عدالت عظمی میں ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار،2002 کے گجرات فساد میں تباہ شدہ مذہبی مقامات کی ازسر نو تعمیر نہیں کرے گی حکومت

نئی دہلی(ملت ٹائمزایجنسیاں)
سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات فسادات میں تباہ ہونے والے مذہبی مقامات بالخصوص مساجد کی از سر نو تعمیر سے متعلق معاملہ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جس میں فساد ات میں تباہ ہوئی عمارات کی از سر نو تعمیر کرنے کا حکم ریاستی حکومت کو دیا گیا تھا۔ تاہم گجرات حکومت نے تباہ شدہ مذہبی ڈھانچے کو عمارت مان کر معاوضہ دینے کی بات کہی جسے سپریم کورٹ نے منظور کر لیا ہے۔ گجرات حکومت منصوبہ کے مطابق تباہ شدہ عمارتوں کو زیادہ سے زیادہ 50 ہزار روپے کا معاوضہ فراہم کرے گی۔چیف جسٹس دیپک مشرااور جسٹس پرفل چند پنت کی بینچ نے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریاستی حکومت کی اپیل کو قبول کرلیا تھا۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ مذہبی مقام کی تعمیر یا مرمت کے لئے حکومت ٹیکس دہندگان کے پیسے کو خرچ نہیں کر سکتی ہے۔ اگر حکومت معاوضہ بھی دینا چاہے تو اسے مندر، مسجد، گرودوارا اور چرچ وغیرہ نہیں بلکہ ایک عمارت مان کر اس کی بھرپائی کی جا سکتی ہے۔جسٹس دیپک مشرا نے کہا ،آرٹیکل 27ایسا نہیں کہتا کہ مرکزی یا ریاستی حکومتیں مذہبی مقامات کی مدد کے لئے قانون نہیں بنا سکتے “۔حالانکہ دیپک مشرا نے یہ بھی کہا کہ اگر گجرات حکومت نے مذہبی مقامات کی مدد کے لئے قانون بنایا ہوتا اور پھر بھی وہ معاوضہ نہیں دیتی تو دیگر بات ہوتی۔
معاملے کی پیروی کر رہی تنظیم اسلامک ریلیف سنٹر کے وکیل نے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی مقامات کی حفاظت ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سرکار کی لاپرواہی کے باعث ہوئے نقصان کی بھرپائی اسے کرنی چاہئے۔ اسلامک ریلیف سنٹر کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 27 کا حوالہ دینا غلط ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہبی معاملات میں سخی مانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے پرفل گورڑیا بنام حکومت ہند کے معاملے میں حج سبسڈی کو جائز قرار دیا تھا۔سماعت کے دوران گجرات حکومت کی طرف سے پیش ہوئے وکیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 27 کے تحت ٹیکس دہندہ کو حق دیا گیا ہے کہ اس سے کسی بھی مذہب کو فروغ دینے کے لئے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا۔ ایسے میں مذہبی مقامات کی تعمیر کے لئے سرکاری خزانے سے پیسہ دینا غلط ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گجرات حکومت نے یہ پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ وہ مذہبی مقامات کو ہوئے نقصان کی بھرپائی نہیں کرے گی۔ ریاستی حکومت نے 2001 کے زلزلہ میں نقصان زدہ مذہبی مقامات کے لئے بھی کوئی معاوضہ نہیں دیا تھا۔گجرات ہائی کورٹ نے گودھرا معاملے کے بعد ریاست میں ہونے والے فسادات کے دوران تباہ کئے گئے 500 مذہبی مقامات (مسجدوں اور مقبروں) کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا اور تمام 26 اضلاع میں فساد کے دوران تباہ ہوئیں مذہبی عمارات کی فہرست بنانے کو کہا تھا۔ 2012 میں آنے والے اس فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرنے والی تنظیم اسلامک ریلیف سنٹر کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایسے مقامات کی تعداد 500 ہے۔ جبکہ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ تعداد اس سے کافی کم ہے۔ اس کی یہ بھی دلیل ہے کہ معاوضہ کے لئے کہنا غلط ہے۔