ڈاکٹر عبدالسلام صدیقی
آج کل مسلم پرسنل لاءکا مسئلہ پورے ملک میں زیر بحث ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں زور دار بحثیں ہورہی ہیں لیکن بحث کرنے والے ایک دوسرے کی دلیلوں سے مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہورہی ہے جس کا فائدہ مفاد پرست عناصر بہت تیزی سے اٹھانے میں مصروف ہیں ۔بنیادی طور پر مسلم پرسنل لاءمسلمانوں کا بنیادی حق ہے ۔جو ہندوستان میں7 193سے جاری و ساری ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف نہیں ہے ۔کچھ سیاسی عناصر کے اپنے ایجنڈے ہیں اور ان کا عرصہ سے مطالبہ ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے یکساں قانون ہو ۔کسی خاص مذہب کو قانون کے نام پر کوئی خصوصی مراعات نہ حاصل ہو ،حالانکہ ان کا یہ مطالبہ ابھی تک صرف ایک مبہم مطالبہ تک محدود ہے جس کا نہ کوئی خاکہ ہے نہ دستور ہے ،لیکن اگر کوئی اس کا واقعی ڈرافٹ اور مسودہ ان کے پاس ہے بھی تو اس کے زد میں ملک کے بہت سے مذہبوں کے پرسنل لاءوالے بھی ہیں لیکن ان کی طرف سے نہ کبھی کوئی احتجاج ہوتا ہے ،نہ مظاہرہ ہوتا ہے ،نہ کوئی مطالبہ ہوتا ہے ۔جبکہ یہاں ہندوﺅں کے بھی اپنے پرسنل لاءہیں ،مسلمانوں کے بھی ہیں اور عیسائیوں کے بھی ہیں ۔مسلم پرسنل لاءکے حوالہ سے جب بھی کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے اس میں طلاق کا مسئلہ سر فہرست رہتا ہے ۔جبکہ اس میں شادی ،وراثت اور متبنیٰ کا مسئلہ بھی شامل ہے ۔طلاق کے مسئلہ میں بھی تین طلاق اور ایک مجلس میں تین طلاق کا موضوع چھایا رہتا ہے ۔ٹی وی چینلس پر طلاق کے حامی مسلم علماءاپنے موقف کو اسلام کا متفقہ موقف قرار دیتے ہوئے شریعت کا جزقرار دیتے ہیں جبکہ تین طلاق کی مخالف مسلم خواتین کا پینل اسے خواتین پر ظلم قرار دیتے ہیں اور طلاق کے لیے صرف قرآنی طلاق کو ہی قابل قبول قرار دیتے ہیں اور ان حالات کے لیے ذمہ دار اسباب و وجوہات پر غورو فکر کرنے کی زحمت کوئی بھی فریق اٹھانے کو تیار نہیں ہے ۔اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں اس پر اسلامی معاشرہ میں عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ سب مسائل پیداہورہے ہیں ۔علماءیہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیے ہیں لیکن اگر کوئی اس پر عمل نہیں کررہاہے تو اس میں علماءکا کیا قصور ہے۔ یہ سلسلہ سینکڑوں سال سے چلا آرہا ہے اور آج بھی مسلم معاشرہ کے سر بر آوردہ لوگ اسی خواب خرگوش میں مبتلا ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق دے دیے ہیں ۔جبکہ ان کے ساتھ امتیازی رویہ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وراثت میں مسلم خواتین کو حق نہیں دیا جاتا ہے ،اس کے لیے سب کی زبانیں خاموش رہتی ہیں ،تعلیم نسواں میں ابھی بھی لڑکیاں امتیازی سلوک کا شکار ہیں ،اسی طرح مسلم خواتین کی فلاح و بہبود ،ان کی تعلیم و ترقی ،ان کی کفالت کے لیے مسلم تنظیموں اور اداروں کے پاس کوئی منصوبہ اور پروگرام نہیں ہے ۔جبکہ خود مسلم پرسنل بورڈ کے وجود میں آنے کا جو پس منظر ہے اس میں مسلم مطلقہ خواتین کا مسئلہ سر فہرست تھا ۔شاہ بانو اگر خود کفیل ہوتی تووہ کورٹ اور سپریم کورٹ کا سہارا نہ لیتی اور خود تین طلاق کی ماری جتنی خواتین ہیں سب کے سامنے کفالت کا مسئلہ ہے ۔تین طلاق کے حامی اور شریعت اسلامی کے دعویدار خواتین کی اشک سوئی اور ان کی معاشرتی مسائل پر توجہ کے بجائے ان کے ساتھ کفر و اسلام کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں ۔اس تناظر میں کورٹ کے وہ تما م فیصلے جو مسلم پرسنل لاءکے خلاف مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے دیے ہیں ان سب میں کورٹ جانے کی بنیادی وجہ ان کی کفالت کا مسئلہ تھا ۔علماءکرام کی معاشرتی اور خواتین کے مسائل سے بے توجہی اور ان سے دوری کے نتیجہ میں آج کچھ مسلم خواتین بغاوت پر آمادہ ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے سدباب کے لیے غیروں کے دروازے پر دستک دینے کو مجبور ہیں ۔ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے کی حوصلہ افزائی کرنا اوراور اس کی شکار مسلم خواتین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیناکیایہ اسلامی شریعت ہے ۔کیا خواتین کو ان کے موروثی جائداد میں حق دینے میں ہم اتنا زور دیتے ہیں ۔ایسے مواقع پر دیکھا جاتا ہے کہ کیا علماء،کیا دانشور ،کیا دیندار اور غیر دیندار سبھی معاشرتی رسوم و روایات پر زیادہ عمل کرتے ہیں۔خواتین کو موروثی جائداد میں حق دینے والے مسلم معاشرہ میں آٹے میں نمک کے برابر لوگ ہیں۔مسلم خواتین کی خود کفالت اور خود اختیاری کا سب سے بڑاذریعہ موروثی جائداد میں ان کا حق ہے ۔لیکن ان سب مسائل پر عمل آور ی کے لیے مسلم تنظیموں اور ادروں کے پاس کوئی لائحہ عمل اور منصوبہ نہیں ہے ۔اس دوران ایک مجلس میں تین طلاق پر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں مسلم علماءنے اسلام اور اسلامی شریعت کی جو شبیہ پیش کی ہے وہ بھی قابل غور ہے ۔جس کے بعد کچھ لوگوں نے مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اس موقف سے اپنے آپ کو الگ کرنا شروع کردیا ہے ،جس کی شروعات شیعہ پرسنل لاءبورڈ نے کردی ہے ،شیعہ پرسنل لاءبورڈ نے مسلم پرسنل بورڈ کے اس موقف سے اپنے آپ کو یہ کہہ کر الگ کرلیا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا اسلام میں حرام ہے ۔(ملت ٹائمز)
9810573718
asiddiqui040@gmail.com