بساط عالم پر دین کی واپسی

ثناءاللہ صادق تیمی
میں یوپی الیکشن میں ہوئی سماجوادی کانگریس اتحاد کی شکست سے قدرے دلبرداشتہ اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ وچار میں مصروف تھا ، میری پیشانی پر پریشانی کے آثار واضح جھلک رہے تھے ۔ آنکھیں بھی چغلی کھارہی تھیں اور باڈی لینگویج سے بھی سب کچھ عیاں تھا ۔ اس بیچ فکر ونظر کے کتنے سارے زاویے ابھرے اور اپنی معنویت کی گہرائی یا ہلکے پن کا تاثر دے کر خود ہی روپوش ہوگئے ۔ میں ہندوستانی سیاست کے ماضی حال مستقبل ، کانگریس کے ماضی حال مستقبل اور مسلمانوں کے ماضی حال مستقبل کے تناظر میں چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ ہمارے دوست بے نام خاں یوں مسکراتے ہوئے نمودار ہوئے جیسے یہ کوئی افسوسناک حادثہ تھا ہی نہیں ۔ انہوں نے آکر مجھے اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا اور پھر گویا ہوئے : اور مولانا صاحب ! سارے آنسو بہا چکے یا کچھ اور باقی ہیں ؟ مجھے غصہ بہت آیا اور میں نے کچھ کہنا بھی چاہا لیکن حسب عادت بے نام خاں صاحب نے موقع نہیں دیا ، فرمانے لگے : اس قسم کی پریشانی ان لوگوں کا مقدر ہے جو حالات پر نظر نہيں رکھتے ، جنہیں دنیا کی صحیح معرفت حاصل نہيں ، تاریخ پر جن کی نگاہ کمزور ہے ۔ تم مولوی لوگ پڑھتے تو ہو نہیں اور جوش و جذبے کے سہارے سارے معرکے طے کرنا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔ مجھے خان صاحب پر اس بار اور غصہ آیا اور میں نے کھری کھری سنانے کا سوچا بھی لیکن ایک بار پھروہ اپنی چرب زبانی سے مجھے مات دے گئے اور میں لب ہلانے سے بھی رہ گيا ۔ دیکھو مولانا ! چہرہ مت بناؤ ، برا مت مانو ، پڑھو لکھو ، دلائل کی روشنی میں بحث کرو ۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ ایک آدھ صدی پیچھے جیتے ہو ، بھیا ! حالات بدل رہے ہیں ، ایک وقت تھا جب دین کے ٹھیکداروں کا چلتا تھا ، وہ لوگوں پر راج کرتے تھے ، حکمران تو نام کے وہ تھے جو گدی پر بیٹھے ہوئے تھے کام کے وہ تھے جو مسند دینداری سنبھالے ہوئے تھے ، لوگوں کو جنت و جہنم کے پروانے بیچتے تھے ، اپنے مفاد کے لیے دین کو عجیب و غریب قسم کی دنیا داری بنا رکھا تھا ، ان کی ہیبت اور شوکت ایسی مضبوط تھی کہ ان کے آگے بڑے بڑے بادشاہ جھکے رہتے تھے ، کسی کو بولنے کا یارا نہ تھا لیکن جب ظلم حد سے گزرا ، دنیا نے نئی کروٹ لی ، فرانس کا انقلاب ہوا ، چھاپے خانے کھلے ، سائنس نے ترقی کی ، کشمکش بہت بڑھی ، سائنسدانوں کو بہت زدو کوب کیا گيا ، دینی چودھراہٹ کے مظالم کی جو جو شکلیں ممکن ہوسکتی تھیں سب سامنے آئیں لیکن دین کے نام پر چل رہی دکانداری کو آخر شکست کھانا تھا سو وہ کھا گئی ، گھورک دھندوں کی قلعی کھلنی تھی سو کھل گئی ، توہم پرستی کا نقاب الٹنا تھا سو الٹ گیا اور دیکھتے دیکھتے دنیا سائنس کی تیز روشنی میں آگئی ، اب بازی الٹ گئی ، دین پسندوں پر قدامت پرستی کے لیبل چسپاں ہوئے ، دین کو ساری کمزوری اور پسماندگی کا ذریعہ سمجھا گیا اور دین کی مضبوط مخالفتیں ہونے لگیں ، نتیجہ یہ نکلا کہ پورا ورلڈ آرڈر بدل گیا ۔ کل تک جو سیاہ وسفید کے مالک تھے اب وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ۔ دین بیزاروں کا رد عمل غیر متوقع نہیں تھا لیکن یہ سچ ہے کہ رد عمل شدید ضرور تھا ، انہوں بیزاری میں وہی حربے اختیار کیے جو ان سے قبل دین پسندوں نے اختیار کیا تھا ۔ یوں ظلم دین پسندوں نے بھی ڈھایا اوردین بیزاروں نے بھی ۔ ایک مدت تک دین بیزاروں کا غلغلہ رہا ، ڈیموکریسی ابھری ، کمیونزم کو فروغ حاصل ہوا ، جمہوریت آئی ، دین اور سیاست الگ کیے گئے ۔ اور اس جمہویت کے نام پر بڑے بڑے معرکے ہوئے ، کوئی سپر پاور بنا تو کئی اس کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ بہت سے غلام ملکوں کو آزادی ملی ، عوام کی طاقت دیکھنے میں آئی ، جمہوری طریقے پر حکومتیں بنیں اور دین پس منظر میں چلا گيا ۔
اس طرز فکر و عمل نے کہیں کہیں پر اور بھی روپ اختیار کیے ۔ ترکی میں اسلامی خلافت کا خاتمہ کرنے والے مصطفی کمال نے دین کی ایک طرح سے جڑ کاٹ دینی چاہی ، مسجدوں اور مدرسوں کو نشانہ بنایا گيا ، ترکی زبان کا اسکرپٹ تک بدل دیا گیا، دین پسندوں کو اتنا زدو کوب کیا گیا کہ مت پوچھو لیکن اب دنیا پھر سے ایک نیا روپ دھار رہی ہے ، اسی مصطفی کمال کے ترکی میں بروقت دین پسندوں کی حکومت ہے ، طیب اردگان اور ان کی پارٹی واضح انداز میں دین پسند ہے ، عوام میں دین پسندی کے رجحانات ترقی پر ہیں ، اس لیے جب کبھی دین بیزاری کی کوئی صورت سامنے آتی ہے ، ترکی عوام اس کے خلاف نظر آنے لگتی ہے ۔ ترکی عوام کے اس انداز کو دین کی واپسی اور الحاد کی شکست کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔
امریکہ دنیا میں ڈیموکریسی کا داتا بنا پھرتا ہے ، ابراہم لنکن کو لوگ ایک طرح سے پوچتے بھی ہیں ، پوری دنیا میں جمہوریت کو تھوپنے کے لیے امریکہ جنگيں بھی کرتا رہا ہے لیکن اسی امریکہ کی صورت حال یہ ہے کہ آج اس کے راج گدی پر ایک ایسا شخص عوامی ووٹ سے چن کر آيا ہے جو نہ صرف یہ کہ دین پسند ہے بلکہ دین کے اس شعور میں مجنونانہ کیفیت کا شکار ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت ہے ، ملک کا پورا آئین سیوکولر ہے ، ملک میں اب تک تھوڑے بہت استثناء کے ساتھ جمہوریت پسندوں کی حکومت رہی ہے لیکن اب منظرنامہ بدلا ہوا ہے ۔ بروقت ملک کا وزیر اعظم ایک ہندووادی آرایس ایس کا پروردہ آدمی ہے ، وہ عوام کے مضبوط سپورٹ سے جیت کر آيا ہے ، اس نے رکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہے ، وہ کڑے سے کڑے فیصلے لیتا ہے جس کی زد پر عوام آتے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی غصہ نہيں پنپتا ، اس نے لوگوں میں مذہبی روح پھونک دی ہے ، کیا دلت کیا پچھڑا اور کیا اعلا سب اس کے بھکت ہیں کہ وہ دین پسند اور مذہبی آدمی ہے ۔ ابھی ابھی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں الیکشن ہوا ، عوام سے کہا گیا کہ ہم جیتیں گے تو گوشت پر پابندی لگائیں گے ، لوگوں کو عشق نہيں کرنے دیں گے اور عوام نے بھاری اکثریت سے انہيں جتایا ۔ بروقت اس صوبے کا وزیر اعلا ایک نہایت درجے میں متنازغ فیہ آدمی ہے جو دوسرے دین کے ماننے والوں کے خلاف نہایت گھٹیا زبان استعمال کرتا رہا ہے ۔ وہیں ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے تمام لیڈروں میں سب سے مقبول ایک ایسا آدمی ہے جو داڑھی رکھتا ہے ، ٹوپی کرتا پہنتا ہے ، دین کی دہائی دیتا ہے اور جم کر ڈیبیٹ کرتا ہے ۔
اب اگر تم ذرا سنجیدگی سے جائزہ لو تو پتہ چلے کہ لگ بھگ پوری دنیا میں الحاد کے بالمقابل دین مضبوطی سے برسراقتدار آرہا ہے اور الحاد و روشن خیالی کے بت پاش پاش ہورہے ہیں ۔ الحاد اور دین کی پہلی لڑائی میں الحاد اس لیے جیت گیا تھا کہ دین پسندوں میں اقتدار کا نشہ تھا ، غرور تھا ، بے عملی اور بد عملی تھی اور توہمات کے زہریلے گھونسلے تھے لیکن اب صورت حال بدلی ہوئی ہے ۔ دین پسندوں نے سائنس سے فائدہ اٹھایا ہے ، الحاد کے بہت سے نظریات پر گہرے حملے کیے ہيں ، بے عملی سے خود کو الگ کیا ہے ، معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے حملہ آور ہونے کی پالیسی اختیار کی ہے ۔ اب ان کے اندر ایک قسم کا اعتماد آیا ہے اور یہ اعتماد کام کررہا ہے ۔ نہیں معلوم کہ آگے صورت حال کیا ہوگی لیکن ابھی کی سچائی تو یہ ہے کہ سیکولرزم اور ڈیموکریسی کے راستے دین نے اقتدار پر مضبوط قبضہ جما لیا ہے ، اب سیکولرزم کی دہائی دینے سے کچھ ہونے والا نہیں اور تم لوگ جتنی جلد اس حقیقت کو سمجھ جاؤ اتنا زيادہ اچھا رہے گا ۔
دین رگ وپے میں سرایت کیے رہتا ہے ، اسے کسی ایسی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے جو اس اندر تک گئے دین کو مضبوط اظہاریہ دے سکے اور آج مختلف ملکوں میں ایسے لوگ ابھر رہے ہيں جو اسے اظہاریہ دے سکنے کی پوزیشن میں ہیں ، تمہاری امت کی بد نصیبی یہ ہے کہ تم میں کم کم لوگ اس قابل ہیں یا پھر جو اس قابل ہیں وہ دین کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا ہیں ۔ پیارے ملک میں دین پسندوں کی جیت خطرناک اس لیے ہے کہ یہ دین پسندی کم اور دین کا سیاسی کرن زیادہ ہے اور جب جب دین کا سیاسی کرن ہوتا ہے فاشزم کو ہوا ملتی ہے ۔ دیکھنا آنے والے دنوں میں تمہارے ملک میں فاشزم کو فروغ ملنے والا ہے ۔ اس کے لیے پہلے سے ذہن بنا کر رکھو۔ اس دین پسندی میں ایک دین سے محبت سے کہیں زیادہ دوسرے دین سے نفرت کا عنصر پایا جاتا ہے اور افسوسناک حد تک یہی صورت حال امریکہ اور ہندوستان دونوں کی ہے ۔ اب یہ تمہارے کرنے کا کام ہے کہ تم اس پوری صورت حال کا مقابلہ کس طرح کرتے ہو ……