ہندستانی عدالتی نظام کے پانچ بڑے مسائل

ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان
ملت ٹائمز
ہندستان کاعدالتی نظام دنیا کے پرانے عدالتی نظام میں سے ایک ہے اور آج بھی اس میں ہندستان میں صدیوں تک رہے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے دوران کے برطانوی عدالتی نظام کے کچھ عناصر ہیں۔ ملک کا سپریم قانون یعنی ہندستان کاآئین آج کے دور کے قانونی اور عدالتی نظام کاخدوخال طے کرتاہے۔ ہندستان کاعدالتی نظام عام قانون کے نظام کے ساتھ ریگولیٹری قانون اور آئینی قانون پر عمل کرتا ہے۔ ہمارے نظام انصاف کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ معاندانہ نظام پر مبنی ہے، یعنی اس میں کہانی کے دو پہلوو ں کو ایک غیر جانبدار جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو منطق اور کیس کے ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ سناتا ہے۔
تاہم ہمارے عدالتی نظام میں کچھ موروثی مسائل ہیں جو اس نظام کے نقائص اور کمزوریوں کامنظرنامہ پیش کرتے ہیں اور انہیں فوری طور پر اصلاحات اور احتساب کی ضرورت ہے۔
ہندستان کے عدالتی نظام کو درپیش چیلنجز:
عدلیہ میں کرپشن:
حکومت کے کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح ہندستان کاعدالتی نظام بھی یکساں طور پر بدعنوان ہے۔ حال ہی میں ہوئے مختلف گھوٹالوں جیسے سی ڈبلو جی گھوٹالہ، 2 جی گھوٹالہ، آدرش سوسائٹی گھوٹالہ اور عصمت دری سمیت معاشرے میں ہو رہے دیگر مظالم نے جہاں سیاسی لیڈروں اور اور عوام سب کے طرز عمل پر زور ڈالا ہے وہیں ملک کے کی عدلیہ کے کام کے طریقوں میں بھی موجود خامیاں اجاگر کی ہیں۔ یہاں احتساب کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ میڈیا بھی توہین کے خوف سے واضح تصویر پیش نہیں کرتا ہے۔ رشوت لینے والے کسی جج کے خلاف بغیر چیف جسٹس کی اجازت کے ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
زیر التوا مقدمات کابیک لاگ :
ہندستان کی عدالتوں میں دنیا میں سب سے زیادہ زیر التواء مقدمات کابیک لاگ ہے جن کی تعداد تقریباً 30 ملین ہے ۔ان میں سے 4 ملین ہائی کورٹ میں، 65000 سپریم کورٹ میں ہیں۔ یہ اعداد و شمار مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور اسی سے قانون کے نظام کی نااہلی کا پتہ چلتا ہے۔ ججوں کی تعداد بڑھانے، اور زیادہ کورٹ بنانے کی بات ہمیشہ کی جاتی ہے مگر اس پرعمل کرنے میں ہمیشہ دیر یا کمی ہوتی ہے۔ اس سے متاثر صرف غریب اور عام لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ امیر لوگ مہنگے وکیل کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں اور قانون اپنے حق میں کر سکتے ہیں اس سے بین الاقوامی اور بڑے سرمایہ کار ہندستان میں کاروبار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس بیک لاگ کی وجہ سے ہی ہندستان کے جیلوں میں بند قیدی بھی پیشی کے انتظار میں رہ جاتے ہیں۔ہندوستان کااقتصادی مرکز کہے جانے والے ممبئی میں عدالتیں برسوں پرانے زمینی معاملات کے بوجھ تلے دبی ہیں جس سے شہر کی صنعتی ترقی میں بھی بڑی رکاوٹ آتی ہے۔
شفافیت کی کمی:
ہندستان کے عدالتی نظام کا ایک اور مسئلہ اس میں شفافیت کی کمی کا ہوناہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ حق اطلاعات کو مکمل طور پر قانون کے نظام سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس لئے عدلیہ کے کام کاج میں اہم مسائل، جیسے انصاف اور معیار کو مناسب طریقے سے نہیں معلوم کیاجاسکتا ہے ۔
زیرسماعت قیدیوں کی مشکلیں:
ہندستان کے جیلوں میں بند قیدیوں میں سے زیادہ ترکے معاملات زیرسماعت ہیں جو کہ ان کے معاملات کا فیصلہ آنے تک جیل میں ہی بند رہتے ہیں۔ بعض صورتوں میں تو یہ قیدی اپنے اوپر دائر مقدمات کی سزا سے زیادہ کا وقت صرف سماعت کے انتظار میں ہی جیل میں گزاردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت میں خود کی دفاع کا خرچ اور جوکھم حقیقی سزا سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہیں دوسری طرف دولت مند طبقہ یا افراد پولیس کو اپنی طرف کر لیتے ہیں جس سے پولیس عدالت میں زیر التوا کیس کے دوران غریب شخص کو پریشان یا خاموش کر سکتی ہے۔
معاشرہ سے باہمی مذاکرات کا نہ ہونا:
یہ بہت ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کی عدلیہ معاشرے کا لازمی حصہ ہو اور اس کا معاشرے سے باقاعدہ اور متعلقہ باہمی بات چیت ہوتی رہے۔ کچھ ممالک میں عدالتی فیصلوں میں عام شہریوں کا بھی کردار ہوتا ہے۔ تاہم ہندستان میں عدالتی نظام کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ اسے برطانوی عدالتی سیٹ اپ سے وراثت میں ملا ہے۔ لیکن 69 برسوں میں کچھ باتیں بدلی جانی چا ہئیں مگر آج بھی قانون کے افسران عام لوگوں سے ملنے کیلئے قریب نہیں آتے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات اور مواصلات میں اتنی تیزی آئی ہے لوگوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ہے، لیکن اس کے بعد بھی ہندستان کاقانون نظام اب بھی برطانوی اثر لئے ہوئے ہے اور عوام کی رسائی سے کافی دور ہے ۔
(مضمون نگار کولکاتا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکیل ہیں )

SHARE