاتی ہے کہ بلیک منی کو روکنے ،کرپشن پر لگام کسنے ، ناجائز دولت کی ذخیرہ اندوزی ،اور اس کے بے تحاشہ استعمال پر قدغن لگانے،اور دہشت گردوں کی مالی مددکو رکنے کی غرض سے یہ کڑوی دواپلائی گئی ہے۔
دواتو یقینادواہے ،خواہ کڑوی ہو،یامیٹھی ہو،اس سے بیماریاں دورہوتی ہیں،صحت وتندرستی آتی ہے،مگر یہ کیا، اس دواسے تو 130سے زیادہ جانیں چلی گئیں،نہ جانے کتنے لوگوں کا گھر اجڑگیا،شادیاں ٹوٹ گئیں، کتنے بزرگ بیمار ہوگئے،کتنے بچوں کا اسکول چھوٹ گیا،غریب کنگال ہوگئے،عام لوگوں کا دیوالیہ نکل گیا،کسان پریشان ہوگئے،ادنی اور متوسط طبقہ کے لوگوں کا مال چھین کر انہیں بے دست وپابنادیاگیا،اور اور پر سے ڈیجیٹل انڈیاکے سپنے دکھائے جارہے ہیں۔
نوٹ بندی صحیح ہے یاغلط؟دنیااپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی ہے،اور اس پچاس دن میں اندھوں کو بھی بینائی آگئی ہوگی،کہ کس طرح ایک جمہوری ملک میں جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،جہاں عام لوگ ایک ایک روپئے کیلئے لائنوں میں گھنٹوں کھڑے نظر آتے ہیں،اے ٹی ایم میں پیسے نہ ہونے ،اور بینکوں میں لنک فیل ہونے کی وجہ سے پریشانیاں جھیلنے پر مجبور ہیں ،وہیں خاص لوگوں کے گھروں پر نوٹوں کی گڈیاں پہونچائی جارہی ہیں۔ نہ تو ہم کبھی دیکھتے ہیں لائنوں میں کسی منتری کو ،نہ کسی نیتاکو،نہ امبانی،خان اور کپورکو،نہ کسی بڑی کمپنی کے مالک کو ،نہ کسی امیرترین شخص کو،یہاں بھی کومن آدمی ہی گھسیٹاجارہاہے،چونکہ یہ بولتانہیں،نہ یہ آواز اٹھاتاہے،نہ کومن آدمی کی کوئی تنظیم ہے ،نہ کمیٹی ،نہ یونین ہے ،نہ ایسوسی ایشن،جب چاہو لائن میں کھڑاکردو،کومن آدمی کو لائن میں کھڑارہتے ہوئے بڑامزہ آتاہے آپ کو!
حد ہوگئی کم عقلی اور نادانی کی ،دوائی اسے پلائی جارہی ہے ،جو بیمار ہے ہی نہیں،چیزیں کہیں اور ہیں ،اور تلاشی کہیں لی جارہی ہیں، کالادھن کس کے پاس ہے یہ ہمیں بتاتاپڑے گا؟انکم ٹیکس ڈپارٹمینٹ کو نہیں معلوم،اگر نہیں تو اس ڈپارٹمینٹ میں ہے کیوں اور اگر معلوم ہے تو انہی پکڑتے کیوں نہیں ؟اورپھرآج تک تو یہی کہتے رہے کہ کہ کالے دھن بیرون ملک میں ہیں،اور تلاشی اپنے ہی ملک کے غریب گھروں سے لی جارہی ہے، آخر کیاوجہ ہے کہ حکومت سب کچھ جان کر بھی سویس بینکوں میں کھاتارکھنے والوں کے خلاف کاروائی تو درکنار، ان کے ناموں کا اعلان سے بھی گھبرارہی ہے،اوراپنے ہی ملک کی عورتوں ،بچوں، غریبوں، فقیروں کے جمع دھن پر نئے نئے فرمان کی بارش ،ان کی جائز آمدنی پر پہرہ،اپناہی پیسہ لینے کیلئے دربدر دھکے کھانے پر مجبور،اور پھر بھی لوگوں کے سب سے بڑے ہمدردہیں آپ!
جی ہاں!حکومت صرف بلندوبانگ دعوے سے نہیں چل سکتی ہے،عمدہ خطاب،لچھے دار تقریروں،سے ہی عوام کا دل نہیں جیتاجاسکتاہے،بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے،اور موجودہ حکومت کے ڈھائی سالہ مدت سے لے کر نوٹ بندی کے پچاس دن تک کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے:نئے نئے وعدے، سنہرے سپنے،جذبات کا استحصال،مذہب کی سیاست،نفرت کی راج نیتی،اور کچھ بھی نہیں۔
نوٹ بندی کے پچاس دن مکمل ہوگئے،اور اس پچاس دن میں سرکار نے پچاسوں وعدے کئے،اور ہردوسری بات پہلی بات سے متصادم،ہر نیتانئے سُرمیں،ملک کا پرمکھ کچھ اورکہ رہاہے،وزیر خزانہ کچھ اور کہ رہے ہیں،اور منتری جی کچھ اور بھاشن دے رہے ہیں،پلاننگ کی کمی،اور ناتجربہ کاری بھی خوب دیکھی لوگوں نے،یہ اور بات ہے کہ ملکی سطح پر پیداہونے بحران کے باوجود بی جے پی لیڈران فیصلہ کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں،اور ملک کے وزیراعظم دعوے پر دعوے ٹھونک رہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔
غریبوں کی پہلے دال چھینی اوراب کھانے پرہی لالے پڑے ہیں،محنت ومزدوری کرنے والاطبقہ بے روزگاری کے دہانے پرکھڑاہے،چھوٹے تاجربدحالی کاشکارہے،چھوٹی چھوٹی کمپنیاں اورفیکٹریاں بندہورہی ہیں،ملک میں افراتفری کاماحول پیداہورہاہے،ملک کی معیشت بری طرح متاثرہورہی ہے،کالادھن تو جوں کاتوں برقرار ہے، بلکہ سفیدکرنے کی کوششیں زوروں پرہیں،اورمہنگائی آسمان چھونے لگی ہے،دیہاتوں اور شہروں کی مارکٹوں میں جاکر دیکھئے سناٹاہی سناٹاہے،یعنی ہندوستانی ترقی کاپہیہ بالکل جام ہوگیا ہے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمراں سناتے بہت زیادہ ہیں؛مگرسنتے کسی کی نہیں ہیں،عوام سے انہیں مطلب ہے ہی نہیں ،صرف ووٹ کے پجاری ہیں یہ لوگ، ان کاجینا،ان کامرناصرف ووٹ کیلئے اور کرسی اقتدارکے حصول کے لئے ہوتاہے،اسی لئے نوٹ بندی کے پچاس دن بعد بھی ملک کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یقیناتحفوں کی بارش توکی؛ مگرنوٹ بندی کی وجہ سے سوسے زیادہ اموات پرایک لفظ بولنابھی گوارہ نہ کیا ۔
نہ ہم کسی کے دوست ہیں اور نہ دشمن،ہاں جوسچ ہے اسے برملاکہناہماری عادت ہے،اورصحافت کی شان؛ یہی ہم نے سیکھاہے اپنے بزگوں سے،یہی پاٹھ پڑھایاہے ہمارے استاذوں نے،ہاں یہ اوربات ہے کہ آج پیسوں کے کھیل نے اس میں دراڑپیداکرناشروع کردیاہے،الیکٹرانک میڈیاکارویہ تواس سے بھی زیادہ افسوس ناک اورشرمناک ہے،اس کے ملازمین اور مالکان خبریں دینے اور تبصرہ کرنے میں نہ صرف غیرذمہ دارانہ روش اختیار کرتے ہیں ،بلکہ کسی بھی واقعہ کی وہ یکطرفہ تصویر کھینچنے لگتے ہیں،اوراب تو چینلوں پرسیاسی پارٹی کی مہربھی لگ چکی ہے،ایسے میں پارٹی سے نکل کربات کرناظاہرہے اتناآسان نہیں ہے۔
امام الہندمولاناابوالکلام آزادؒ نے جب الہلال کاپہلانمبرنکالا،توایک ریاست کے ایک نواب نے اسپیشل رقم کاچیک مولاناکے نام روانہ کیا،اورساتھ میں یہ بھی لکھ دیاکہ رقم ہرماہ آپ کو پہونچتی رہے گی،مولاناآزادؒ نے شکریہ کے ساتھ چیک واپس کردیا،اورلکھاآپ کایہ عطیہ کس مقصدسے ہے؟اگرآپ مجھے خریدناچاہتے ہیں تو یہ رقم گراں قیمت ہے،میں تواپنی قیمت میں گھاس کی ایک ٹوکری کوبھی گراں سمجھتاہوں،ہاں اگراس سے میری رائے اورمیرا ضمیرخریدنامقصودہوتوبہ ادب واجب عرض ہے کہ ان خزف ہائے طلائی کی توکیاحقیقت ہے،کوہ نور اورتخت طاوس کی بھی دولت جمع کرلیجئے تومجھے آپ کی پوری ریاست کے اس کی قیمت کے آگے ہیچ ہیں،یقین کیجئے اسے تو سوائے شہنشاہ حقیقی کے اورکوئی نہیں خریدسکتاہے،اوروہ ایک مرتبہ خریدچکاہے۔
ہم سب ہندوستان کے شہری ہیں،اورایک جمہوری ملک کی جمہوریت کاحصہ ہیں،جب تک کسی پارٹی کی حکومت نہیں بنتی ہے، بے شک ہم کسی بھی پارٹی کے عزائم ،مقاصد،اورکام کاج کی بنیادپرکرسی اقتدارتک پہونچانے کیلئے راہ ہموار کرسکتے ہیں،جانی، مالی ہرطرح سے سپورٹ بھی کرنے کاجواز سمجھ میں آتا ہے، اورجب حکومت بن گئی،توعام لوگوں کی فلاح اورترقی اسی میں ہے کہ وہ حکومت کی ایک ایک چیزپرنگاہ رکھے،اگرقابل تعریف اقدام ہے توسراہاجاناچاہیے، لیکن ہرجائز،نائز عمل کوسراہناانصاف کی بات نہیں ہے،اوریہی اس دیش میں ہورہاہے،جو یقیناً ناسور ہے۔
دہشت گردی یقیناکسی بھی ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے،اور کرپشن ملک کی ترقی کیلئے زہر ہلاہل، ان دونوں کے خلاف لڑائی لڑنے میں ملک کا ہر شہری ملک کے پی ایم کے ساتھ ہے،اور بلکہ جس کے جسم میں بھی ہندوستان کا خون ہوگاوہ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کھڑا نظر آئے گا،مگر سوال یہ ہے کہ نوٹ بندی اس مسئلہ کا حل ہے یانہیں ہے؟پچاس دن کا رزلٹ ہمارے سامنے ہے،اگر ایساہوتاتو اس میں ہمیں بڑی کامیابی نظر آتی،مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچاس دن مکمل ہونے کے بعد بھی کسی سمت میں کوئی کامیابی نہیں دیکھ رہے ہیں، بلکہ تازہ خبرتویہ ہے کہ گجرات کے شہرراج کورٹ سے26؍لاکھ، دس ہزارروپئے کے نئے اورجعلی نوٹ برآمدکئے گئے ہیں،حیرت کی بات یہ ہے کہ ہائی کوالٹی پرنٹنگ مشین بھی ملی ہے،جس میں یہ نوٹ چھاپے گئے تھے،جبکہ اس سے قبل چنڈی گڑھ میں ایک مقام پرچھاپہ مارکرنقلی نوٹ چھاپنے کی مشین اور 42؍لاکھ روپئے کی مالیت پولیس برآمدکرچکی ہے،حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اسکینڈل کاسرغنہ وہی نوجوان ہے،جسے پی ایم نے گذشتہ سال میک ان انڈیاکاایوارڈدیاتھا،اس کے علاوہ ملک کے کئی مقامات سے نئے نوٹ کے چھپنے کی اطلاعات آچکی ہے۔
ہم سے کہاگیا:تھوڑی سی مشقت برداشت کرلو،پھر راحت ہی راحت ہے،اور اس راحت کے انتظارمیں پچاس دن گذرگئے،نہ مصیبت ٹلی،نہ راحت ملی،جب کہ ایک سروے کے مطابق27لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے، ا سی لئے نوٹ بندی کا موازنہ نسبندی سے کرتے ہوئے مشہور امریکی میگزین فوربس کے ایڈیٹر ان چیف نے لکھاتھا:نوٹ بندی کا فیصلہ حیران کن ہے،اس سے کھربوں روپئے کاجھٹکالگ سکتاہے،لاکھوں غریبوں کی حالت خراب ہوسکتی ہے،فوربس نے جو اندیشہ ظاہر کیاتھا، بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی موڈیز نے وہ جھٹکادے بھی دیا۔ 2009ء سے 2014ء تک آر،بی، آئی کے گورنر رہ چکے شری کیسی چکروتی نے بھی اپنے ایک انٹریومیں واضح کرتے ہوئے کہا تھا: کہ نوٹ بندی سے سرکار کو فائدہ کم، نقصان زیادہ ہوگا،اور عام آدمی کیلئے پریشانیاں بہت بڑھ جائیگی ،یقینایہ بات سوفیصدی صحیح ثابت ہورہی ہے۔
وہ زمانہ گئے جب ملک کے مفاد میں فیصلے لئے جاتے تھے،عوام کی فلاح ،اور ترقی پیش نظر رہتی تھی ، ایثار و ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ کارفرماتھا،آج یہ سب باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہیں،زمینی سطح پر عوام اور نیتاکے بیچ صرف ووٹ کا رشتہ رہ گیا،کوئی مطلب نہیں کون مررہاہے؟کیوں مررہاہے؟کون ماررہاہے؟اور کیسے ماررہاہے ؟ انہیں صرف تخت وتاج چاہئے ،عیاشی اور کچھ بھی نہیں۔
ہندوہو،مسلم ہو،سکھ ہو یاعیسائی ،ہم سب اس ملک کی خوبصورتی ہیں،اور گنگاجمنی تہذیب کا حصہ ہیں ، آئیے ہم سب سوچیں اس ملک کیلئے ،اس ملک کو آگے بڑھانے کیلئے ،کالے دھن پر لگام کسنے اورجعلی نوٹ کے بند ہونے کیلئے ، اور جو طاقتیں ہمیں لڑاکر اقتدار کی کرسی تک پہونچناچاہتی ہیں ، ہم باہمی الفت و محبت کے ذریعہ انہیں بتادیں کہ ہم سب ایک ہیں ،فرقہ پرستی پر نہیں ،ملک کی ترقی پر یقین رکھتے ہیں:-شایدکہ اترجائے تیرے دل میں میری
بات۔