غلام مصطفی عدیل
نانک و چشتی کے ہندوستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہر امن پسند شہری بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اب یہ، وہ ملک نہ رہا جس کی تعمیر و ترقی کے لئے ، اور امن و آشتی کا گہوارا بنانے کے لیے اس کے ہزاروں سپوتوں نے اپنی جانیں نچھاور کی تھیں، تاکہ مادر وطن پوری دنیا میں سب سے الگ اک نمایاں مقام حاصل کرلے، اور یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال دی جائے، یہاں اگر ہندو تمام تر آزادی کے ساتھ اپنے بھجن سے صبح کریں تو مسلم برادری بھی اپنے دن کی شروعات آذان اور نماز کے ذریعے کریں، لیکن کیا کیا جائے، ایسا ہر دور اور ہر زمانے میں ہوا کہ چند سماج دشمن عناصر اور ملک دشمن عناصر کی وجہ سے پوری قوم اور سوسائٹی کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے ان مٹھی بھر تملق پسند اور دریوزہ گر کی تباہ کاری و نقب زنی کی وجہ سے ملک کی عوام اپنی آنکھوں میں سجے ہوئے خوابوں کو چکناچور ہوتے دیکھی ہے، بالکل یہی حال بد قسمتی سے اپنے ملک ہندوستان کا بنا ہوا ہے، یہ عناصر چاہتے نہیں ہیں کہ یہ ملک امن و امان اور صلح و آشتی کا گہوارا بنے، بلکہ اب تو ملک ہندوستان میں ایک نئی روش یا دوسرے لفظوں میں اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے اک وبا دن بدن مضبوطی پکڑتی جا رہی ہے، کہ جو بھی سستی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے، تو بس اپنے ہی ملک کے باشندوں کے مذہبی معاملات اور عقائد کو نشانہ بنا کر بلا جھجک راتوں رات چمکنے کی مذموم کوشش کر جاتا ہے، المیہ یہ ہے کہ اس پر نہ تو مرکزی حکومت قدغن لگانے کی کوشش کر رہی ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کوئ ایکشن لینے کے حق میں نظر آ رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ باضابطہ ان سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی بھی کی جا رہی ہے، شاید ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس ملک کو چلانے کے لیے ایسے افراد منتخب ہو کر آئے ہیں، جو ایک طرف تو غنڈہ گردی کے واقعات کی تئیں نرم رویہ اختیار کر کے ان فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہیں تو دوسری طرف ملک میں بسنے والے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے صرف اور صرف مذہبی معاملات میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں، اور ان کی مذہبی آزادی کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، پچھلے دنوں گلوکار سونو نگم کا ٹویٹ اسی طرح کے رویوں کا شاخسانہ ہے، بھئ کیا مطلب بنتا ہے ایسے لوگوں کا مذہبی امور میں بیان بازی کا؟ اور وہ بھی ایسا شخص جس کی روزی روٹی کا مسئلہ ہی لاؤڈ اسپیکر سے جڑا ہو؟ جو دن رات گانے بجانے کے لئے لاؤڈ-اسپیکر ہی کا استعمال کرتا ہو؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے اس طرح کی حرکت کرنے پر مجبور ہوا ہے، خیر یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا، یہاں تک تو بات ان لوگوں کی تھی جنکی شرست ہی میں اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، لیکن جہاں تک معاملہ ہے لاؤڈ-اسپیکر سے مذہبی امور کی انجام دہی کا، تو اس میں خصوصاً برادران وطن کی جانب سے بڑی شدت برتی جا رہی ہے، ضرورت سے زیادہ ویلیوم بڑھا کر استعمال کیا جا رہا ہے، رہی بات مسلم برادری کے لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرنے کی تو اسلام چونکہ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو راہ اعتدال پر گامزن ہونے پر آمادہ کیا ہے، اسی لیے انکی عبادت کی ایک خاص ٹائمنگ ہے نہ اس سے فوق متصور ہے اور نہ ہی تحت بلکہ اک ادنی درجہ کا مسلمان اسکی جرأت کر ہی نہیں سکتا کہ وہ نماز کے علاوہ اوقات میں آذان دے، چاہے کوئی دنیا بھر کی دولت اس کے قدموں میں لاکر رکھ دے وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا، کیونکہ مسلمان اپنے رب کے حکم ہی پر چلتا ہے اسے صرف اپنے پروردگار کی رضا و خوشنودی مطلوب ہوتی ہیں، اس کے برخلاف ملک کے طول و عرض میں واقع ہزاروں ایسی مندریں ملیں گی جن میں پوجا پاٹ کے لئے کوئی ٹائمنگ ہے ہی نہیں جب چاہتے ہیں جس وقت چاہتے ہیں لاؤڈ-اسپیکر کے بے جا استعمال سے گریز نہیں کرتے، بات تھوڑی کڑوی ضرور ہے لیکن برادران وطن اس حقیقت سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے کہ اکثر منادر کے سادھو سنت، سرمایہ دار لوگوں کے حکم کے آگے بے بس اور سر خم کرتے نظر آتے ہیں، سرمایہ دار حضرات اگر رات کے دو بجے بھی انہیں کہیں “لاؤڈ اسپیکر سے پوجا شروع کرنے” تو انکی خوشنودی اور مال کی ہوس کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے نہیں چوکتے، مندر کے آس پاس کے مریضوں کی بھی کم از کم ذرہ برابر رعایت نہیں کی جاتی ہے، اسی طرح بعض جگہ پر مسلمان اور عیسائی بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں، خیر عیسائی کے یہاں تو درست رہنمائی کا فقدان ہے، لیکن ہم تو مسلمان ہیں ہمیں تو کم از کم اعتدال پر رہنا چاہیے؟ اگر ہم مسلمانوں ہی کو دیکھیں تو یہ بھی بلا ضرورت سلام اور فاتحہ خوانی اور تفسیر قرآن وغیرہ کے لئے لاؤڈ-اسپیکر کا بے محل استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں، جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس میں نام و نمود کے علاوہ اور کوئی چیز کارفرما نہیں ہے، حالانکہ مذہب اسلام نے اپنے چاہنے والوں کو ریاکاری اور دکھاوے سے باز رہنے کی تلقین کی ہے تو پھر ہم کیوں غیر مسلموں کی طرح لوگوں کو دکھانے اور سنانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا سہارا لے رہے ہیں؟ جبکہ ہمارا پروردگار تو دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے اس سے کوئی بھی شئ مخفی نہیں ہے، تو کیا اگر سلام و فاتحہ خوانی وغیرہ جو بغیر لاؤڈ اسپیکر کے کیا جائے وہ اسے نہیں سنے گا؟ ضرور سنے گا، وہ تو رات کے اندھیرے میں کالے پہاڑ پر رینگنے والی چونٹی کی آہٹ کو بھی سنتا ہے تو ہماری بھی سن سکتا ہے، اس لیے خصوصاً ہم مسلمان غیر اقوام کو ایسا موقع ہرگز نہ دیں جس سے انہیں ہمارے خلاف بولنے کا موقع ملے، ہاں آذان کے لئے ہمیں قانون نے اجازت دی ہے یہ الگ بات ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ پڑھی جانے والی چیز کے مؤثر ہونے میں حسن صوت( عمدہ آواز )کا بھی بڑا دخل ہے، آج اگر ہم اپنی مساجد میں مقرر مؤذنین کی حالت دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے! معاف کیجئے گا! لیکن یہی حقیقت ہے کہ ہم مسلمان اور خاص طور پر ہماری مساجد کے متولیان حضرات چند پیسے بچانے کی خاطر ایسے کریہہ الصوت( بھونڈی آواز ) لوگوں کو اسلام کی اہم ترین دعوت کے کام پر مامور کئیے ہوئے کہ اگر کوئی کمزور دل آدمی سنے تو اسے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے، آواز تو ہوتی ہی ہیں بےسر اس کے علاوہ نہ تجوید کی رعایت اور نہ ہی کلمات کی ادائیگی کی رعایت ملحوظ رہتی ہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ ہم اگر ایسے افراد کو آذان کے فریضے پر مامور کریں گے تو سونو نگم اور ان جیسے لوگوں کو ہمارے خلاف سر ابھارنے کا موقع ہم خود فراہم کرتے ہیں، حالانکہ مذہب اسلام ہی نے تجوید اور لحن داؤدی کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا ہے لیکن ہم خود اپنی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر غیروں کو موقع فراہم کر رہے ہیں، اس لیے تمام مسلمانوں سے عموماً اور ذمہ دارانِ مساجد سے خصوصاً اپیل ہے کہ آپ اپنی اپنی مساجد میں آذان و امامت کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جنکی دلسوز اور دلنشیں آواز سن کر ایک لمحے کے لیے انسان ساکت ہوجائے، اور بار بار ان مسجدوں کا رخ کرنے پر آدمی کو مجبور کردے، چاہے اس کے لیے ہمیں پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ ہی کیوں نہ دینا پڑے،
جینے کے رنگ ڈھنگ میں کچھ انقلاب لا
آباد درد و سوز سے اپنا جہان کر،
اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے آور ساتھ ہی ساتھ عمل کی بھی توفیق بخشے، آمین.