فیروز احمد ندوی
مسلمانان ہند کے مسائل اس قدر برھتے جارہے ہیں کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوپاتا ہے اور دوسرا مسئلہ سرپر آن کھڑا ہوجاتا ہے ، مشکل یہ ہے کہ یہ سارے مسائل مہیب اور ڈراونا رخ اختیار کرتا جارہاہے بلکہ ہندوستان میں اسلامی تشخص اور دینی شکل وشباہت کے ساتھ جینا اپنے اندر خوف وہراس پیدا کرنے لگا ہے اور یہ سب ان شدت پسند عناصر کے بے لگام اور شتر بے مہارہونے کی وجہ سے ہورہا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنی مسموم اور پراگندہ ذہنیت و ارادے کو بروئے کار لانے کی وجہ سے پورے ملک کا ماحول خوفناک صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے ۔
اگر ہم غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے یہ خطرناک صورت حال اچانک اور یکلخت وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ اس کے پیچھے آر اس اس اور ان کی تمام ہمنوا تنظیموں کی مسلسل روز وشب کی انتھک کوشش کا نتیجہ ہے خواہ وہ تعلیمی میدان میں ہو یا سماجی میدان ہو جہاں ایک طرف اس نے ہر گاوں ہر محلہ میں اپنی خاص ذہنیت کو پروان چڑھانے کے لئے اسکول قائم کر لئے ہیں اور سماجی طور پر بھی نئے وسائل اتصالات کو بروئے کار لاتے ہوئے نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندہ اور مسموم کردیا ہے ۔
وہیں دوسری جانب ایسے ایسے بے تکے مسائل کھڑے کررہے ہیں جس سے عام مسلمانوں کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، کہاں تو حکومت کا کام ہے کہ عام انسانوں کے فلاح وبہبود کے لئے کام کرے اور ترقیاتی اسکیموں اور لوگوں کی بنیادی ضرورتوں جیسے بجلی ، پانی، صحت عامہ کے لئے کام کرے، لیکن کبھی گائے، لوجہاد، طلاق ، رام مندر اور اس جیسے بہت سے غیر ضروری ایشوز اچھالا جاتا ہے۔
اس صورت حال کا مقابلہ کرنے لئے وہی طریقہ اوروسائل و ٹکنالوجی استعمال کرنا ہوگا کیونکہ مثل مشہور ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ، نفرت کی دیوار (جس کو ان لوگوں نے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان کھڑا کر دیا ہے )، کو بھی گرادینا ہے اپنے اخلاق وعادات کے ذریعے اور آپسی بھائی چارہ قائم کرکے،دونوں طبقوں کے درمیان میں سلجھے ہوئے مزاج کے لوگوں سے بات چیت کرکے، سب سے بڑھ کر اس جانب اسوہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کرکے بھی اس نفرت بھرے ماحول کو اپنے مطابق سازگار بنایا جاسکتا ہے ۔
ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف فراست ایمانی اور عقل و خرد سے کام لینا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بعد کے زمانے میں صحابہ کرام ،تابعین عظام وغیرھم نے کیا رویہ اپنایا تھا اور ہمارے لئے موجودہ دور کے تناسب سے قرون اولی میں کیا نمونہ ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے عمل کرنا پڑے گا ۔
جب ہم اسوہء رسول کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں مقبول بنایا تھا ،وہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کے مکمل فرماں بردار تھے جب ہی تو ان کی حکومت انسان تو کیا وحشی درندے تک پر قائم تھی۔ اور سورہ انفال کی آیت ۶۰ ( اور جہاں تک ہوسکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کو تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی )۔
اس آیت کریمہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں زمانہ کے حساب سے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنی ہوگی ۔ آج زمانہ ہے نئے ٹکنالوجی نئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ،اگر ہم کو بدنام میڈیا کے ذریعے کیا جارہا ہے تو ہم کو بھی میڈیا کا ہی استعمال کرنا ہوگا ، اور اس میں اس زبان کے ذریعے جواب دینا ہے جس سے ہمارے دشمن زیادہ واقف ہیں ، اب تو بہت سے ایسے مدارس ہیں جہاں انگلش پر ماہر لوگ موجود ہیں ، انہیں اسی زبان کا استعمال کرکے مسکت جواب دینا چاہئے دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہمارے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں ہندی اور انگلش زبان کے ذریعے زہر گھولا جارہا ہے اور ہم اس کا جواب اردو زبان میں دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔
اپنے سماج کے اندر بھی اسلامی خطوط پر چل کر بیداری لانا ہوگا جیسے طلاق کا مسئلہ آج کل بہت زور شور سے اٹھایا جارہا ہے اس کے لئے ہمارے ائمہ مساجد سماج میں اس کے تئیں بیداری لانے کے لئے موثر رول ادا کر سکتے ہیں اور ملک کے ہر ضلع اور قصبات میں دار القضاء کا قیام ناگزیر بنتا جارہا ہے اس جانب بھی جلد سے جلد پہل کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ مسلمانوں کے عائلی مسائل اسی دارالقضاء میں حل کئے جائیں، اور حکومتی عدالتوں کے جانب ایسے مسائل نہیں جاسکے ۔