آپریشن ’’ رد الفساد ‘‘ کی حقیقی کامیابی

 ہانیہ ملک
16 فروری سیہون شریف درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر پر دھماکہ میں 88 افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ جن میں مرد ، خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے ۔ اس دل دہلا دینے والے سانحہ کے بعد لاہور میں ڈیفنس کے زیڈ بلاک میں دھماکے سے 8 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اگر ہم دہشت گردی کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ خود کش حملے ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات سمیت دیگر حادثات میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے جو پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر سوالیہ نشان ہے ۔ سال 2013 ء میں 335 خود کش حملے اور دھماکے ہوئے جن میں سینکڑوں افراد نے جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ 2014 ء میں 402 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ۔ 2015 ء میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی تعداد 322 تھی جن میں شہیدہونے والے افراد کی تعداد 2923 سے زائد ہے ۔
اسی طرح اگر ہم 2017 ء میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو صرف ایک ماہ میں درجنوں دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ 6 جنوری کراچی میں فائیو سٹار چورنگی کے قریب حملے میں 2 پولیس اہلکار سمیت 3 افراد شہید ہوئے ۔ 20 جنوری کو پارا چنار سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 25 افراد شہید اور 87 افراد زخمی ہوئے ۔ 22 جنوری خیبرپختونخواہ میں 6 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے ۔ اسی طرح 23 جنوری بلوچستان میں فوجی قافلے پر حملے میں 8 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے ۔ 31 جنوری بنوں کے تھانہ پر دہشت گردوں کے حملے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ 7 فروری چمن چیک پوسٹ پر دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں 4 افراد زخمی ہوئے ۔ 12 فروری کراچی میں نجی ٹی وی کی گاڑی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں کیمرہ مین تیمور خان شہید ہوئے ۔ 12 فروری کو جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے نتیجے میں ایف سی کے تین سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ۔ 13 فروری کو ایک ہی روز میں لاہور ، کوئٹہ اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں نے حملے کیے جن میں سے لاہور میں شہید ہونے والوں کی تعداد 13 تھی اور 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ ان شہید ہونے والوں میں پولیس افسران بھی شامل تھے ۔ 15 فروری کو پشاور میں خود کش حملے میں 2 افراد شہید اور 7 زخمی ہوئے ۔ زخمیوں میں 4 جج بھی شامل تھے ۔
16 فروری جہاں سیہون شریف 88 افراد شہید ہوئے وہاں بلوچستان میں فوجی قافلے پر حملے میں ایک کیپٹن سمیت 3 افراد شہید ہوئے ۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین پر حملے میں دہشت گردوں نے 5 افراد شہید کر دیے ۔ تحقیق کے مطابق گزشتہ 15 برس میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 1,24,049 افراد شہید ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 27 ہزار سے زائد ہے ۔ پشاور آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچے دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی کا نشانہ بنے ۔ دہشت گردی اور بم دھماکوں میں سے اکثر واقعات کی ذمہ داری طالبان اور داعش نے فوراً قبول بھی کی ۔ ان تمام واقعات کا جائزہ لینے کا مقصد اس فکر کو اجاگر کرنا ہے ۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہوتا ہے تو آج قوم اور ذمہ دار اداروں کو یہ دن دوبارہ نہ دیکھنے پڑے ۔ ضرب عضب کے بعد اب آپریشن ’’ رد الفساد‘‘ ایک خوش آئند قدم ہے ۔ پاکستانی قوم اس کا خیر مقدم کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی اجلاس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشت گرد خواہ کسی بھی رنگ و نسل سے ہوں سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہوگی کیونکہ دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں ۔ پاکستانی قوم جو اس وقت انتہائی خوف اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ انہیں دہشت گردی کا حقیقی خاتمہ چاہیے ۔ وہ وعدوں اور دعوؤں میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاک فوج کا دنیا کی کوئی فوج مقابلہ نہیں کر سکتی ور انٹیلیجنس اتنی مضبوط ہے کہ غیر ملکی تربیت لینا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں ۔ اس کے باوجود اگر دہشت گردی ختم نہ ہو تو لمحہ فکریہ ہے ۔ ’’ رد الفساد‘‘ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کا سراغ لگایا جائے جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹں کھڑی کیں ۔ بلاتفریق ایسے افراد یا گروہ نہ صرف پاکستان کے دشمن ہیں بلکہ عالم انسانیت کے دشمن ہیں ۔ ایسے افراد خواہ وہ کسی بھی مسلک یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں انہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ۔ جو دہشت گردوں کے سیاسی اور مالی سپورٹر بھی ہیں ۔
دہشت گردی کی نرسری سے اگنے والے تناور درخت کاٹنے سے زیادہ دیر تک استحکام پیدا نہیں ہو سکتا ۔ جب تک دہشت گردی کا بیج بونے والوں کا خاتمہ کرنے کے لئے بلاتفریق آپریشن نہ کیا جائے ۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں ۔ انہیں چھپانے کی بجائے قوم کے سامنے لایا جائے کہ اسلام کے نام پر معصوم بے گناہ شہریوں کے خوارجی قاتل کن مدرسوں میں پڑھے ؟ ان کی تربیت کرنے والے اور ان کے سہولت کار کون ہیں ؟ تاکہ معاشرے میں چھپے حقیقی دہشت گردوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے اور ان کا مکمل قلع قمع ہی آپریشن ’’ رد الفساد‘‘ کی حقیقی کامیابی ہوگی ۔
دراصل عوام کا مال و جان غیر محفوظ اور وطن عزیز اس وقت حالت جنگ میں ہے ۔ ملکی بقاء کے تحفظ کے فیصلوں میں تاخیر دہشتگردانہ سوچ ہے ۔
آپریشن ’’ رد الفساد‘‘ کی مکمل کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہر محاذ پر فکری اور نظریاتی جنگ لڑی جائے ۔ اذہان کی تبدیلی تنگ نظری اور انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام مدارس ، تنظیموں اور دہشت گردوں کے سہولت کار جماعتوں کے نام بدل بدل کر رجسٹریشن کروانے کی بجائے ان کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت بے روزگاری ، ناانصافی ، بنیادی حقوق کی عدم دستیابی بھی دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ہیں ۔ جہاں قانون ، مظلوم اور بے بس انسان کے لئے سخت اور ظالم کے لئے نرم ہو ۔ جہاں عام انسان کا معاشی قتل عام ہو وہاں دہشت گرد ہی جنم لیتے ہیں ۔ غیر مستحکم اور غیر متوازن معاشرے دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں ۔ فرقہ پرستی کے خاتمے ، جہاد اور دہشت گردی میں فرق ایسے عوامل ہیں جن کے لئے فکری اور نظریاتی سطح پر اہم اقدامات کرنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ بدقسمتی سے دین فرقوں میں اور پاکستان قومیت میں تقسیم ہو رہا ہے ۔ انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور خارجیت کے خاتمہ کے لئے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا فکری لائحہ عمل بڑا مربوط اور ہمہ گیر ہے ۔ امن و سلامتی کے لئے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے مزین انہوں نے عملی ، فکری ، تحقیقی اور تاریخی نوعیت کا 25 تصانیف پر مشتمل پورا سلیبس متعارف کروایا اور تاریخی نوعیت کا فتویٰ عنوان ’’ دہشت گردی اور فتنہ خوارج ‘‘ لکھا ۔ جو عالم انسانیت میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بہترین کاوش ہے ۔ بعد ازاں اس نصاب کو دنیا کے بہترین اداروں اور یونیورسٹیوں میں سلیبس کے طور پر شامل کی جا چکا ہے ۔
بحیثیت حب وطن پاکستانی میں مطالبہ کرتی ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف نظریاتی اور فکری جنگ کے لئے حکومت وقت اس سلیبس کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرے ۔ جس سے ایک دنیا مستفید ہو رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو دہشت گردی کے اس بڑھتے ہوئے ناسور سے بچایا جا سکے ۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تمام سنگین جرائم کے بڑھتے ہوئے ناسور کو تلف کرنے کے لئے فکری اور نظریاتی جنگ ہی آپریشن رد الفساد اور نیشنل ایکشن پلان کی حقیقی کامیابی ہوگی ۔ (ملت ٹائمز)