’’دستور بچاؤ دیش بناؤ ‘‘بروقت اور اہم تحریک 

شمس تبریز قاسمی
ہندوستان شروع سے کثیر المذاہب ملک رہاہے ،ہر دور میں یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہے ہیں،دنیا بھر میں ہندوستان کی یہی سب سے نمایاں خصوصیت اور منفرد شناخت ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار اور ہزاروں ذاتوں میں تقسیم لوگ عرصہ دارزسے باہم شیرو شکر ہوکر آباد ہیں،کبھی بھی کسی بھی حکمراں نے ہندوستان کی اس خصوصیت سے چھیڑ چھا ڑ نہیں کی نہ ہی انہوں نے اسے نقصان پہونچانے کی کوشش کی
،ارباب اقتدار اور وقت کے حکمرانوں نے مذہبی آزادی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ،کسی بھی قوم اور ذات کے ذاتی معاملات ،رسم ورواج اور طریقہ عبادات میں مداخلت نہیں کی ،نہ ہی انہوں نے اقتدار اور طاقت کا استعمال کرکے مذہبی آزادی چھیننے کی کوشش کی ،نہ کسی خاص مذہب کو قبول کرنے ،اس کے کلچرکو اپنانے پرزوردیا ،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب مختلف تہذیب وثقافت کا مجموعہ ہے ،مختلف مذاہب کے عکس اس میں پائے جاتے ہیں،تنہا کوئی بھی ایک مذہب وہاں نظر نہیں آتاہے ،لیکن ہندوستان کی آزادی کے بعد یہاں کی مذہبی آزادی، قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کو سب سے بڑا خطرہ در پیش ہوگیا ،مذہب کے نام پر امتیاز اور نفرت برتا جانے لگا ،سرکاری محکموں سے لیکر عام زندگی میں انسانیت اور ہندوستانیت کے بجائے مذہب اور ذات کی عینک لگاکر کام کاج ہونے لگا ،ہندومسلم کے نام پر ہندوستان میں ایک لکیر کھینج دی گئی ، بڑھتی ہوئی منافرت اور عصبیت سے ارباب اقتدار بھی شدید پریشان ہوگئے ،سیکولزم کو خطرہ لاحق ہونے لگا ، بسیار تحقیق کے بعد پتہ چلاکہ فرقہ پرستی اور ہندومسلم کے درمیان نفرت کی زہر آر ایس ایس کی نام تنظیم پھیلارہی ہے ،چناں چہ سردار پٹیل نے مجبور ہوکر آر ایس ایس پر 1949 میں پابندی لگادی، بعدمیں اس وعدہ کے ساتھ پابندی ہٹادی گئی کہ آر ایس ایس سیاسی معاملات میں کوئی دخل نہیں دے گی ،مذہبی بنیادو سے اوپر اٹھ کر کوئی کام نہیں کرے گی لیکن پابندی ختم ہوتے ہی آر ایس ایس نے اپنے مشن پر عمل کرنا شروع کردیا ،نفرت اور عصبیت کی لکیر یں پہلے سے زیادہ کھینچ دی ،ہندوؤوں کی ایک بڑی تعداد اس سے وابستہ ہوگئی ،یہ لکیر ملک کی ترقی میں بھی رکاوٹ کا سبب بننے لگی، محبت کی جگہ نفرت پھیلنے سے دنیا بھر میں ہندوستان کی شبیہ بہت زیادہ خراب ہوگئی ،لیکن آر ایس ایس نے اس کی کوئی فکر نہیں کی ، اپنے مشن اور ایجنڈا پر گامزن رہی،جدوجہد جاری رہی بالآخر 2014 میں طویل مدت کے بعدتاریخ ساز کامیابی ملی ،جس پر پابندی سیاست میں نہ آنے کے وعدہ کے ساتھ ہٹائی گئی تھی اس کی پورے ہندوستان میں سرکاری بن گئی ،ریاستی انتخابات میں بھی فتح کے دروازے کھل گئے ،آج 68 فیصد آبادی پر اسی آر ایس ایس کی حکوت ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نفرت وتعصب اب کلچر وثقافت کا حصہ بن گیا ہے ،مذہبی بنیاد پر نفرت اپنے شباپ پر پہونچ گئی ہے،اقتدار میں شامل لوگ، انتظامیہ کے افراد اور عوام کی ایک بڑی تعداد مذہبی عصبیت کی شکار ہے ،2014 کے بعد ہندوستان کی تصویر بالکل بدل گئی ہے ،سیکولرزم ختم ہونے کے دہانے پر ہے ،انسانیت اور ہندوستانیت کا تصور بالکل ناپید ہوچکاہے،مجرم کی سزا مذہب کی بنیاد پر طے کی جانے لگی ہے،جانورں کی اہمیت انسانوں سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے ،گائے کے قاتلوں کیلئے عمر قیداکی سزا کا قانون بن گیا ہے لیکن انسانوں کے قاتل کی ایک ماہ میں رہائی ہونے لگی ہے ،2014 میں مودی سرکا رآنے کے بعد تشد د ،قتل وغارت گری،عصبیت ،مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف حملہ کے واقعات میں ریکاڈ ٹوڑ اضافہ ہواہے ،اسنیپ انڈیا کی رپوٹ کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ہجومی تشدد کے ذریعہ قتل کے واقعات یوپی اے سرکار کے دس سالوں کے مقابلے میں 84 فیصد زائد ہیں،صرف تین سالوں میں قتل کے جوواقعات پیش آئے ہیں اس میں 97فیصد مسلمان ہیں جنہیں مارا گیا ہے ، لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ قتل کے ان مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے ،پولس تھانوں میں جلدایف آئی ردج نہیں ہوتی ہے ،بہت ہنگامہ کے بعد جب یہ پہلا قدم اٹھالیا جاتاہے تو آگے وہ کیس پینڈنگ میں ڈال دیا جاتاہے ،اگر کبھی بہت ہنگامہ اور شدید دباؤ کے بعد ایسے سنگین جرائم کے مرتکبین کی گرفتاری بھی ہوتی ہے تو کچھ لوگ اسے مذہبی تعصب کا عنوان دے دیتے ہیں،ایسے واقعات میں رولنگ پارٹی اور بر سر اقتدارجماعت سے وابستہ افرد بھی برابر کے شریک ہیں جو مذہبی رشتہ نکل جانے کی بنیاد پر مجرموں کی بھی حمایت کرتے ہیں،محمد اخلاق ،پہلو خان ،حافظ جنید اور علیم الدین اصغر سمیت اب تک گائے کے نام پر 62 افراد کا قتل کیا گیا ہے جس میں نوے فیصد مسلمان ہیں ،ان سب کے قاتلوں کو کوئی خاص سزا نہین دی گئی ،کچھ قاتلوں اور مجرموں سے حکومت کے ذمہ داروں نے ملاقات کی ،ایک قاتل کو ترنگامیں دفنا یا گیا ،ابھی حال ہی میں’’ میر ر ناؤ‘‘ چینل کے اسٹنگ آپریشن میں یہ سامنے آیاکہ سرکاری افسران مسلمانوں کی موت کو کوئی سنگین معاملہ نہیں سمجھتے ہیں چینل کے مطابق ایک افسر نے کہاکہ مسلمانوں کا مرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ تو ہوتارہتاہے ۔
یہ تصویر آج کے ہندوستان کی ہے جہاں یہ صاف نظر آرہاہے کہ قانو ن اور آئین کے محافظین ہی آئین کی دھجیاں اڑارہے ہیں ،ملک کے آئین پر ان کا عمل نہیں ہے ،آزادی کے بعد بنائے گئے دستور سے انہیں اتفاق نہیں ہے ، جس میں تمام ہندوستانیوں کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں،جس دستور میں مساوات ،تنوع اور مذہبی آزادی کی باتیں کی گئی ہیں ۔وہ ایک نیا دستور چاہتے ہیں ،وہ ایک ایسے آئین کی تشکیل چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کے مجرموں اور قاتلوں کیلئے کوئی سزا نہ ہوں ،جس میں اقلیتوں کو بنیاد ی حق حاصل نہ ہوں، اس دستور میں ہندو مذہب کے تمام حقوق حاصل ہوں اور دوسروں کو حق شہریت سے محروم رکھاجائے، تمام ہندوستانی ہندو مذہب پر عمل پیرا ہوں ۔
یہ خیالی اور فرضی خاکہ نہیں کہ بلکہ پورے ملک کی یہ فضاء بن گئی ہے ،یہ احساس ایک عام آدمی سے لیکر ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی ہوچکا ہے کہ ملک میں دستور بدلنے کی سازشیں اور منصوبہ بند ی ہورہی ہیں ،ایک نیا آئین لانے کی تیاری ہورہی ہے لیکن وہ نیاآئین ملک کی تخریب کا سبب بنے گا ،ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا ،مسلمانوں کی بات بعد میں آئے گی پہلے خود اسی کڑور ہندؤوں کی تباہی ہوگی ،وہ خود آپس میں دست وگریباں ہوجائیں گے۔

آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم کنونشن سےخطاب کرتے ہوئے

چناں چہ اسی خطرے کا احساس کرتے ہوئے ملک کی معروف تنظیم آل انڈیا ملی کونسل نے ایک نعرہ دیا ہے ’’دستور بچاؤ دیش بناؤ ‘‘آل انڈیا ملی کونسل نے گذشتہ 30 جولائی کو دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ایک قومی کنونشن کا انعقا د کیا ،اس کنونشن مین پورے ہندوستان سے ہندو ،سکھ ،دلت عیسائی اور مسلمان سمیت سبھی مذاہب کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی ،ملک کی موجودہ تصویر دیکھنے کے بعد ان لوگوں نے اتفاق کیا کہ واقعی ملک کے دستور کو بدلنے اور آئین تبدیل کرنے کی اندرون خانہ سازشیں چل رہی ہیں،سرکاری افسران ،ارباب اقتدارکا انداز بتارہاہے کہ اس ملک کو وہ نئی مصیبت میں لیجانا چاہتے ہیں، وہ گاندھی کے افکار ونظریات کو آگے بڑھانے کے بجائے گوالکر کے نظریہ کو فروغ دینے کی باتیں کررہے ہیں، عام عوام کے ساتھ مختلف مذاہب کے اسکالرس،سیاسی رہنماء،سماجی کارکنان اور دانشواران بھی ملی کونسل کی اس قومی کنونشن میں شرکت کرکے ملی کونسل کی آواز میں آواز ملائی ،اس نعرہ سے اتفاق کیا اور متحدہ ہوکر یہ تحریک چلانے کا عزم کیا ۔
معروف دانشور جسٹس راجندر سچر ،جسٹس ای احمدی ،مشہور سماجی کارکن تیستا ستیلواڈ،اگنی ویش سوامی ،شرد یادو،سینئر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر ،سریش خیر نار ،رام پنیالی ،ڈاکٹر ہر ش مندر ،مولانا محمود مدنی ،پروفیسر فیضان مصطفے ،ظفر یاب جیلانی معروف صحافی اور چوتھی دنیا کے چیف ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ سمیت بڑی تعداد میں ملک کے دانشور ،سیاسی رہنماء ،سماجی کارکنان اور تعلیمی میدان کے ماہرین نے شرکت کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ واقعی ملک کے آئین کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ،دستور سے چھیڑ چھاڑکرنے کی سازشیں ہورہی ہیں جس سے ملک کا مستقبل تباہ برباد ہوجائے گا ،آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا اندازہ ان لوگوں بھی ہے جو سرکار ی افسران ہیں ،جس میں کا ایک نام پریتا ہرت کابھی لیا جاسکتاہے، پریتا انکم ٹیکس محکمہ میں کمشنر ہیں اور آنے والے خطرے کا انہیں بخوبی احساس ہورہاہے ،اس لئے انہوں نے بھی اجلاس میں شرکت کرکے اس نظریہ سے اتفاق کیا کہ دستور بدلنے کیلئے یہ تمہید ہیں ،دلت مسلم ،سکھ ،عیسائی اور تمام لوگوں کو مل کر اس کے خلاف آواز اٹھانا ضرور ی ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل نے اس قومی کنونشن میں اتفاق رائے سے گیارہ نکات پر مشتمل ایک قرارداد پاس کرکے حکومت سے اس پر عمل کر نے مطالبہ کیاہے ،آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ہم عوام کو بیدار کیا ہے ،حکومت کو بھی آگاہ کردیاہے اگر حالات نہیں سدھرتے ہیں،ہجومی تشدد ،مذہبی نفرت اور دیگر مسائل پر حکومت توجہ نہیں دیتی ہے تو پھرہم سڑکوں پر اتریں گے ۔قرارد اد کی نکات میں جن مسائل کو اٹھائے گئے ہیں انتہائی سنگین اور تشویشناک ہیں ،وہ ایشوز بتارہے ہیں کہ حکومت کی نیت واقعی ٹھیک نہیں ہے ،آئین کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے ،آئیے ذیل کی سطروں میں ہم یہاں ان قراداد کا اختصار کا ساتھ جائزہ لے لیتے ہیں۔
ملی کونسل نے اپنی قرارد میں پہلے نمبر پر نفرت او ر اشتعال انگیز تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے اور اس طرح کے مقررین پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیاہے ،تمام نکات میں یہ سب سے اہم اور قابل توجہ ہے ،ملک میں جاری بدامنی اور نفرت کا ماحول قائم کرنے میں اسی نفرت آمیز اور اشتعال انگیزتقریر نے نمایاں کردار اداکیا ہے ،پروین توگڑیا،شاکسی مہاراج اور گری راج سمیت متعدد ایسے نام ہیں جن کی ہر بات زہر اگلتی ہے، سماج میں نفرت کی بنیاد ڈالتی ہے ،ایسی تقریر ملک کی سلامتی اور ترقی کیلئے خطرہ کا سبب ہے اور اس پر پابندی ضروری ہے ،یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی اسی صف میں شامل ہیں۔
ملی کونسل کی قرارد اد میں نمبر دو پر ملک کے بدلتے سیاسی وسماجی ماحول کا تذکرہ کیا گیاہے اور اس پر گہر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ،یہ باتیں ہندوستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکی ہے کہ ہندوستان کا سیاسی وسماجی منظرنامہ بالکل بدل گیا ہے،جہاں انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،جانوروں کو انسانوں پر ترجیحات حاصل ہے، بیف اور جانور کے نام پرکسی کا بھی قتل کیا جاتاہے، کبھی دس روپے کی خاطر کسی کو موت کی نیند سلادیا جاتاہے ،یہ صورت حال انتہائی خطرنا ک ،مضر اور افسوسنا ک ہے ،ایسے ماحول پر قابوپانا اور سماج کو مثبت بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔
قراردادکی تیسری شق میں ملی کونسل نے مذہب ومسلک کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو دستور بچاؤ دیش بناؤ تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ،یہ تحریک وقت کی اہم ضرورت ہے ،گذشتہ سطور سے بخوبی یہ اندازہ لگایابھی جاسکتاہے کہ ملک کے آئین کے کو خطرات لاحق ہیں ،حکومت دستور بدلنے کے فراق میں ہے ، ملک کے سیکولزم کے ختم کرکے خاص مذہب کا ٹیگ لگانے کی کوشش ہورہی ہے ،ایسے میں ہر شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سڑکوں پر اترے ،اپنی بساط کے مطابق اس تحریک کا حصہ بنے اور ہندوستان کے آئین کو بچانے کی ذمہ داری نبھائے ۔
قرارد اد میں چوتھے نمبر پر جس بات کا تذکرہ کیا گیاہے وہ ملک کے مستقبل کیلئے سب زیادہ تباہ کن اور افسوسناک ہے ،ہندوستان ٹائمز کی رپوٹ کے حوالے سے یہ لکھاگیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں اور لوک سبھا میں پچاس ایسے افراد نمائندگی کررہے ہیں جن پر فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور مذہبی منافرت کو ہوادینے کے شدید الزامات ہیں، فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والوں کا ایوان تک پہونچنا یہ بتاتاہے کہ عوام اور رائے دہندگان بھی فرقہ پرستی کی سوچ پر عمل پیرا ہیں اور وہ ایسے ہی شبیہ رکھنے والے کو ووٹ دیکر نمائندگی کا حق دے رہے ہیں ،یہ سوچ ،رجحان اور نظریہ سب سے زیادہ خطرناک ہیں ،کیوں کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں جب اس ذہنیت کے لوگ رہیں گے تو ملک کے آئین کو سب سے زیادہ خطر ہ لاحق ہوگا کیوں کہ آئین بنانے کا اختیار ان ہی لوگوں کے پاس ہوتاہے اس لئے ایسی ذہنیت کور وکنا سب سے زیادہ ضرروی ہے اور یہ حکومت کے ساتھ عوام کی بھی ذمہ داری ہے ،جہاں سیاسی پارٹیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایسے داغدار امیدواروں کو ٹکٹ نہ دیں وہیں عوام کا بھی فرض ہے کہ ایسی فرقہ پرست لیڈورں کو مستردکرے صاف ستھری شبیہ رکھنے والوں کو ووٹ دیکر ایوان تک پہونچائیں۔
کونسل نے اپنی پانچویں قرارداد میں ہجومی تشدد اور گؤ تحفظ کے نام پر قتل اور غنڈہ گردی جیسے جرائم کا تذکرہ کرتے ہوئے ان واقعات کے انسداد کیلئے ایک قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے ،ملک میں بھیڑ کے ذریعہ قتل اور گؤ تحفظ کے نام پر تقریبا 62 لوگوں کی جانیں گئی ہیں ،سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں ،وزیر اعظم اور اہم رہنماؤں کی اپیل گؤ رکشوں کے حق میں بے اثر ثابت ہوئی ہیں، اس لئے واحد حل یہی ہے کہ ان واقعات کے سدباب کیلئے ایک قانون لایاجائے اور ایسے مجرموں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں ۔
ملی کونسل نے اپنی چھٹی شق میں دہشت گردی کے نام پر گرفتار بے گناہوں کے مسئلے کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے ایسے ملزمین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ،ساتھ میں عدالتی کمیشن کے قیام ،بے گناہ ملزمین کومعاوضہ اور خاطی افسران کو سزادینے کی بھی بات کی ہے ۔ ہندوستان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں مجرم کے بجائے بے گناہوں کو کرفتار کرکے کسی کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ،نائن الیون کے بعد ہندوستان میں بھی دہشت گردی کے نام پر بڑی تعداد میں مسلمانوں کی گرفتاری کی گئی ،تاہم عدالت میں اکثر بے گناہ ثابت ہوئے اور عدلیہ کے فیصلے نے یہ بتایاکہ محض مذہب کی نام پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ،انہیں سماجی ،اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کی سازش تھی ۔
2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد اقلیتوں کے دل ودماغ میں ایک خوف سما گیا ہے ،کہیں جاتے ہوئے ڈر لگتاہے ،گھر سے قدم باہر رکھتے ہی یہ احساس ہونے لگتاہے کہیں کوئی بھیڑ آئے قتل کردے ،کوئی پولس افسر آئے اور دہشت گردی کے الزا م میں جیل کی سلاخوں میں بند کردے ، ایک ماہ قبل کا واقعہ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ایک مسلم نوجوان برقعہ پہنے ہوئے پایاگیا ،تفتیش کے دوران پتہ چلاکہ وہ ماجودہ ماحول سے خوف زدہ تھا ،اپنی جان کے تئیں خطرہ محسوس کررہاتھا،اس خوف ودہشت کی وجہ ہجومی تشدد اور مجرموں کے خلاف عدم کاروائی ہے ایسے میں ملی کونسل نے اپنی ساتویں قرارداد میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت شہریوں اور اقلیتوں کے دل ودماغ میں طاری خوف کو ختم کرے ،انہیں ذہنی طور پر سکون فراہم کرنے کی کشش کرے ۔انہیں اعتماد اور بھروسہ دلائے۔
بی جے پی سرکا رآنے کے بعد مسلم اوقاف ،مساجد ،قبرستان ،اور مذہبی مقامات پر حملوں میں اضافہ ہواہے ، چناں چہ ملی کونسل نے اس جانب توجہ دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی مقامات کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
ہندوستان کی ایک بڑی آبادی اقلیتوں پر مشتمل ہے جس میں مسلمان ،سکھ عیسائی ،جین ،بڈھست شامل ہیں،اقلیتوں کے فلاح وبہبود کیلئے قومی اقلیتی کمیشن قائم ہے لیکن سرکار پر اس کی عموما توجہ نہیں رہتی ہے ،مقام افسوس یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے کے کسی چیئر پر س کا انتخاب نہیں کیا گیاہے ،چناں چہ نویں شق میں کونسل نے اس جانب بھی حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے اس ادارہ کو برقرار رکھنے
چیئر پر س کا انتخاب کرنے اور اقلیتوں کو ان کا حق دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
بی جے پی حکومت میں تعلیمی سرگرمیوں اور اسکول کے نصاب سے بھی مسلسل چھیڑ چھاڑ کیا جارہاہے ،نصاب تعلیم کا بھگوان کرن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،حال ہی میں آر ایس ایس سے وابستہ دیناناتھ بترا کی سربراہی میں شکشا سنسکرتی اتھان نیاس نے این سی آر سی کے متن سے اردو کے الفا ظ اور مرزا غالب کے اشعار کو حذف کرنے کی سفارشات کی ہیں ،ملی کونسل نے دسویں شوق میں اس کی مذمت کرتے ہوئے اس رپوٹ کو تعلیم کا بھگوان کرن قراردیا ہے اور حکومت سے اس سفارشات کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کی آزادی پوری دنیا میں سب سے اہم ہے لیکن ہندوستان میں پریس اور میڈیا بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے ،چند ماہ قبل ایک امریکی ایجنسی نے انکشاف کیاتھا کہ دنیا بھر میں سب سے کرپٹ انڈین میڈیا ہے،حکومت کا دباؤبھی یہاں کی میڈیا پر بہت زیاد ہ ہوتاہے ،خبروں کی نشریات سے بتاتی ہیں کہ چینل یہ سب کسی کے دباؤ میں کررہے ہیں،اشہارات کی پالیسی کے پیش نظر وہ سچ بولنے اور لکھنے سے کترارہے ہیں،اور جو لوگ سچ بولنے اور لکھنے کی کوشش کررہے ہیں ان پرمختلف زوایوں سے شکنجان کسا جارہاہے ،’’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی ‘‘کے ایڈیٹر ’’پرنجوئے گوہاٹھاکرتا ‘‘اس کی واضح مثال ہیں ،ملی کونسل نے قرارداد کی گیارہویں شق میں اس امرپر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے پریس کی آزادی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
یہ گیارہ نکات ہیں جو انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہیں،ان پر بولنا اور لب کشائی کرنا ضروری ہوگیا ہے ،اگر آج ان امور پر تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا،تو کل ہوکر ملک کی تصویر بہت بدل جائے گی ،آئین میں تبدیلی کے راستے ہموار ہوجائیں گے ،قابل صدر مبارکباد ہیں ملی کونسل کے جنرل سکریٹری جناب ڈاکٹر منطور عالم صاحب جنہوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک اہم تحریک چھیڑی ہے ،ملک کی عوام کو بیدارکرنے کی کوشش کی ہے ،سبھی شہریوں کو اس تحریک میں جڑنے کی دعوت دی ہے اور ملک کی سالمیت ،بقا ،ترقی اور آئین کے تحفظ کیلئے ایک قابل قدر کوشش کی ہے۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com