غلام مصطفی رضوی
عالمِ صہیونیت اِس وقت شاداں ہے، مسرتوں سے سرشار ہے، اِس لیے کہ اُن کی فتوحات کا ایک باب تکمیل کو ہے۔ مسجد اقصیٰ قبلہ¿ اول ان کی دسترس میں مدتوں پہلے آگیا۔ آج مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کا ایسا انخلا ہوا کہ انھیں نماز تک کی اجازت نہیں۔ فلسطینی مسلمان شہید کیے جا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کی خاموش حمایت نے عرب کی سرزمین پر اسرائیل کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرا کہ اہلِ فلسطین نہتے اور تنہا کر دیے گئے۔ وہ اپنے دفاع کی لڑائی خود لڑ رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل ان پر مسلط ہے۔ اسرائیل کے آگے دبے لچے اور اُس کی حمایت سے عیش و طرب میں مگن کسی مسلم ملک میں فلسطین کی تائید کی جرا¿ت وہمت نہیں۔ یہ المیہ آج مزید ابھر کرسامنے آیا۔ جب لہولہان بیت المقدس پوری دنیا میں انسانیت وامن کے نام نہاد علم برداروں کی اسرائیل نوازی کا شکوہ کر رہا ہے۔
اسلامی تاریخ کا نقشِ تاباں:
بیت المقدس اسلامی تاریخ کا عظیم باب ہے۔ اسے حضرت داو¿د علیہ السلام نے فتح کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ پھر اہلِ بابل قابض ہوئے۔ یہودیوں اور بعد کو یونانیوں نے قبضہ جمایا۔ رومی بھی قابض رہے اور ۳۲۱ قبل مسیح یہودیوں کا داخلہ ممنوع قراردیا۔عیسائی فرماں روا قسطنطین نے یہاں گرجا تعمیر کیا۔ ۷۳۶ءمیں مسلمانوں نے رومیوں کو شکست دی۔ ۰۵۴سالوں تک یہ گہوارہ¿ امن بنا رہا۔ صلیبی جنگوں کے نتیجے میں رومن قیادت و عیسائی دنیا نے یلغار کر کے عربوں کو نکال دیا۔ پھر عثمانی ترکوں نے اسے واپس مملکتِ اسلامیہ میں شامل کیا۔
بیت المقدس پہاڑی علاقوں میں آباد ہے۔ بحیرہ¿ روم کی سطح سے ۰۰۶۲ فٹ اور بحیرہ¿ مردار سے ۰۰۵۳ فٹ بلند ہے۔ بحیرہ¿ روم ۳۳ میل اور بحیرہ¿ مردار ۰۱ میل پر واقع ہے۔ جزیرہ نما علاقہ ہے۔ یہاں کثیر زیارتیں ہیں۔ یہ شہر بار بار اُجڑا ہے پھر آباد ہوا ہے۔ اس کے باسی کبھی اُجاڑے گئے کبھی جِلا وطن کیے گئے۔ یہاں تاریخ کے کئی ادوار گزرے۔ اللہ نے بہاریں عطا کیں۔ مقدس انبیا کے ذریعے اسے زینت بخشی۔حضرت داو¿د علیہ السلام کے عہد مبارک میں یہ فتح ہو کر بنی اسرائیل کا مسکن بنا؛ حضرت داو¿د علیہ السلام نے اسے فصیل بند کیا اور جبلِ زیتون پر محل تعمیر فرمایا۔ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہد بادشاہت میں بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیر کی اور اس میں تابوتِ سکینہ رکھا، جس میں تبرکات ومنسوباتِ انبیا ئے کرام تھے۔اللہ نے بنی اسرائیل کو شوکت دی۔ بعد کو خدا کی نافرمانی کے سبب ذلت طاری ہوئی اور یہودیوں کا دور جاتا رہا۔بخت نصر شاہِ بابل (عراق) نے یہودیوں کی عہد شکنی و غدر سے تنگ آکر بیت المقدس پر حملہ کیا۔ ہیکل کو تباہ کیا؛ یہودیوں کا قتل عام کیا،قبضہ جمانے بعد باقی ماندہ یہودیوں کو اسیر بنایا۔ انھیں بعد کو جِلا وطن کر دیا، پھروہ دریائے فرات کے کنارے بابل میں آباد کیے گئے اور اس بستی کا نام تل ابیب رکھا گیا۔ اسرائیل کا موجودہ دارالحکومت تل ابیب اسی کی یاد میں ہے۔اللہ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ ناز سے اسے برکت دی۔ شبِ معراج محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس آمد ہوئی۔ انبیا کی امامت امام الانبیاءنے کی۔ سبحان اللہ! اس طرح مسلمانوں کی جبینِ عقیدت سوئے اقصیٰ جھکتی ہے۔ محبتوں کا قبلہ ہے یہ ارضِ اقدس۔ ۷۳۶ءمیں ایک مدت تک محاصرے کے بعد یہ شہرِ مقدس مسلمانوں کے حوالے ہوا۔
تقدس مآب مقام:
بیت المقدس کئی ناموں سے یاد کیا گیا۔ یہودی و عیسائی اسے یروشلم کہتے ہیں۔ جس کے معنی ورثہ¿ امن بیان کیے جاتے ہیں۔ اسے Golden Cityبھی کہا جاتا ہے۔ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے اور مدھم روشنی یہاں کے سنہرے پتھروں کے مکانات سے مرتعش ہوتی ہے تو کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہاں امن کم ہی رہا۔ اسے مسلمان بھی مقدس مانتے ہیں اور یہود و نصاریٰ بھی۔ یہاں کثیر انبیا کی آمد ہوئی۔ جن کے قدموں کی برکت سے یہ پاک زمیں باغ و بہار ہے۔لیکن یہود و نصاریٰ کی یہ کوشش ہمیشہ رہی کہ یہاں صرف انھیں کا قبضہ ہو۔ مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک صدی سے زیادہ مدت سے منصوبہ بند طریقے سے مسلم بستیاں اُجاڑی جا رہی ہیں۔ یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف سے مسلمانوں کو خانماں برباد کیا جا رہا ہے۔ ہراساں کر کے بھگانے کی مہم جاری ہے۔ نسلوں کو تباہ اور لہو کو ارزاں کر دیا گیا ہے۔ ہر روز تباہی ہے، ہر روز طوفاں ہے۔ مسلمانوں کا خون پانی سے سستا ہو گیا ہے۔ آہ و سسکیاں اور نالے بلند ہو رہے ہیں۔ لیکن ظالم بجائے باز آنے کے ظلم میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ان کے بازو مسلم ممالک کی غفلت سے طاقت ور بنتے جا رہے ہیں۔
سازشی عزم کی تکمیل:
ماضی میں عرب میں جو کچھ حالات گزرے ان میں اکثر احوال یہودی فکر و مفاد کے مطابق تھے۔ لیبیا، عراق، شام، یمن، مصر کی تباہی، پے درپے مسلم ملکوں میں بدامنی مشن کو تقویت، داعش و القاعدہ کا وجود، سالِ گزشتہ مسجد نبوی شریف سے قریب دھماکہ اور اِس رمضان کے اختتام پر حدود حرم میں دھماکہ ان سب کے پسِ پردہ بالراست یا براہِ راست اسرائیل کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے۔یوں ہی پاک و افغان کی بربادی بھی اسی ذہنی بانجھ پن کا نتیجہ ہے۔ حتیٰ کہ مسلم ممالک کے نمائندہ اجلاس میں حرمین کے حکمرانوں کے ذریعہ امریکی حکمراں کی آمد و شرکت بھی یہودی کاز کا اہم حصہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ موجودہ تباہی میں کوئی بھی مسلم ملک اسرائیل کے خلاف میدان میں نہیں؛ سوائے ترکی کے۔ مسلم ممالک اپنے اقتدار کا عرصہ طویل کرنے کے لیے شعوری و لاشعوری طور پر یہودی ریاست کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں یو این او، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کرنے والے ادارے بھی جنبشِ لب کشائی نہیں کر رہے۔ انھیں مسلمان کا وجود کھٹکتاہے۔ انھیں مسرت ہو رہی ہو گی کہ اسرائیل نے والیانِ اقصیٰ پر اقصیٰ میں داخلہ بند کر رکھا ہے۔ اسرائیل کو خوب پتہ ہے کہ عربوں کی غیرت مر چکی ہے۔ وہ بیت المقدس کے تحفظ کو نہیں آئیں گے۔ اسی لیے وہ پورے خطے میں دھشت گردانہ ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہے۔ اگر مسلم ملکوں کو کچھ احساس بھی ہوتا ہے تو وہ زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے….اب مسلم مالک کی متحدہ قوت کے ذریعے دہشت گردوں کے خاتمہ تک عملی جدوجہد کا وقت ہے۔ اگر تمام مسلم ممالک حرمین کے شاہانِ وقت کی سربراہی میں اسرائیل کو یہ دھمکی دیں کہ ہم اپنی سپاہ کے ذریعے تشدد کا فوری جواب دیں گے تو صرف اس قدر پیش رفت سے ہی اسرائیل کے بازو ٹوٹتے محسوس ہوں گے۔ لیکن عربوں کی غیرت مردہ ہو چکی ہے حالاں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مردِ جری کی مثالی زندگی سامنے ہے۔ ابھی مزید قربانیوں کے بعد ان کی آنکھیں کھلیں گی۔ شاید جب تک طوفان ان کے اقتدار کی بنیاد ہِلا چکا ہوگا۔
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین مسجد اقصیٰ میں صہیونی جارحیت: مسلم ممالک کی مجرمانہ خموشی سے اسرائیل...