شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگر ملک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں غور کیا جائے تو اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ان کا تحفظ ہے، تحفظ کی ایک مادی تدبیر ہے، جو ہر انسان انفرادی حیثیت سے اور ہر گروہ اجتماعی طریقہ پر روبہ عمل لاتا ہے اور یقیناً ہمیں اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے، یہ ہمارا شرعی فریضہ اور قانونی حق ہے، لیکن تحفظ کا ایک غیبی نظام بھی ہے، جس کا خود اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین میں ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
’’یا أیہا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک وإن لم تفعل فما بلّغت رسالتہ واللہ یعصِمک من الناس، إن اللہ لا یہدی القوم الکافرین‘‘ (سورہ مائدہ: ۶۷)۔
’’عصمت من الناس ‘‘ سے مراد اعداء اسلام سے حفاظت ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ مکہ میں رسول اللہﷺ کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا تھا اور حضرت ابوطالب روزانہ بنو ہاشم کے کچھ لوگوں کو اس کام پر مامور فرماتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے جنات اور انسان سے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے؛ اس لئے اب کسی پہرہ دار کی ضرورت نہیں ہے (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱؍۲۵۶، حدیث: ۱۱۶۶۳)، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے بھی منقول ہے کہ آپ کی قیام گاہ پر پہرہ دیا جاتا تھا، حضورﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد قبہ سے سرمبارک نکالا اور ارشاد فرمایا: ’’تم لوگ واپس ہوجاؤ، اللہ نے خود میری حفاظت فرمائی ہے ‘‘ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، حدیث: ۳۰۴۶)۔
یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل کئے جانے والے دین کی طرف ہدایت سے محروم لوگوں کو دعوت دینے پر اللہ تعالی کے خصوصی تحفظ کا وعدہ ہے اور اللہ کی حفاظت سے بڑھ کر کس کی حفاظت ہوسکتی ہے؟
جیسا کہ معلوم ہے کہ بعثت کے بعد آپﷺ نے چند سال تک اسلام کی عمومی دعوت نہیں دی، پھر حکم ربانی ہوا:
’’فاصدع بما تؤمر وأعرض عن المشرکین إنا کفیناک المستہزئین‘‘ (حجر: ۹۴۔۹۵)۔
آپ کو جس امر کا حکم دیا گیا ہے، اسے صاف سنا دیجئے اور مشرکین کی پروا نہ کیجئے، ہم آپ کے لئے تمسخرکرنے والوں کے مقابلہ میں کافی ہیں۔
اس میں رسول اللہﷺ سے تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں: ایک: اعلانیہ دعوت دین کی، دوسرے: مشرکین سے اعراض اور الجھاؤ سے بچنے کی، یعنی جن لوگوں میں دعوت حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہو، ان پر مسلسل دعوتی محنت کی جائے اور جو اپنے باطل نقطۂ نظر پر بضد ہوں اور کسی طرح دعوتِ حق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوں تو ان کے ساتھ اعراض اور گریز کا طریقہ اختیار کیا جائے، ان کے ساتھ الجھ کر وقت ضائع نہ کیا جائے، تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اگر دونوں باتوں پر عمل ہو تو جو لوگ دین اور اہل دین کا مذاق اڑاتے ہیں، خواہ یہ مذاق زبان سے ہو یا قلم سے، اور دوبدو ہو یا ذرائع ابلاغ کے ذریعہ، ان کے استہزاء کے مقابلہ میں اللہ تعالی کافی ہیں، اللہ تعالی داعیان حق کی مدد فرمائیں گے اور اہل باطل کی بے جا اور جھوٹ پر مبنی کوششوں کو پاش پاش کردیںگے۔
یہ آیتیں اللہ تعالی کے غیبی نظام کو ظاہر کرتی ہیں کہ جب مسلمان دعوت حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کی خصوصی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے، تحفظ غیبی کی ڈھال انہیں دشمنوں کی تلوار سے بچاتی ہیں اور اہل ایمان کے خلاف کیاجانے والا شور شرابہ بالآخر دم توڑ دیتا ہے، یا تو اعداء اسلام کو ایمان کی توفیق میسر آجاتی ہے اور کعبہ کو بت خانوں سے پاسبان مل جاتے ہیں ،یا پھر قدرت کا دست غضب انہیں دبوچ لیتا ہے۔
اسلام کی کشش اور اس کی قوت تسخیر ایک ایسی حقیقت ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں اپنا جلوہ دکھایا ہے، مسلمانوں نے اگرچہ مصر کو فتح کیا؛ لیکن مصر کے عیسائیوں نے کسی جبر و دباؤ کے بغیر دامن اسلام میں آنا قبول کیا، چنگیز خاں نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے، ان کو پڑھ کر اور سن کر آج بھی آنکھوں کو حق ہے کہ خون کے آنسو روئیں، اور اس کی نسلوں تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ تاتاری سپاہیوں اور کمانڈروں میں مسلمانوں کے سروں کے بلند مینار بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا؛ لیکن آخر تاتاریوں کی مختلف شاخوں نے اسلام قبول کرلیا، ان ہی میں وہ مغل خاندان بھی ہے، جس نے کم و بیش چار سو سال ہندوستان پر پُرشوکت حکومت کی اور اگرچہ دعوت کا زیادہ کام صوفیہ کے ذریعہ ہوا، لیکن انہیں ان حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی رہی، دوسو سال تک سلجوقی ترکوں کی حکومت رہی اور پانچ سو سال سے زیادہ دنیا کے نقشہ پر عثمانی خلافت سپر پاور کی حیثیت سے باقی رہی، جس کے نام سے مغرب کے ایوان ہائے اقتدار میں لرزہ طاری ہوجاتا تھا، یہ سب تاتاریوں ہی کی مختلف شاخیں تھیں، سقوط اندلس کے بعد الجزائر میں وحشی بربری قبائل دامن ایمان میں آئے، یہ سب دعوتی کوششوں کا ثمرہ تھا، دعوتی جدوجہد ہی کے ذریعہ انڈونیشیا میں اسلام پھیلا، راجپوتوں کی سنگلاخ زمین میں خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے ایمان کا پودا لگایا، شیخ فرید الدین شکر گنج ؒکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سولہ برادریوں نے مکمل طور پر ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا، شیخ جلال الدینؒ نے بنگال میں ایمان کا چراغ جلایا اور انیسویں صدی میں مولانا کرامت علی جونپوریؒ نے موجودہ بنگلہ دیش میں تبلیغ اسلام کی خدمت انجام دی، کہا جاتا ہے کہ ان کی کوششوں سے ایک تا دو کروڑ لوگ مسلمان ہوئے، پورا کشمیر سید علی ہمدانیؒ کے دست فیض پر مشرف بہ اسلام ہوا اور مغربی ہندوستان کے بڑے علاقہ میں شیخ بہاء الدین زکریاؒ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوئی۔
غرض کہ اسلام اللہ تعالی کا بھیجا ہوا دین فطرت ہے؛ اس لئے اس میں ایسی کشش ہے کہ وہ سخت سے سخت دشمن کو بھی اپنا اسیر محبت بنا لیتا ہے، اسلام کی اشاعت فاتحین کے ذریعہ نہیں ہوئی؛ بلکہ مبلغین کے ذریعہ ہوئی ہے، تاریخ ادبیات عرب کے مصنف پروفیسر ہٹی لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے ‘‘۔
نیز دعوت اسلام کے مشہور مورخ ٹی ڈبلیو آرنلڈ کا بیان ہے:
’’اپنے سیاسی زوال کے زمانہ میں اسلام نے بعض انتہائی شاندار اور روحانی فتوحات حاصل کی ہیں، دو بڑے تاریخی مواقع پر وحشی کافروں نے اپنے پاؤں محمدﷺ کے پیروؤں کی گردن پر رکھ دیئے تھے، گیارہویں صدی عیسوی میں سلجوقی ترکوں نے اور تیرہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے، مگر ہر بار فاتح نے اپنے مفتوح کے مذہب کو قبول کرلیا ‘‘۔
اس طویل سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں سے وطن عزیز میں ہم لوگوں نے دعوت دین کی کوئی منظم اور مربوط کوشش نہیں کی ہے، ورنہ اس ملک کا جغرافیہ بالکل مختلف ہوتا؛ لیکن اب بھی وقت نہیں گیا ہے، اسلام کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اگر مسلمان اس کام کو لے کر اٹھیں تو کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور اس طرح اللہ تعالی کے غیبی نظام کے مطابق اس امت کے تحفظ کا سروسامان ہوسکتا ہے۔