خبر درخبر(511)
شمس تبریزقاسمی
2014 کے عام انتخابات کے بعد ملک کی سیاست ایک نئی راہ پر گامزن ہوتی نظر آرہی ہے ،بی جے پی مسلسل کامیابی کے جھنڈے گاڑرہی ہے ،دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کا وجود خطرے میں پڑتا ہوا دکھ رہاہے ،یکے بعددیگر سیکولر پارٹیوں کی ہونے والی شکست ملک کی نئی تقدیر لکھ رہی ہے ، عام انتخابات میں بی جے پی کی تاریخ ساز جیت کے بعد بہار اور دہلی کے علاوہ تقریبا تمام قابل ذکر صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت ہوئی ہے اور اب دہلی کے ایم سی ڈی انتخابات میں بھی بی جے پی کامیابی سے ہم کنار ہوگئی ہے ۔
میونسپل کارپوریشن دہلی کی کل 272 سیٹیں ہیں،ان سیٹوں پر انتخاب لڑنے کیلئے تقریبا 18پارٹیوں نے حصہ لیاتھا،13 ہزار اامیدوار وں نے قسمت آزمائی کی تھی جس میں سے بی جے پی نے 183سیٹوں پرجیت درج کی ہے ،عام آدمی پارٹی کو 48 سیٹیں ملی ہے اور کانگریس تیسرے نمبر پر29 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، دیگر پارٹیوں سے صرف گیارہ امید وار کامیاب ہوسکے ہیں ۔
الیکشن کے حالات پر تجزیہ کرنے والوں کا مانناہے کہ ایم سی ڈی انتخابات اور اس کے نتائج کا قومی اور صوبائی سیاست سے موازنہ نہیں کیاجاسکتاہے ، نہ ہی یہ کہاجاسکتاہے کہ اس کے نتائج لوک سبھا اور ودھان سبھاانتخابات پر موثر ہوتے ہیں ،چناں چہ دہلی ایم سی ڈی میں گذشتہ دس سالوں سے بی جے پی قابض تھی اس کے باوجود 2008 میں یہاں کانگریس اور 2014-15 میں عام آدمی پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ،اس لئے 2017 کے ایم سی ڈی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو ملنے والی شکست کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیاجاسکتاہے کہ عوام نے اسے مستردکردیاہے اور 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی سرکاربنانے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔
ایم سی ڈی انتخابات میں اب تک کانگریس اور بی جے پی کا غلبہ ہواکرتاتھا ،اسی دو پارٹیوں کے امیدوارسرفہرست رہاکرتے تھے،پہلی مرتبہ عام آدمی پارٹی نے ایک بڑی پارٹی کی حیثیت سے ایم سی ڈی انتخابات میں حصہ لیاہے اور نمبر دو کی پارٹی بن کر ابھری ہے ،اس لئے یہ کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں ہے ،دوسری با ت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں کا ووٹ بینک ایک ہے ،جبکہ بی جے پی کا اپنا مستقل ایک ووٹ بینک ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہاہے ،رپوٹ کے مطابق ایم سی ڈی انتخابات میں بی جے پی کو 38 فیصد ووٹ ملے ہیں،جبکہ عام آدمی پارٹی کو 28 فیصد اور کانگریس کو 21 فیصد ،دیگر پارٹیوں کے کھاتے میں 14 فیصد ووٹ گیاہے ،ووٹ فیصد کی یہ تقسیم بتاتی ہے کہ بی جے پی کی جیت کی اہم وجہ عاپ اور کانگریس کے درمیان ووٹوں کی تقسیم ہے ۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کو 2015 میں تاریخ ساز جیت ملی تھی ،کانگریس کانام ونشان مٹ گیاتھا،بی جے پی تین سیٹوں پر محدود ہوگئی تھی،ایسے میں ایم سی ڈی انتخابات میں یہ توقع تھی کہ پہلے جیسے جلوہ برقرار رہے گا، عوامی فلاح وبہبود کی بنیاد پر ووٹ ملے گا ،پانی بل معاف کرنے ،بجلی بل ہاف کرنے ،ہسپتالوں اور اسکولوں کی حالت سدھارنے ،محلہ کلینک کا سلسلہ شروع کرنے جیسے کئی اہم کاموں کی بنیاد پر عوام ایک مرتبہ پھر دل کھول کر کجریوال کا سپورٹ کرے گی، عام آدمی پارٹی کے سروے میں بھی کچھ ایسا ہی دکھایاگیاتھا،پارٹی نے اپنے پول میں دعوی کیا تھا کہ 218 سیٹیں ملیں گے، کجریوال نے بی جے پی پر دس سالوں میں کچھ نہ کرنے کا الزام بھی لگایا تھا اور کہاتھاکہ عوام اگر ڈینگو ،مچھر اور گندگی سے نجات چاہتی ہے تو وہ اسی طرح عام آدمی پارٹی کوووٹ دے جس طرح دوسال قبل انہوں نے دیا تھالیکن ایسا نہیں ہوسکا،چناں چہ جس پارٹی کو اسمبلی انتخابات میں 54 ووٹ ملے تھی وہ ایم سی ڈی میں 28 پر آگئی ہے ،دوسری جانب بی جے پی کو 2015 کے اسمبلی انتخابات میں صرف 32 فیصد ووٹ ملے تھے اب 6 فیصد کا مزید اضافہ ہوگیاہے ،کانگریس نے ووٹ فیصد کی اعتبار سے زبردست کامیابی حاصل کی ہے ،2015 میں صرف نو فیصد ووٹ ملاتھا لیکن حالیہ انتخابات میں کانگریس بھی 21 فیصد ووٹ لائی ہے ۔
لوک سبھا،ودھان سبھا اور میونسپل انتخابات سبھی میں بی جے پی کا ووٹ فیصد بڑھتا ہوا نظر آرہاہے ،جس پارٹی کو پہلے پانچ سے دس فیصد ووٹ ملاکرتے تھے وہ پارٹی اب چالیس فیصد سے زائد ووٹ لارہی ہے ،دوسری جانب سیکولر ووٹوں کی دعویدار پارٹیوں کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے اور ان کے ووٹ بینک کی تعداد کم ہورہی ہے ،یہ چیزیں ملک کی تمام پارٹیوں کیلئے لمحہ فکریہ اور قابل غور ہے ،کسی بھی جمہوری ملک میں کسی ایک پارٹی کو 40 فیصد ووٹ مل جانا کمزورجمہوریت کی علامت ہے ،بی جے پی کی مسلسل ہونے والی جیت کو محض ای وی ایم لہر قرار دیکر خارج نہیں کیاجاسکتاہے نہ یہ الزام لگایا جاسکتاہے کہ زمینی سطح پر بی جے پی کا ووٹ نہیں ہے ،محض ای وی ایم میں گڑبڑی کی وجہ سے کامیابی مل رہی ہے،سچائی یہ ہے کہ بی جے پی زمینی سطح پر ملک سب سے مضبوط ،منظم اور طاقتور پارٹی ہے ۔
دہلی ایم سی ڈی انتخابات میں دیگر پارٹیوں کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین نے بھی حصہ لیاتھا ،غالبا 7 نمائند وں کو ٹکٹ دیا گیاتھا ،کسی بھی نمائندے کی جیت کی خبر نہیں ہے تاہم ذاکر نگر اور ابوالفضل وارڈ میں مجلس کے نمائندوں نے قابل ذکر ووٹ حاصل کیا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ مجلس کی جانب بھی عوام کا رجحان ہے اور کسی مشہور امیدوار کو میدان میں اتاراجاتاتوشاید کامیابی مل جاتی ،دہلی ایم سی ڈی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ان لوگوں کو خصوصیت کے اس بات پہلو پر غور کرنا چاہیئے جو ہر انتخابات میں بی جے پی کی جیت کیلئے اسدالدین اویسی کو ذمہ دار قراردیتے ہیں اور انہیں بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے ہیں۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)