خالد انور پورنوی المظاہری
اقتدار بدلتے ہیں،حکومتیں بدلتی ہیں،نہ یہ کوئی عجوبہ ہے،اورنہ ہی حیران کرنے والی بات،یہی جمہوریت ہے کہ ہرپانچ سال میں الیکشن کے ذریعہ مرکزی اورریاستی سطح پریاتونئی سرکارآتی ہے،یاموجودہ اقتدار کی بحالی عمل میں آتی ہے،لیکن طے عوام کرتی ہے،اکثریت جدھرجھکتی ہے،اسے ہی تخت وتاج ملتا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ اکثریت کے ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں اور جسے کم ووٹ ملتاہے اسے کامیابی مل جاتی ہے ۔
ہندوستان کی پانچ ریاستوں کاابھی انتخاب ہوا،سب سے بڑی ریاست اترپردیش اوراتراکھنڈمیں بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی،جبکہ پنجاب میں شکست کاسامناکرناپڑا،گوااورمنی پورمیں کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی،کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی،مگرسینہ زوری،اورپیسے کے بَل پر یہاں بھی بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
سب سے اہم ریاست اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کس طرح اورکیوں کرہوئی؟اس پربحث تو سیاسی پارٹیاں کریں گی،اورکررہی ہیں،ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،ہندوستان ہماراوطن ہے، اس کی سرٹیفیکٹ کیلئے نہ کل کسی سیاسی پارٹی کے ہم محتاج تھے اورنہ آج،ملک کاقانون ہمارے لئے بنیادہے اوریہی ہمیں معززشہری ہونے کادرجہ فراہم کرتاہے۔
یوپی تخت پرآج یوگی کاراج ہے،جومسلمانوں کے خلاف زہراگلنے میں ایک عرصہ سے مشہور ومعر و ف رہا ہے،توکیاہوا؟دنیامیں تونمرودبھی آیا،فرعون بھی،اورابوجہل بھی،مگرسب مٹ گئے،اورآج ان کانام ونشان بھی نہیں ہے، مگر ابراہیم ں، موسیٰ ں اورمحمدﷺکانیک نامی آج بھی زندہ وجاویدہے،اوران کے ماننے والے آج بھی پوری دنیامیں موجودہیں، اور قیامت تک رہیں گے۔
جوملک اورآئین کی ہردن دھجیاں اڑاتے ہیں وہی ہمیں حراساں اورپریشان کرنے کی کوششیں کررہے ہیں، انہیں یہ نہیں پتہ کہ ہم مسلمان ہیں،اورمسلمان صرف اللہ سے ڈرتے ہیں،اللہ کے علاوہ دنیاکی بڑی سے بڑی طاقتیں انہیں ڈرانہیں سکتی ہیں،ہاں مصائب آتے ہیں،آندھیاں آتی ہیں،طوفان آتے ہیں،اوریہ آتے رہیں گے،یہی دنیاکامزاج ہے،اوریہی دنیاکی حقیقت ،مگرپانی کے اس بلبلہ سے خوف کھاکرہمارے ایمان میں تزلزل پیدا ہوجائے یہ ناممکن ہے۔
نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی ظلم وستم سے عبارت ہے،133؍سالہ مکی دورمیں مصائب وآلام کے پہاڑ توڑ ے گئے، آپ ﷺ کواورآپ ﷺ کے جانثاروں کاجینادوبھرکردیاگیا،راستے میں کانٹے بچھائے گئے، جسموں کولولہان کیاگیا،شایدظلم کی کوئی ایسی کہانی باقی نہ تھی،جوان کے ساتھ پیش نہ آئی ہو،مگرتاریخ گواہ ہے کہ ان کے پایہ استقامت میں کبھی بھی لغزش نہیں آئی،بلکہ ان کے حوصلوں کوتوانائی ملتی رہی،اورایمان میں مزیداضافہ ہوتا گیا ، اورجوق درجوق لوگ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔
قریش کی دشمنی اورمخالفت اس قدربڑھ گئی کہ اللہ کے رسول،سرکاردوعالم ﷺ نے اپنے آبائی وطن مکۃ المکرمہ کو خیر آباد کہا، اورہجرت کیلئے روانہ ہوگئے،حضرت ابوبکرصدیقص بھی ساتھ ساتھ ہیں، چھپتے چھپاتے غارثورپہونچے، اِدھر مشرکین نے بھی پیچھاکرناشروع کیا۔رسول اللہﷺ کوپکڑکرلانے کی صورت میں سواونٹیوں کے انعام کا اعلان کردیاگیا،بلکہ غارکے منہ تک پہونچ بھی گئے،ابوبکرصدیقص نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! مشرکین مکہ توہمارے سروں پرکھڑے ہیں،ان کے آثارنظرآرہے ہیں،ان میں سے کسی نے بھی ایک قدم بھی آگے بڑھایاتوہمیں دیکھ لیگا،آپ ﷺ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: ڈرومت اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کاحامی ہو خدااُسے مٹاسکتاہے کون
………………………………………….
یوپی الیکشن کانتیجہ ہمارے سامنے ہے،اگرای وی ایم مشینوں میں دھاندلی کوہم خارج کردیں تو یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی سیاست بہت بُرے دورسے گذررہی ہے،ہرچناؤمیں ضابطہ اخلا ق کا نفاذ ہوتاہے،مگراثراس کاالٹاہوتاہے،ہوتاتووہی سب کچھ ہے جو سیاسی نیتاچاہتے ہیں،فرقہ پرستی کا زہر گھول گھول کر پلا یاجاتاہے،مگرنہ ان سے بازپرس ہوتی ہے اورنہ وجہ بتاؤنوٹس کافرمان جاری ہوتاہے، اور ہندوستان کی بکاؤ میڈیااپنی پوری توجہ پیسے پرمرکوزکردیتی ہے،سچائی،دیانت داری سے انہیں کیا مطلب؟ جدھرسے چارہ ملا اُ د ھر ہی لپک گئے۔
وہ زمانہ گئے جب وکاس اورترقی کی بنیادپرووٹ ملتے تھے،اب بہکاوے پرووٹ ملتے ہیں،اورعام لوگوں کی یادداشت بھی بڑی کمزورہے،بہکاوے میں آکرکسی کوووٹ دے دیتے ہیں،لیکن جیتنے کے بعدجملہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔اب دیکھئے ملک کے پی ایم نے یوپی کے چناوی پرچارمیں واضح اندازمیں اعلان کیاتھاکہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعدریاستی کابینہ کی پہلی میٹنگ میں کسانوں کے قرض کی معافی کافیصلہ کرلیاجائیگا،حکومت توبن گئی،مگراب پی ایم بھی خاموش ہیں اورسی ایم بھی خاموش ہیں،بلکہ ساری توجہ ان چیزوں کی طرف ہے جس کے ذریعہ 2019ء میں دوبارہ ملک کے اقتدارپرقبضہ جماسکے۔ نہ کسانوں سے مطلب ہے اورنہ جنتا سے سروکار۔چلئے پھربھی جنتاخوش ہے تو ہمیں کیامطلب ہے؟
نوٹ بندی سے ملک کی معیشت کو شدیدجھٹکالگا،چھوٹی چھوٹی کمپنیاں،فیکٹریاں بندہوگئیں، 1300؍ کے قریب جانیں چلی گئیں،مگراس کے باوجوداگربھارتیہ جنتاپارٹی یوپی میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے تو اس کامطلب بالکل واضح ہے کہ وِکاس اورترقی سے ہٹ کر کچھ ایسامدعاضرورہے جس کے جنون میں عوام نے ووٹ دیئے ہیں،انہیں اس سے مطلب نہیں ہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں15 ؍ لاکھ آئے یا نہیں ، اچھے دنوں کی شروعات ہوئی یانہیں ،کھانے ،پینے کی چیزوں میں کمی آئی یااور بیشی ہوگئی؟
یوپی الیکشن نہ کل ہم نے جیتاتھاکہ آج ہارنے پرافسوس کریں،نہ کل ہم محفوظ تھے کہ آج ہائے ہائے کرنے لگیں،کل بھی بھروسہ اپنے خداپرتھا،اورآج بھی ہے،اورہم سمجھتے ہیں یہی ہماری کامیابی کی دلیل ہے کہ زندگی کے ہرموڑپرخوشی ہویاغمی،راحت ہویامصیبت ہم اللہ رب العزت کویادکرتے ہیں، اوران کی رضا پر اپنی رضا کا اقرارواعتراف کرتے ہیں،ہاں انسان ہونے کے ناطے ایک مسلمان غلطیاں بھی کرتاہے،مگروہ ذات کریم ہے ، جن کی طرف سے معافی بھی بہت جلدہوجاتی ہے۔
ایک مسلمان اورایک غیرمسلم میں یہی فرق توہے کہ مسلمان جنگ ہارنے سے بزدل نہیں ہوتا ہے، اورنہ جیتنے کے بعدوہ مغرورہوتاہے،وہ ہرحالت میں اللہ کی طرف رجوع کرتاہے،ہاں جہاں اپنی جیت سے وہ خوش ہوتاہے اور اللہ رب العالمین کاشکریہ اداکرتاہے،ہارنے کے بعد شکست اورہزیمت کے اسباب پربھی غور کرتا ہے ، کمزوریاں دوکرتاہے،مگرحوصلہ نہیں ہارتاہے،غزوہ اُحدہمارے لئے زندہ مثال ہے، اللہ زخم خوردہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں:سستی مت کرو،غم گین نہ ہو،سربلندتوتم ہی رہوگے بشرطیکہ تم مسلمان ہو!
………………………………………….
پوری دنیامیں ہندوستان ہی ایک ایساملک ہے جہاں پرفرقہ پرستی کی سیاست بہت ہی کامیاب سیاست کہلاتی ہے،اقلیت واکثریت کے بیچ نفرت کی دیوارکھڑی کرکے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں، اوراسے کامیابی کی ضامن یالہرکانام دے دیاجاتاہے،اوراب یوپی الیکشن میں یہ نسخہ بھی بی جے پی آزماچکی ہے کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے بغیربھی حکومت بنائی جاسکتی ہے،اگرمسلمان اس قدربے وزن ہوچکے ہیں تو پھر انہیں اپنے ایمان میں جھانک کردیکھناچائیے ،اور زمینی سطح پر اسباب وعلل پرغوروفکرکرناچائیے!
ہاں یہ بات سچ ہے کہ آزادی کے بعدسے آج تک مسلمانوں نے اپنی کوئی مسلم پارٹی نہیں بنائی،اور نہ ہی اس جانب کبھی توجہ دی اورسیکولرپارٹیوں اورطاقتوں کاساتھ دیااوربس،مگرملاکیا؟ظلم وستم کی ایسی د ا ستا ن کہ اس کے بیان سے دنیائے انسانیت کراہ اٹھتی ہے۔بابری سے لیکردادری،مظفرنگرسے لیکرگجرات تک ہم خون میں لت پت ہیں،اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے اوراس میں بڑھنے کاامکان زیادہ لگ رہاہے۔
ہم نے کیاسوچاکہ دن بھرسوئے رہیں،اورکوئی دوسراہمارے حقوق کی لڑائی لڑیگا،کل بھی ہماری یہی بھول تھی اورآج پھریہی بھول دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ نے لکھتے ہیں : اگر قوم کوپنج وقتہ نمازی نہیں،بلکہ سوفیصدتہجدگذاربنادیاجائے،لیکن ان کے سیاسی شعورکوبیدارنہ کیاجائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیاجائے،توممکن ہے کہ اس ملک میں آئندہ تہجدتودُورپانچ وقت کی نمازوں پربھی پابندی عائدہوجائے۔
فدائے ملت حضرت مولاناسیداسعدمدنی ؒ نے جمعیۃ علماء ہندکے پلیٹ فارم سے ملک وملت بچاؤ تحر یک چلائی تھی،جواُس وقت بہت ہی زیادہ کامیاب اوربااثرثابت ہوئی تھی۔لوگوں نے پوچھاکہ اپنی اس تحریک میں ملک کو پہلے کیوں ذکرکیا،ملت کوکیوں نہیں؟انہوں نے جواب دیا:جب ملک ہی محفوظ نہیں رہے گاتو ہم اورآپ کیسے رہیں گے۔ان بزرگوں کی یہ باتیں کیاہمیں آنکھیں کھولنے پرمجبورنہیں کرتی ہیں کہ اب اسٹیج چھوڑیں، زمین پراتریں،اورملک جوسیکولرراہ سے بھٹک چکاہے،اسے پرانی پٹری پرواپس لائیں،اورکسی بھی حال میں فرقہ پرستوں کوکامیاب نہ ہونے دیں،مگریہ کھیل اتناآسان بھی نہیں ہے، دشوارضروری ہے،لیکن ناممکن بھی نہیں ہے!
امارت شرعیہ کے بانی حضرت مولاناابوالمحاسن سجادؒ کاایک ہی پیغام تھاکہ ملکی حالات سے اپنے آپ کو الگ کرناغلط ہے،اگرمسلمانوں میں اقتدارکومتاثرکرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو اسلامی معاشرہ کی حفاظت بھی ممکن نہیں ہوگی اورنہ دینی اوراجتماعی تشخص برقراررہ پائیگا؛اسی لئے انہوں نے 1935ء میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کاقیام عمل میں لایا،سیاسی اجارہ دار و ں کے ہرقسم کی مخالفت ومزاحمت کے باوجودجب الیکشن کانتیجہ سامنے آیا تو ماہرین سیاست انگشت بدنداں رہ گئے، اس پارٹی کو80% فیصدکامیابی ملی،23؍میں سے 20؍ امیدوار کامیاب ہوئے،بہاراسمبلی میں کانگریس کے بعدمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی،کانگریس اورگورنرکے مابین اختلاف کی وجہ سے بعض شرائط کی بنیادپرکانگریس نے وزارت قبول کرنے سے انکار کردیا تو گورنرکی دعوت پرمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی نے حکومت بنائی،جس کی حکومت 120؍دن تک چلی،پھرجب گورنر جنرل کے ساتھ گاندھی جی کاسمجھوتہ ہوگیاتوکانگریس ورکنگ کمیٹی نے وزارتوں کی تشکیل کی اجازت دی اور مسٹریونس خان نے استعفا دے دیا۔مگراس چارماہ کی حکومت میں عوام اورخاص کرکسانوں کی بھلائی کیلئے انہوں نے جوکام کئے ہیں وہ تاریخ کے دفترمیں آج بھی محفوظ ہیں۔
مگر آزادی کے بعد یہ ممکن نہیں ہوسکا،اب تو اور زیادہ اس کا امکان نہیں لگ رہاہے ؛مگر سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہ ہو،مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ حاصل ہو،اور دیگر شہریوں کی طرح زندگی کے ہر شعبے میں انہیں بھی مناسب نمائدگی دی جائے؛اس کے لئے ایک عظیم اتحاد کی ضرورت ہے ،اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی جماعت جمعیۃ علماء ہند ہے ، اس کے پاس ملکی ،ریاستی،ضلعی ،یہاں تک کہ بلاک سطح پر بھی کثیر تعداد میں افراد موجود ہیں،اس سلسلہ میں بہتر اورخاطرخواہ عملی کردار پیش کرسکتے ہیں ۔
آخرکیاوجہ ہے ؟کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش جہاں 1155؍اسمبلی حلقوں میں مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ،مگر وہ بھی بکھراؤکا شکار،صرف 25سیٹ پر کامیابی ،ایساکیوں؟اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے،ایسانہیں ہے کہ دہلی کی جامع مسجد سے اعلان ہوجائے ،یاکسی کی طرف بیان جاری ہوجائے اور مسلمان اتحاد کو ثبوت دیتے ہوئے کسی ایک کو ووٹ دے دیں ،بالکل ہی ممکن نہیں ہے ،بلکہ اس طرح دوسرے لوگ جاگ جاتے ہیں ،صرف ایک ہی شکل ممکن ہے کہ بلاکسی شوروغل اورجلسے جلوس کے زمینی سطح پر کام کی شروعات ہو ،اور حلقہ حلقہ بانٹ دیاجائے کہ کسی بھی حال میں ہماراووٹ انتشار کا شکار نہ ہواس کے لئے تمام مسلم تنظیمیں آگے آئیں ،ایک مضبوط اور متحدہ لائحہ عمل تیارکریں،بلاکسی مسلک و مکتبہ فکر کلمہ واحدہ کی بنیاد پر اپنے صفوں میں اتحاد پید اکریں،قوم وملت کے لئے خلوص کا مظاہرہ کریں ،ان شاء اللہ تبدیلی آئے گی۔
حالات سے گھبراجاناایک مسلمان کی شان نہیں ،ہاں مسائل ،حالات اور پریشانیوں سے ہم سبق سیکھیں یہی ہماراسلام کہتاہے ،اور یہی ہمارے نبی ﷺکی تعلیم ہے!
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں