مدثر احمد قاسمی
تقریباً 25/ سال کے بعد بابری مسجد مقدمہ کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے بی جے پی کے متنازع لیڈرسبرامنیم سوامی کی پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے ہوئے یہ مشورہ دیا ہے کہ فریقین اس معاملہ کو باہمی گفت و شنید سے حل کرلیں کیونکہ یہ عقیدہ اور مذہب کا معاملہ ہے۔ بظاہر چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیبر کی صدارت والی سہ رکنی بنچ کی طرف سے یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے لیکن یہ مشورہ ماضی کی تجربات کی روشنی میں قطعاً قابلِ عمل نہیں ہے۔کیونکہ اب تک ہوتا یہ آرہا ہے کہ جب بھی اس طرح کی کوشش کی گئی ہے ہندو جماعتوں کی جانب سے مصالحت کے کسی فارمولے کے بجائے مسلمانوں کو منانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مندر بابری مسجد کی جگہ بنانے دیں اور مسجد کے لئے کوئی اور جگہ لے لیں۔
یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ احمقوں کی دنیا میں رہنے والےلوگ مصالحت کی بھی بات کرتے ہیں لیکن یکطرفہ جو کہ مصالحت کے اصولوں کے با لکل خلاف ہے–کیا خوب تصور ہے کہ باہمی گفت و شنید سے معاملہ کو حل کر لیں گے لیکن مندر وہیں بنائیں گے!اگر ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھروقتاً فوقتاًباہمی بات چیت کے اس ڈھونگ کی ضرورت ہی کیا ہے؟
حکومت کے اندر اور ایک نئی حکومت کو جمہوری نظام میں کبھی بھی قبول نہیں کیا جاسکتا ،پھر یہ کیا تماشا ہے کہ ایک طرف ہمارے ملک میں مظبوط جمہوری نظام اور عدلیہ موجود ہے اسکے باوجود حکومت کے ہی کچھ افراد معاملہ کو اپنے ہاتھوں میں لیکرآئے دن اشتعال انگیزی کا مظاہرہ اور بے تکی باتیں کرتے رہتے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت میں شامل کچھ ناعاقبت اندیش افراد یہ سوچ رہے ہیں کہ اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد آپ جو چاہے کر سکتے ہیں ،اگر ایسا ہے تو پھر انہیں یہ سبق پڑھا دیا جانا چاہئے کہ جمہوری نظام میں ایسا کرنا خودکشی کے مترادف ہے اور ایسا صرف اور صرف ایک تانا شاہ ہی کرسکتا ہے جو اپنی طاقت کے نشے میں چور ہوتا ہے۔
حقیقتِ حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ24/سال سے بھی زیادہ عرصہ کسی معاملہ کو حل کرنے کے لئے ناکافی نہیں ہیں ، آخرپھر عدلیہ بابری مسجد کے معاملہ میں فیصلہ کن نتیجہ پر پہونچ نے سے قاصر کیوں ہے؟ دو ہی بات ہوسکتی ہے یا تو یہ کہ رام جنم بھومی کے وجود کا ثبوت ہوگا یا یہ کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تیسری کوئی اورشکل نہیں ہوسکتی،مزید یہ کہ اگر فریق مخالف بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی کو شواہد کی بنیاد پر ثابت نہیں کر پا رہے ہیں تو فیصلہ بابری مسجدکے حق میں ہوجا نا چاہئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ عدالتِ عظمیٰ کو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر فیصلہ لینے میں تاخیر ہو رہی ہے؟
بابری مسجد کے معاملہ میں مسلمانوں کے دو واضح موقف ہیں،ایک مذہبی اعتبار سے اور ایک بطورِ ہندوستانی کے ۔(۱)مذہبی اعتبار سے موقف یہ ہے کہ تاریخی شواہد کی بنیاد پر مسجد غصب کی ہوئی قطعہ ارضی پر تعمیر نہیں ہوئی ہے اسی لئے بابری مسجد تا قیامت مسجد ہی رہے گی کیونکہ مسجد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ وہ بنیاد کے بعد سے تا قیامت مسجد ہی رہتی ہے چاہے مرورِ ایام سے خستہ حالت ہوجائے یا کسی تخریب کاری کی شکار بن جائے اور چاہے دشمنوں کے قبضے میں چلی جائے یا حفاظت کے نام پر اس کو بند کر دیا جائے۔(۲) اور بطورِ ہندوستانی، مسلمانوں کو عدالتی نظام پر مکمل بھروسہ ہے اسی لئے مسلمان عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ کے انتظار میں ہیں ،عدالتِ عظمیٰ سے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہوگا اورہاں یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فیصلہ کی بنیاد شواہدکو بنائے نہ کہ مذہبی جذبات (آستھا)کو۔یہاں یہ واضح رہے کہ ہندوستانی دستور کے تناظر میں بھی مسلمانوں کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں ان کے عبادت خانوں سے محروم نہ کیا جائے کیونکہ دستورِ ہند کے دفعہ 30 کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ جس سرزمین پر انصاف کی بالادستی قائم کرنا ایک خواب بن جاتا ہے اُس سرزمین پر امن و آشتی کے لئے کی جانے والی کوششوں کا جنازہ نکل جاتا ہے اور جس سرزمین کے بسنے والے طاقت ور افراد عدلیہ کے فیصلوں پر غلط طریقوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اُس سرزمین پر کمزوروں کو انصاف ملنا ایک ناممکن عمل بن جاتا ہے۔ اس تناظر میں اسوقت ہمارا ملک با ثر افراد کی زد میں ہے،ایسے کتنے ہی مقدمات ہیں جسمیں سیاست کی آڑ لیکر مجرمین باعزت شہری بنتے پھر رہے ہیں اور ایسے بھی کتنے مقدمات ہیں جسمیں کمزور لوگ سلاخوں کے پیچھے اپنے آنسوں کوخشک کر چکے ہیں۔
6/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت ملک کی تاریخ کو ایک بھیانک موڑ دینے والا حادثہ تھاجب ہم اس معاملہ کاگہرائی سے جائزہ لیتےہیں تو یہ تلخ بات ہمارےسامنے آتی ہے کہ اس معاملہ کی کڑی نفرت پھیلانے والے مفاد پرست سیاست دانوں سے جا ملتی ہےجنہوں نے ہندو عوام کو اپنا آلہ کار بنا کر اس جرم کے لئے اُ کسایا۔چونکہ سیاست دانوں کےاس طبقے سے نمٹنا عوام الناس کی دسترس سے یکسر باہر ہے اسی لئے عدلیہ کی بالادستی نا گزیر ہے تاکہ اصل مجروموں تک رسائی حاصل کرکے انہیں ان کے جرم کی پاداش میں کما حقہ سزا دیکر انصاف کو انصاف کا جامہ پہنایا جاسکے اور عام ہندوستانیوں کی یہی آخری امید ہے۔