یہی تو وقت ہے سورج تیرے نکلنے کا

ثناءاللہ صادق تیمی
تھوڑی دیر کے لیے عالمی حالات سے صرف نظر کربھی لیجیے تو یہ سچ ہے کہ ملکی پیمانے پر ہم مسلمانوں کے لیے ماحول بظاہر بہت سازگار نہیں ہیں۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے تحت بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے اور بر سراقتدار آنے کے بعد آرایس ایس کے زیر رہمنائی چلنے والی بی جے پی کا رویہ بہت جانبدارانہ رہا ہے ۔ اس بیچ ملکی سطح پر عجیب وغریب تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ، قانون کی بالادستی کمزور پڑ رہی ہے ، اینٹی رومیو اور گئو رکچھک دل دیش کو اپنے طور پر چلا رہے ہیں ۔ بے رحمی سے جہاں تہاں غلط سلط الزامات میں مسلمانوں کو مارا جارہا ہے ، فضا میں ایک عجیب نفرت گھول دی گئی ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب ، تہذیب ، زبان اور رنگ کے لوگ جیتے ہیں ، کثرت میں وحدت اس کی خوبی مانی جاتی ہے ، یہی اس کا حسن بھی ہے اور ترقی کا راز بھی ۔ پہلی بار منظم کوشش کے تحت اس کثرت کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ ملک کے بقیہ طبقات کے لیے بھی حالات ناخوشگوار ہیں لیکن بطور خاص مسلمانوں کے لیے صورت حال زیادہ ابتر کرنے کی کوسازش جاری ہے ۔ ایسے میں بعض بہی خواہوں کی طرف سے جس طرح مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے اور بعض خود ڈرے ہوئے لوگ قوم کو جس طرح ڈرا رہے ہیں وہ حد درجہ افسوسناک ہے ۔
دیکھیے افراد کی مانند ملتوں کی زندگیوں میں برے حالات کا آنا کوئی اس قدر تعجب خیز نہیں بلکہ قانون قدرت کے تحت کبھی کبھی یہ حالات اس لیے آتے ہیں کہ حالات کو زيادہ بہتر کیا جاسکے ۔ صرف تقسیم کے بعد کی صورت حال نظر میں رکھ لیجیے تو پتہ چلے کہ بحیثیت ایک ملت کے ہم ہندوستانی مسلمانوں کی کیا حالت تھی ، ڈر اور خوف کے کتنے بچھو تھے ، فسادات کے کیسے کیسے سلسلے تھے ، ہماری معیشت پر کس طرح نشانہ سادھا گیا ، ہمیں سرکاری نوکری سے الگ رکھنے کی کیسی کیسی کاوش ہوئی لیکن ان تمام کے باوجود یہ سچ ہے کہ بحیثیت ایک ملت کے ہمارا سفر آگے کی طرف جاری رہا اور کل کی بہ نسبت آج ہم الحمد للہ زیادہ مضبوط ہیں ۔
نا موافق حالات میں انسان اپنی ودیعت کی گئی طاقت کا استعمال زيادہ کرپاتا ہے ایک دم ویسے ہی جیسے امتحان ہال میں بیٹھ کر ہم وہ سوالات بھی حل کرلیتے ہیں جو عام حالات میں امتحان کے پریشر کے بغیر دیے جائیں تو ہم سے حل نہ ہوسکیں ، ملتوں کی زندگیوں میں ناموافق حالات در اصل خفتہ قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے آتے ہیں۔ امتحان اس میں یہی ہوتا ہے کہ ہم ان قوتوں کو بیدار کر پاتے ہیں یا نہیں ۔
نا موافق صورت حال میں عام طور سے دو رویے ابھرتے ہیں ۔ ایک مثبت اور ایک منفی ۔ منفی رویہ یہ ہوتا ہے کہ ڈر جایا جائے ، چیخ و پکار سے کام لیا جائے ، جذباتیت کا مظاہرہ ہو ، شکوہ شکایت سے کام لیا جائے اور رونا پیٹنا شروع کردیا جائے ۔ اس کانتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ صورت حال مزید خراب ہوجاتی ہے اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ مثبت رویہ یہ ہوتا ہے کہ حواس بحال رکھے جائیں ، صبر سے کام لیا جائے ، صورت حال کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناموافق صورت حال موافق صورت حال میں بدل جاتی ہے ۔
ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہوتی ہے ، ان مع العسر یسرا کا ترجمہ لوگوں نے بالعموم غلط کیا ہے ، تنگی کے بعد نہیں ، تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔ ایک عقلمند ملت کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اس تنگی میں کشادگی کی کوئی سبیل ڈھونڈ نکالے ۔ جس طرح فرد کی زندگی میں اسٹرگل( جد و جہد ) کے ایام خاصے اہم ہوتے ہیں اسی طرح قوموں اور ملتوں کی زندگی میں بھی یہ بہت اہم ہوتے ہيں ۔ ہم بحیثیت ایک ملت کے اسٹرگل کے دور سے گزر رہے ہیں اور ان شاءاللہ اس کے نتائج بہت اچھے سامنے آئیں گے ۔ اس کے لیے آئیے کچھ ٹھوس اقدامات کرتے ہیں ۔
1 ۔ تعلیم ہمارے یہاں اب تک مشن نہیں بن پائی ہے ۔ اسے مشن بنانا ہے ۔ ایک ایک فرد کو تعلیم دینی ہے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ۔
2 ۔ نئی نسل کی تربیت کرنی ہے ، انہیں بتانا ہے کہ یہ ملک ہماراہے اور ہمارے بغیر اس کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہوں گے ۔ ان کے اندر مقابلہ کرنے کا جذبہ بیدار کرنا ہے ۔ مختلف مسابقاتی امتحانات کے لیے انہیں تیار کرنا ہے اور بھرپور کوشش کرنی ہے کہ ہم کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے ۔
3 ۔ سیاست چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ضرور ہے ۔ ہمیں سیاست میں ایسے لوگوں کو آگے کرنا ہے جن کے اندر شعور ہو ، تعلیم ہو ، جذبہ ہو اور جو قوم و ملت کے تئیں بہتر رویوں کے انسان ہوں ۔ Political Activism کو اپنی قوم میں بڑھانا ہے ۔
4 ۔ بحیثیت ایک ملت کے ہمارے اندر دینے کا جذبہ سرد پڑتا جارہا ہے ، یہ ایک گھاتک رویہ ہے ۔ ہم اس نبی کی امت ہیں جو دنیا کو نوازنے آئے تھے ، بحیثيت ایک کمیونٹی کے ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم دوسروں کو دینے کی پوزیشن میں گر ابھی نہیں ہیں تو کم از کم اپنی کمیونٹی کو ضرور نوازیں ۔ آپ کی دولت یقینا آپ کی ہے لیکن اگر آپ نے اس سے کوئی بڑا کام کردیا ، کوئی اچھا اسکول مدرسہ قائم کردیا ، کوئی کوچنگ سینٹر کھول دیا ، کالج یونیورسٹی بنادی ، کوئی سائنس انٹسٹی ٹیوٹ دے دیا تو یہ آپ کے لیے بھی اور امت کے لیے بھی بڑی بات ہوگی اور اللہ پاک آپ کو ضائع کبھی نہیں کرے گا ۔
5 ۔ یاد رکھیے کہ جس طرح فرد کی تعمیر میں اس کی کوششیں بہت معنی رکھتی ہیں اور اس کا اسٹرگل ضائع نہیں جاتا اسی طرح ملتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، ملتوں کا اسٹرگل بھی ضائع نہیں جاتا۔ ہم نے اگر جیتنے کی ٹھانی ہوئی ہے تو ہمیں کوئی طاقت ہرا نہیں سکتی ۔
6 ۔ ہم میں اب بھی سماجی خدمت کی کمی ہے ، ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے یہاں اچھے ہاسپیٹل بنائیں گے ، مسافر خانے کھولیں گے ، لائبریریاں قائم کریں گے اور کم از کم ہر دن دو تین کام ایسا ضرور کریں گے جس کا مقصد صرف سماجی خدمت ہوگی ۔
7 ۔ یہ وقت ڈرنے کا یا جذباتیت کا نہیں ، کچھ کرگزرنے کا ہے ۔ خوف موت ہے لیکن خوف کے مہیب سایوں کو امید کی نئی جوت بنالینا زندہ قوموں کا شعار ہے ۔ ہم اس خوف کو دھتکاریں گے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے خوف کی کوئی جگہ نہیں ۔ اور ویسے بھی بہت کوشش کرنے کے باوجود زہریلی قوتیں ابھی اتنی کامیاب نہ ہو پائی ہیں کہ وہ دیش میں امکانات کا دروازہ بند کرسکیں اور ان شاءاللہ وہ کبھی کامیاب ہوں گے بھی نہیں ۔
8 ۔ ملکی پیمانے پر مسائل بڑھے ضرور ہیں لیکن میڈیا میں جس طرح چیزيں آتی ہیں عام طور سے صورت حال ویسی بھی نہيں ہوتی ۔ اب بھی الحمد للہ بہت کچھ خیر باقی ہے ۔ ہمیں اپنا سفر جاری رکھنا ہے ۔ محنت ، لگن ، شعور اور جذبہ صادق کے سہارے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ رات کے بعد صبح ضرور آتی ہے اور تاریکی کو چھٹنا ہی پڑتا ہے ۔ مجھے شہریار کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج تیرے نکلنے کا