کردار کے جادو سے سہم جائے گا طوفان

مفتی محمد ساجد کھجناوری
خاکسار جس وقت یہ سطور قلم بند کرنے بیٹھا ہے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے اکیسویں وزیر اعلیٰ کے طور پر دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی کے آتش مزاج لیڈر یوگی ادتیہ ناتھ کو وزارتِ علیا کا حلف اٹھائے محض ابھی چند گھنٹے ہی گذرے ہیں، اس درمیان الیکٹرانک میڈیا سے لیکر پرنٹ اور سوشل میڈیا پر زور دار مباحثے ، مناقشے اور یوپی کے مستقبل کو لیکر اندیشوں پر مبنی چرچے زبان زد خاص و عام ہیں، چنانچہ جتنے منھ اتنی ہی باتیں، پڑھنے دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں، بعض کا خیال ہے کہ یوگی جی اب وہ نہیں رہے کہ بے لگام ہوکر کچھ بھی کہ گذریں بلکہ وہ پوری ریاست کے ذمے دارِ اعلا ہیں، لہذا امن و امان اور ترقی سے بھر پور خوشحال صوبہ کی تعبیر انہیں اپنے کردار وعمل سے رقم کرنا ہوگی، انہیں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ والافارمولہ ہر آن پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی اپنے مطلوبہ اہداف بسہولت حاصل کرسکے ، جبکہ بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ پارٹی نے زمام اقتدار جن ہاتھوں کے حوالہ کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے عزائم کیا ہوسکتے ہیں اور وہ کس قسم کی پالیسی کے مطابق آگے بڑھنا چاہتی ہے، میرے خیال میں ہمیں مؤخر الذکر رائے پر صاد کرنے میں بے صبری نہیں دکھانی چاہئے، بلکہ ’’دیکھو اور انتظار کرو پالیسی‘‘ کے اصول پر گامزن رہتے ہوئے ان سے اچھے اور مثبت نتائج کی امید رکھنی چاہئے، خصوصاً اس لئے بھی کہ اگر وہ مرکز اور صوبائی سطح پر لمبی سیاسی پاری کھیلنے کے متمنی ہیں تو انہیں بلا تفریق مذہب وملت عوام کی امیدوں پر کھرا اترنا ہوگا، اپنی رعایاکی خدمت وترقی میں انہیں ہر قسم کے بھید بھاؤ سے کنارہ کش ہوکر آگے بڑھنے کی نئی سمتوں کا تعین کرنا ہوگا، لیکن اس کے برخلاف اگر ظلم ونا انصافی اور عدم رواداری کا ماحول بنایا گیا تو ہمارا عقیدہ ہے اللہ پاک ایسے لوگوں سے اقتدار چھین لیتا ہے ، بھلے ہی وہ مسلمان کیوں نہ ہوں، اس لئے ہمیں بدگمانی سے بچتے ہوئے اچھے رزلٹ کی دُعاء اور تدبیر کرنی چاہئے، اس موقعہ پر مطالعہ میں آیا ایک واقعہ کا تذکرہ شاید بے محل نہ ہوگا کہ ’’وکٹوریہ کا زمانہ تھا، قطب عالم حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ جیسے مستجاب الدعوات بزرگ کی دعائیں لینے کیلئے یوپی کا گورنر لاٹوش لکھنؤ سے خود گنج مراد آباد حاضر ہوا، کسی نے جاکر اطلاع دیدی کہ لارڑصاحب آپ سے ملنے آرہے ہیں، شیخ نے فرمایاکہ آنے دو حضور ﷺ کی ایک سنت ادا ہوجائے گی، آپ سے ملنے نصاریٰ آیا کرتے تھے، لارڑ آیا تو حضرت شیخ مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، لارڑصاحب نے سلام کیا پھر اپنے لئے اولاد کی دعاء کرائی، اس کے بعد کہنے لگا کہ حضرت دعا کردیجئے کہ ہماری حکومت ہمیشہ قائم رہے، یہ سن کر حضرت شیخ سیدھے بیٹھ گئے اور گرج کر فرمایاکہ حکومت کسی کے باوا کی نہیں خدا کی ہے جب تک انصاف کروگے باقی رہوگے جب ظلم کروگے تو مٹادئے جاؤگے‘‘ ۔
معلوم ہوا کہ حکومتیں انصاف وعدل اور رواداری سے ہی قائم رہتی ہیں ، لیکن اگر ظلم وتشدد حکومتوں کا ہدف بن جائے تو پھر انجام بد ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی، اللہ کی زمین پر کیسے کیسے حکمراں نہایت شان وشوکت سے نمودار ہوئے اچھے بھی برے بھی مگر انجام سبھی کا فنا ہونا ہے، اچھے کام کرنے والے سرخ رو اور نیک نام ہوتے ہیں ، برے کام کرنے والے جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں اور تاریخ میں برائی سے یاد کئے جاتے ہیں۔
دراصل ریاست کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں دیگر سیاسی جماعتوں کو شکست فاش دیتے ہوئے ہند تو کے ایجنڈہ پر عامل بھاجپا نے جس زبردست سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے وہ کافی چونکانے والا بھی ہے اور خوش فہمی کی دنیا میں سکونت پذیروں کیلئے تازیانۂ عبرت بھی، بادی النظرمیں تو یہ ایک وقتی سیلاب معلوم ہوتا ہے جو دوسری پارٹیوں کو خس وخاشاک کی طرح بہالے گیا، لیکن اگر حقیقی تجزیہ کریں تو اس سے برسراقتدار آنے والی جماعت کی منصوبہ بندی شب وروز کی بے پناہ جد وجہد ، رائے عامہ کو اپنے حق میں لام بند کرنے کی اسکیم اور دوسری سیاسی جماعتوں کی نیم خوابی و مجرمانہ غفلت سے فائدہ اٹھانے والی چال ہی کہا جائے گا ۔سوال یہ ہے کہ اگر فاتح جماعت نے مذہب اور نظر یاتی ٹکراؤ کے سہارے اقتدار حاصل کیا ہے تو حریف جماعتوں نے اس کا قابل قبول توڑ کیوں نہیں کیا؟ کیا انہیں اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے محض مسلمان ووٹ بنک ہی نظر آتا ہے جن کے سہارے وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں، کیا سیکولر ازم کے تحفظ کی ذمے داری محض ان مظلوم مسلمانوں کی ہے جنہیں ساٹھ سال سے سیاسی طاقتیں بے وقوف بناتی رہی ہیں، جن لوگوں نے آزادی کے بعد ساٹھ سال تک اس ملک پر راج کیا انہوں نے محبانِ وطن کو آخر دیا کیا؟ انہوں نے تحفہ میں بس ایک بی جے پی دی جس کا ہوا بٹھا کر مسلم کمیونٹی کا استحصال کیا جاتا رہا ، اب ملک میں نفرت کی کھیتی تیار ہوچکی ہے جس کے کٹنے کا وقت آگیا ہے تو اس کا ذمے دار آخر کون ہے؟ کیا ہمارے اکابر شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ مجاہد ملت مولانا سیوہاروی اور مولانا آزاد نے امن و امان سے بھر پور خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے اپنے راحت وآرام کو نہیں تج دیا تھا، ملک کی سا لمیت اور بقائے باہمی کا آخر کونسا نعرہ ہوگا جو انہوں نے بلند نہ کیا ہو،لیکن افسوس کہ ان اکابر کے اصول و نظریات سے انحراف نے ہی ملک کی تصویر بدل کر رکھ دی ہے، غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کی منافقانہ روش نے خود ان کیلئے کیا صورتِ حال پیدا کردی ہے؟ اگر خدا نخواستہ انہوں نے نوشتۂ دیوار کو نہ پڑھا تو وہ دن دور نہیں جب ان کی قومی اور علاقائی شناخت ختم ہوکر رہ جائے گی ، اس لئے انہیں ایک ایسی راہ اختیار کرنا ہوگی جہاں نفاق نہیں وفاق کا بول بالا ہو ، دوسری طرف مسلمانوں کو بھی نفسیاتی خوف کے حصار سے نکل کر اپنا تعمیری کردار نبھانا ہوگا، سردست انہیں جو جائز اندیشے لاحق ہیں حسنِ تدبیر اور تیقظ کے ساتھ مستقبل کیلئے لائحۂ عمل طے کرنا ہوگا، ہمیں ہر قسم کے داخلی وخارجی فتنوں سے ا تحاد واجتماعیت کے ساتھ نپٹنا ہوگا۔
مقام عبرت ہے کہ ایک پکے سچے اور حقیقی مذہب کے تابع ہوکر بھی ہم تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں،جبکہ احکم الحاکمین کا عطا کردہ دستور قرآن کریم اور پیغمبر برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات وعملی توجیہات ہمارے لئے شاہراہ ترقی ونجات کا تعین کرنے والا انمول ذخیرہ ہمارے پاس موجودہے، مگرسچی بات یہ ہے کہ ہم نے قرآن سے لولگاناہی چھوڑ دیا ہے، فرامین نبوی سے استفادہ کا ہمارا رشتہ بالکل کمزور پڑگیا ہے، ایمان وعمل کا ہمارا شناخت نامہ بالکل دھند لا سا ہوگیا ہے، اب ایک وہ ہیں کہ لچر عقائد اور توہمات پر یقین رکھنے کے باوجود کس قدر منظم فعال اور روبہ ترقی ہیں ، ایک ہم ہیں کہ خیر امت ہونے کے باوصف اغیار کیلئے غیر مانوس غیر معقول بے حیثیت اور بے فیض ثابت ہو رہے ہیں، کیا بحیثیت داعئ امت ہونے کے ہمیں اچھے اخلاق ، پاکیزہ کردار ،محسن وغم خوار اور نفع رسانی کے خیر خواہانہ جذبہ سے سرشار نہیں کیا گیا ہے؟ تو پھر دیر کیوں؟ آیئے اپنے اسلامی کردار وعمل سے اس طوفان بَلا خیز کا مقابلہ کیجئے،بقول مشہود اعظم گوہر ؂
اٹھ اور زمانے کے اشاروں کو بدل دے
تدبیر سے سیلاب کے دھاروں کو بدل دے
اُٹھ اور بڑھا دہر میں ….. اللہ کا عرفان
کردار کے جادو سے سہم جائے گا طوفان 

(ملت ٹائمز(

(مضمون نگار جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے استاذ اور ماہنامہ ’’صدائے حق‘‘ کے ایڈیٹر ہیں)