ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا چیف منسٹر مقرر کئے جانے پر ایک طرف تنقید کا سلسلہ جاری ہے‘ دوسری طرف دائیں بازو کے حلقوں میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یوگی کو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کی کمان سونپنے کا مطلب ہندو راشٹرا کے خواب یا نعرے کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔ کسی کو ملک کا سیکولر کردار خطرے میں نظر آرہا ہے تو کوئی اسے ملک کے مستقبل کے لئے خطرناک قرار دے رہا ہے۔ مختلف بیانات کو پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور کبھی رونا بھی۔ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے‘ کون کہاں سے کہاں پہنچ گیا‘ یہ جانے ہم کیسے فراموش کرجاتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ کو چیف منسٹر نہ بنایا جاتا تو سب سے زیادہ نقصان بی جے پی اور اس سے کہیں زیادہ نریندر مودی کو پہنچتا۔ اطلاعات کے مطابق نریندر مودی کی ایماء پر بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے یوپی کا گھر گھر سروے کروایا اور عوام سے مستقبل کے چیف منسٹر سے متعلق رائے طلب کی۔ جتنی بھی رپورٹس ملی اُس میں آدتیہ ناتھ اور راج ناتھ سنگھ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ نظر آیا۔ راج ناتھ سنگھ نے مرکزی وزارت داخلہ کے قلمدان کو سنبھالے رکھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی کیوں کہ اگر وہ اترپردیش کے چیف منسٹر کے عہدہ کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تو سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت یوگی آدتیہ ناتھ کے چاہنے والوں کی جانب سے ہوتی۔ یوگی نے اپنی جڑوں کو اس قدر مضبوط کررکھا ہے کہ انہیں کسی بھی الیکشن میں کامیابی کے لئے بی جے پی کے بیانر کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے مودی لہر میں بھی اپنی پہچان برقرار رکھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندو یووا واہنی قائم کی تھی جس نے ملک میں ہندوتوا کی لہر چلائی اور یہ ایک حقیقت ہے جسے مودی اور امیت شاہ بھی دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہندو یووا واہنی کی طاقت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جو نوجوان آج مودی کی طاقت سمجھے جاتے ہیں جس میں بیشتر کا تعلق ہندو یووا واہنی سے ہے جو یوگی کو مودی کی شانہ بہ شانہ دیکھنا چاہتا ہے اس کا ثبوت اُس وقت مل گیا جب یوگی کو چیف منسٹر مقرر کئے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی پورے اترپردیش میں بالخصوص دارالحکومت لکھنؤ میں بی جے پی ہیڈ کوارٹر سے مطالبات شروع ہوگئے کہ بیانر، پوسٹر، ہورڈنگس اور پرچم پر مودی کے ساتھ یوگی کی تصاویر بھی شامل کئے جائیں۔ یہی نہیں بلکہ پورے لکھنؤ میں بی جے پی کی جھنڈیوں سے زیادہ ہندو یووا واہنی کی جھنڈیاں نظر آنے لگیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ ایک کٹر ہندو لیڈر کے طور پر منظر عام پر آئے۔ ان کی اشتعال انگیز تقاریر ہمیشہ تنازعات کا سبب رہیں۔ حالیہ الیکشن کے دوران بھی انہوں نے ایسے بیانات دےئے جس کی مذمت کی گئی۔ انہوں نے ’لوجہاد، گھر واپسی‘ جیسے اصطلاحات ایجاد کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ہر ایک بیان کے ساتھ ان کی مقبولیت اور شہرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب جبکہ وہ اترپردیش کے چیف منسٹر بن گئے ہیں‘ ایک ایسی ریاست جسے ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے۔ دلی کے اقتدار کی منزل کے لئے اترپردیش کا اقتدار سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اترپردیش کے اکثریتی طبقے کو امید ہے کہ دلی میں مودی اور یوپی میں یوگی کے اقتدار کے بعد ایودھیا میں 1949ء سے جاری تنازعہ، رام مندر کی تعمیر کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کورکھ ناتھ مٹھ کے مہنت ہیں۔ اور کورکھ ناتھ مٹھ کا بابری مسجد، رام مندر تنازعہ سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو آدتیہ ناتھ سے پہلے ان کے گرو مہنت آوید ناتھ تھے جو مہنت ڈگ وجئے ناتھ کے چیلے ہوا کرتے تھے۔ ڈگ وجئے ناتھ وہی ہیں جس نے 1949ء میں رام جنم بھومی تحریک شروع کی اور نو دن تک رام چرت مانس کا پاٹھ کیا جس کے اختتام کے بعد بابری مسجد کے اندر رام اور سیتا کی مورتیاں رکھ دی گئی تھیں جس کے بعد بابری مسجد کو تالا لگادیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ڈگ وجئے ناتھ 1920ء میں کانگریس میں شامل ہوئے تھے مگر وہ ابتداء ہی سے گاندھی جی کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے گاندھی جی کے عدم تشدد پالیسی کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی جو گاندھی جی کے قتل کا سبب بنی۔ ڈگ وجئے ناتھ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا‘ 9ماہ بعد اسے رہا کردیا گیا۔ 1937ء میں انہوں نے ہندو مہاسبھا کی بنیاد ڈالی تھی۔ اور ان کے چیلے مہنت آوید ناتھ نے رام جنم بھومی تحریک میں اہم رول ادا کیا۔ وہ پانچ مرتبہ ایم ایل اے رہے اور پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے، پھر ہندو مہاسبھا کے ممبر کی حیثیت سے اور آخر میں بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے 1996ء میں پارلیمانی الیکشن جیتا‘ آدتیہ ناتھ ان کے چیلے ہیں جو اگرچہ راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے مگر جب سنیاس لیا تو ہندو دھرم کے مطابق وہ ذات پات سے بے نیاز ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک طرف اعلیٰ ذات کے برہمن نے ساتھ دیا تو نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں نے ان کے ہاتھ مضبوط کئے۔
آدتیہ ناتھ گریجویٹ ہیں‘ گورکھپور جو دراصل گورکھ ناتھ مٹھ کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ یہاں ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ وہ یہاں سے پانچ مرتبہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اپنی کٹر پسندی اور مخالف مسلم بیانات نظریات کے باوجود کہا جاتا ہے کہ انہیں گوکھپور کے مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مقامی مسلمانوں کی مجبوری رہی ہو۔ ویسے 20؍مارچ کو مختلف ٹی وی چیانلس نے آدتیہ ناتھ اور مسلمانوں کے رشتے پر خصوصی پروگرام پیش کئے گئے۔ گورکھپور کے ڈاکٹر مشتاق علی کا انٹرویو بھی پیش کیا گیا جنہوں نے انکشاف کیا کہ یوگی آدتیہ ناتھ‘ گورکھ ناتھ مٹھ میں گذشتہ 20سال سے یوگی دربار کا اہتمام کرتے ہیں جس میں کسی قسم کا مذہبی بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ اگر ان کے دربار میں کوئی مسلمان نظر آتا ہے تو فوری متوجہ ہوکر اس کے مسائل سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اور مقامی کلکٹر سے لے کر وزیر اعظم تک کو سفارشی خط لکھتے ہیں۔ یہی نہیں اگر ان کی سفارش قبول نہ کی گئی تو اس کی وضاحت بھی طلب کرتے ہیں۔ اسی طرح گورکھپور کے مدرسہ ضیاء العلوم کے ارباب مجاز کا بھی انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس میں ضعیف مسلم حضرات نے یوگی بابا کی کافی سراہنا کی۔ جس طرح سے یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہہ ذہنوں میں ہے اسے اور ان کی کارکردگی اور اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کی یکسوئی سے متعلق تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کا جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے اور ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ قومی سطح پر کسی کو اپنی پہچان بنانے ہے‘ نوجوان نسل کو اپنا ہمنوا بنانا ہے تو اسے مذہبی جذبات کو بھڑکائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ایک متنازعہ‘ دوسرے فرقوں کے لئے دلآزار تکلیف، نفرت، دشمنی پیدا کرنے والے جذبات کے اظہار سے شہرت اور مقبولیت کا برسوں کا سفر لمحوں میں طئے ہوجاتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی ایسا ہی کیا۔ گاؤکشی پر پابندی‘ کے لئے ان مسلسل مطالبات، دادری میں اخلاق کے قتل کے بعد مختلف گروہوں میں ہتھیاروں کی سربراہی کے الزامات‘ ہندو نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھانسنے کے مشورے اور گھر واپسی کے مطالبات میں انہیں کٹر ہندو نوجوانوں میں غیر معمولی طور پر مقبول کردیا ہے۔ چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد یوپی کے دو مسالخ کو بند کرواتے ہوئے انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ انتخابی منشور میں یا انتخابی تقاریر میں جو وعدے اس نے کئے اس پر وہ عمل آوری کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فروری 1999ء میں سماج وادی پارٹی کے ایک قائد طلعت عزیز پر اندھا دھند فائرنگ کے واقعہ میں بھی ان پر ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اُس وقت ہندو یووا واہنی کے نوجوانوں نے یہ نعرے لگائے تھے ’’اس دیش میں رہناہے تو یوگی یوگی کہنا ہوگا‘‘ بہرحال آ دتیہ ناتھ کی مقبولیت مودی کی مقبولیت کے متوازی رہی۔ اور نریندر مودی اس سے پوری طرح باخبر رہے۔ ان کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مستقبل میں اپنے خلاف اپنی ہی پارٹی میں ایک حریف کی شکل میں یوگی کو آزاد رکھنے کے بجائے انہیں اترپردیش کی کمان دے دی حائے تاکہ ذمہ داریوں کے بوجھ اور اقتدار کے نشے اور خوشی میں وہ صلاحیتیں دب کر رہ جائیں جس کی وجہ سے وہ جانے جاتے ہیں۔ یوں تو یوگی جیسے منہ پھٹ انسان چیف منسٹر بنانے کا کریڈٹ عام آدمی مودی کو دیتا ہے مگر سیاسی بصیرت رکھنے والے اور بی جے پی اور سنگھ پریوار کی اندرونی سیاست پر نظر رکھنے والے اس حقیت کو جانتے ہیں یکہ یوگی آدتیہ ناتھ کو چیف منسٹر بنانیا نریندر مودی کی مجبوری‘ کمزوری بلکہ ان کی پہلی شکست ہے۔ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ، بابری مسجد سے متعلق کوئی ایسا فیصلہ سناسکتی ہے جس سے ممکن ہو ملک کے حالات بگڑجائیں‘ یوپی میں امن و قانون کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ ایسی صورت میں اقتدار ہاتھ میں ہونے کے باوجود پولیس اور عدلیہ پر اثرات و رسوخ کے باوجود ریاستی حکومت پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ایسے ہی موقعوں پر بڑے سے بڑے تیس مار خاں اپنی بولی بھول جاتے ہیں ۔اور یہیں سے وہ شیبہہ مسخ ہونے لگتی ہے جس کی کبھی لوگ آرتی اتارا کرتے تھے۔
اپنی صفوں سے اپنے حریفوں کے صفائے، ان کو کمزور یا بے وزن کرنے کا بھی یہ ایک طریقہ ہے۔ یہ ہمارا خیال ہے۔
(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226