محمد علم اللہ، دہلی
لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے ملک کی 29 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں 7 مرحلوں میں رائے دہی ہونی ہے۔ چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔جاریہ لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلہ میں 19 ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام خطوں کی 102 سیٹوں پر رائے دہی ہو چکی ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان، سکم، تمل ناڈو، تریپورہ، اتر پردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، انڈمان نکوبار جزائر، جموں و کشمیر، لکش دیپ اور پنڈو چیری شامل ہیں۔
یہ الیکشن کئی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے چیلنجنگ ہے۔ حالانکہ پہلے بھی مسلمانوں کے مسائل سے کسی پارٹی کو دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی اب ہے۔ اس حوالے سے کئی مسلم رہنماؤں نے ایسے مواقع پر مختلف حکمت عملی کے اشارے دیے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دی۔ لیکن اس طرح کی تمام تر کوششیں وقتی اور عجلت میں اٹھایا گیا قدم ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کوششوں کے سبب البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا گیا لیکن مسلم ووٹر کا یہ ناگزیر کردار بھی مسلمانوں کے حق میں خاطر خواہ سود مند نہ ثابت ہو سکا۔ لہذا مسلم رہنماؤں پر مختلف قسم کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں کہ کئی سیاسی جماعتیں مسلم قائدین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں اور خود مسلم قائدین بھی غیر شعوری طور پر ہی سہی ان کے ایک مہرہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
ملی مسائل کے تئیں تقریباً سبھی موقع پر مسلم رہنماؤں نے دلچسپی تو ضرور دکھائی لیکن ان مسائل کے حل کے لئے ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں، اس طرف سنجیدگی سے قدم نہیں بڑھایا گیا۔ مسلم رہنماؤں کا رویہ اکثر و بیشتر مواقع پر جوش و ولولہ اور جذبات کا شاہکار تو ثابت ہوا لیکن اعتراف حقیقت سے چشم پوشی اور اپنے فرائض منصبی کے تئیں کو تاہی میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوا۔ یوں مسلمان استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔
اب جبکہ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور دوسرے مرحلے میں چھبیس اپریل کو ووٹ ڈالا جانا ہے، ایک بار پھر اخبارات کی سرخیوں سے مسلمانوں کی انتخابی حکمت عملی پر زور شور سے اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس اظہار خیال کا سلسلہ چونکہ کسی مشترک، منظم یا منصوبہ بند بنیادوں پر نہیں ہے لہذا اس سے کسی فیصلہ کن رائے کے سامنے آنے اور اس رائے سے مسلم عوام کے مزاج کی ہم آہنگی کی امید بھی معدوم دکھائی دے رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا یہ جا رہا ہے کہ ایسی کسی رائے کے سامنے آنے سے پہلے ہی مسلمان محض انتخابات کے وقت ووٹوں کے استعمال تک ہی اپنی حکمت عملی کو محدود رکھنے پر مجبور ہیں۔ بہر حال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بظاہر ملت نے یہ سبق تو ضرور سیکھ لیا ہے کہ سڑکوں پر آکر بلاوجہ کسی جماعت کے حق یا خلاف نعرے بازی کرنے سے گریز کریں گے۔ اس کا بھرپور مظاہرہ ان انتخابات میں ہوا ہے۔ الله کرے نتائج میں بھی اس حکمت عملی کا مظاہرہ ہو جائے۔
کاش انتخابات کی بازگشت ہونے پر ہی مسلمانوں میں سیاسی یا انتخابی حکمت عملی متعین کرنے کا احساس بیدار ہو جاتا۔ حالانکہ کہنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے کافی پہلے کیوں نہیں؟ کیا سر پر انتخابات آنے کے بعد مسلمانوں کو مشورہ دینا کہ ملت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرے بس یہی رہنماؤں کا کام ہے؟ مسلم عوام کے اندر سیاسی شعور کیوں نہیں پیدا کیا جاتا کہ وہ انتخابات سے قبل اپنے ووٹوں کی اہمیت کو جانیں اور انہیں یہ معلوم ہو کہ کون امیدوار ان کے لیے مخلص اور معاون ہوگا اور کون دشمن و بد خواہ تاکہ وہ متحد ہو کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے بہت سی باتوں سے بچ سکتے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر بڑی سنجیدگی سے مستقل غور و فکر کرکے لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے۔
ایک آزاد جمہوری ملک میں عام انتخابات کا موسم فصل بونے کا نہیں، کاٹنے کا ہوتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد کے برسوں سے موجودہ انتخابات تک مسلمانوں نے کیا بویا ہے اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ یہاں کے کھیتوں میں تو نفرت و تعصب کی فصل لہلہا رہی ہے۔ کچھ مسلم لیڈر جن کو سیاست داں کہنا بھی شاید سیاست کی توہین ہوگی، فصل بونے کی مہلت کو ضائع کرنے کے بعد ابھی بھی بڑی بے شرمی، ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے مسلمانوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ آؤ ‘ہتھیلی پر سرسوں اگائیں۔’ اس کے لیے کون کس کے مفاد میں کام کر رہا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کاش سیاسی بصیرت کے مالک ہمارے رہنما بیتتے موسم میں فصل بونے کا کام کرتے تا کہ انتخابات کے وقت اسے کاٹنے میں آسانی ہوتی ؛ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم صرف سیاسی جماعتوں کی بازی گری کے تماشے دیکھنے کے لیے باقی رہ گئے ہیں۔ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ ایسے میں اس سچائی سے چشم پوشی سنگین کوتاہی ہوگی اور عین انتخابات کے وقت حکمت عملی وضع کرنے کی بات وقت گزر جانے کے بعد کا پچھتاوا ثابت ہوگی۔
مذکورہ باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم اب بھی سوچیں۔ یہ پارلیمانی انتخاب گزشتہ تمام پارلیمانی انتخاب سے زیادہ غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے، کیونکہ اس بار خود سیاسی پارٹیاں بھی سیاسی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ایسے میں ہمیں کم از کم بقیہ جگہوں پر اپنی رائے دہی کے بارے میں سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہماری ذرا سی چوک، غفلت یا عدم توجہی بڑے سے بڑے نقصانات کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمیں سر جوڑ کر سوچنا اور لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ ہمارے ووٹوں کی معنویت، اہمیت اور افادیت واضح ہو کر سامنے آسکے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی، حمایت یا مخالفت کے مختلف مضمرات اور پہلوؤں کی چھان پھٹک کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہی کسی لائحہ عمل یا حکمت عملی کی ترتیب کا مرحلہ موثر و مفید ثابت ہوگا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ سیاسی پارٹیوں کی فتح و شکست یا وجود و بقا کا انحصار انتخابی نتائج پر ہوتا ہے۔ اس لئے یہ پارٹیاں ووٹوں کی خاطر سیاسی جوڑ توڑ، دعووں اور وعدوں کو نئے اور موثر انداز سے قسم قسم کے رنگوں میں پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیو ں کی کارکردگی اور پالیسیوں سے مسلمان اتنی بار متعارف اور متاثر ہو چکے ہیں کہ اب ان کے سامنے کوئی چیز چھپی نہیں رہی۔
کانگریس کے اقدام، بی جے پی کی روش، سماجوادی پارٹی،بی ایس پی، جنتا دل یونائیٹڈ، آر جے ڈی اور اس قبیل کی دیگر پارٹیوں اور کمیونسٹ پارٹیوں کا عمل سبھی کچھ ہمارے سامنے ہے۔ ہماری ترجیحات کیا ہوں اور یہ ترجیحات کن بنیادوں پر قائم کی جائیں، اس سوال کے جواب کے لئے اب بھی درج ذیل خطوط پر سوچا جا سکتا ہے۔ گزشتہ مختلف انتخابات میں ہم نے ہمیشہ اس پارٹی کا ساتھ دیا، جو امکانی فتح سے قریب تھی۔ اس ساتھ کی وجہ سے ہم نے ‘بادشاہ گر کہلانے کا شوق تو پورا کرلیا لیکن’ بادشاہ گر ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ اس انداز سے نہیں کر سکے کہ ہم مہرہ بننے کے الزام یا عتاب سے محفوظ رہ سکتے۔ کانگریس پارٹی اور بی جے پی کی مخالفت کا غلغلہ بلند کرنے میں تو ہم آگے ہیں لیکن اس مخالفت کے مثبت نتائج کیسے پیدا ہوں، اس جانب یا تو غور نہیں کیا جا رہا ہے یا اگر غور کیا بھی گیا ہے تو کسی لائحہ عمل تک پہنچنے کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے مسلمانوں کی مخالفت کو براہ راست اپنی حمایت میں بدلنے کی بجائے یہ حکمت عملی اپنائی کہ مسلمانوں کے ووٹ اگر ان کو حاصل نہ ہو پائیں تو اس طرح منقسم و غیر موثر ہو جائیں کہ وہ اس کا فائدہ اٹھائیں اور ایسا ہوا بھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایسی صورت کے ازالہ کے لئے ہم نے کوئی پیشگی اقدام نہیں کیے۔ کانگریس اور بی جے پی کی مخالفت کا مطلب دیگر سیکولر اور کمیونسٹ پارٹیوں کی لازمی حمایت سے تعبیر کیا جانے لگا۔
یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلم ووٹروں کی حمایت کو غیر کانگریس و غیر بی جے پی پارٹیوں نے مجبوری کا قدم ہی خیال کیا ہے۔ ہم نے ان کو یہ احساس دلانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ مسلمانوں کی حمایت مجبوری کا قدم نہیں بلکہ خود ان کی زندگی اور صحت کے لئے ناگزیر ہے۔
مذکورہ نکات کا تعلق ماضی کے تجربات سے ہے۔ ان نکات کی روشنی میں ہی ہم موجودہ انتخابات کے تعلق سے کسی لائحہ عمل اور امکانی اقدام پر غور و خوض کر کے کسی واضح فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔ اب پچھلی لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیوں کہ انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے، جن جن ریاستوں میں ابھی انتخاب ہونا باقی ہے وہاں وہاں اپنی پوزیشن کو سنوارنے کی کوشش بہرحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو بہت زیادہ نہ سہی کچھ نہ کچھ تو کامیابی ضرور ملے گی۔