نریندرمودی کے ہوتے ہوئے یہاں ایساکوئی تعلیمی نظام نہیں آئے گاجس سے اقلیتوں کی خودمختاری یامدرسوں کی آزادی پرقدغن لگ سکے :ظفر سریش والا

نئی دہلی۔24جنوری
سہیل اخترقاسمی ملت ٹائمز
وزارت تعلیم کے تحت تشکیل کردہ پینل برائے قومی تعلیمی پالیسی کاڈرافٹ ابھی آناباقی ہے تاہم اس تعلق سے بنگلورمیں ہوئی پینل کی میٹنگ میں دینی مدارس کوبہ سہولت قومی تعلیمی نظام سے مربوط کرنے کے حوالے سے نریندرمودی کے قریبی سمجھے جانے والے ظفرسریش والاجوکہ مولاناآزادیونیورسٹی حیدرآبادکے چانسلربھی ہیں؛نے اس بات پر زوردیاہے کہ جب این ای پی(نیشنل ایجوکیشن پالیسی ڈرافٹ)متعارف کرایاجائے تواس میں اعلیٰ تعلیم کے تحت دینی مدارس کے فضلاءکوبہ سہولت عصری اداروں میں رسائی اورآسان داخلہ جاتی نظام کویقینی بنایاجائے۔مشہورخلائی سائنسداں کرشناسوامی کستوری رنگن کی قیادت میں منعقدہ میٹنگ میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف تناظر(تکنیکی،صحت،مہارت ودیگر)پرتبادلہ خیال ہوا،جس میں کے جے الفانسوکنامتنھم،باباصاحب امبیڈکریونیورسٹی آف سوشل سائنس کے وائس چانسلررام شنکرکوریل،ڈاکٹرایم کے سری دھر،لسانی اطلاعات کے ماہرڈاکٹرٹی بی کٹی منی،ڈاکٹردیوی شیٹی سمیت اہم ماہرین تعلیم نے مختلف گوشوں پرتجاویزپیش کیں۔پینل کی میٹنگ میں اقلیتوں کی نمائندگی کے طورپرشریک ہوئے ظفرسریش والانے دینی مدارس کے فضلاءکووسیع امکانات فراہم کرنے کی وکالت کی۔بنگلورسے واپسی پرنمائندہ سے خاص گفتگوکرتے ہوئے سریش والانے این ای پی کے ذریعہ ملک میں ایک خاص نظریہ پرمشتمل تعلیمی نظام تھوپنے کے اعتراضات کوغیرضروری بتایا۔اپنی ہربات کووزیراعظم نریندرمودی کی تعریف پرختم کرنے کے عادی سریش والانے کہاکہ’نریندرمودی کے ہوتے ہوئے یہاں ایساکوئی تعلیمی نظام نہیں آئے گاجس سے اقلیتوں کی خودمختاری یامدرسوں کی آزادی پرقدغن لگے گا۔‘انہوںنے کہاکہ’پینل کی میٹنگ کسی مسلم نمائندے کے بغیربھی ہوسکتی تھی مگران لوگوں نے مجھے اورمیرے ساتھ دارالعلوم دیوبندکے رکن شوری مفتی اسماعیل کوبھی مدعوکیا،اس کامطلب ہے کہ پینل میں شامل فاضل حضرات اقلیتوں کی تعلیمی نمائندگی کے لئے پابندعہدہیں۔‘قومی تعلیمی پالیسی میں آرایس ایس کی ضرورت سے زیادہ دلچسپی کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سریش والانے وزیراعظم نریندرمودی کی قصیدہ خوانی شروع کردی اور کہاکہ’میرایہ تجربہ ہے کہ نریندرمودی کے ہوتے ہوئے کسی بھی طبقہ کاکوئی نقصان نہیں ہوگا۔‘انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ’میں نے میٹنگ میں تمام فاضل ماہرین کے سامنے دینی مدارس کے فضلاءکی اہلیت اورذہانت کے حوالے سے یہ بات رکھی کہ مدرسے کے بچے جوقرآن کواپنے حافظہ میں محفوظ کرلیتے ہیں اوربڑی محنت ومشقت کے عادی ہوتے ہیں؛اگرانہیں تعلیمی دھارے سے الگ رکھنے یاانہیں غیرتعلیم یافتہ قراردینے کی کوشش کی گئی تویہ سراسرایک بڑے سرمایہ کاضیاع ہوگا۔‘سریش والانے بتایاکہ’میں یہ نہیں کہتاکہ دینی مدارس کے فضلاءکومساوی ڈگری قراردیاجائے مگرانہیں تعلیمی دھارے سے جوڑنے کاپلیٹ فارم بناناضروری ہے جہاںوہ تھوڑی محنت سے یونیورسٹیوں میں داخلہ پاسکیں۔‘تاجرپیشہ ظفرسریش والاجوکہ گجرات فسادات کے بعدنریندرمودی کے سب سے بڑے حامی مسلم چہرہ بن کرسامنے آئے اورپھرشہرت پائے؛نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ’پارٹی اورحکومت میں بہت فرق ہوتاہے،پارٹی کے جوبھی نظریات ہوں؛مگرجب ذمہ داری عائدہوتی ہے توچیزیں بدل جاتی ہیں۔یہ حکومت مدارس کوکسی بھی طرح نقصان نہیںپہنچاسکتی۔میری خودوزیرتعلیم پرکاش جاویڈکرسے بات ہوئی اورمیں نے ان کے سامنے مدارس کے فضلاءکامستقبل محفوظ کرنے اوروطن کی تعمیرکے لئے مدارس کاسرمایہ استعمال کرنے کی صلاح دی،جس پروزیرنے نہ صرف یہ کہ ہامی بھری بلکہ انہوں نے بھی اس کی وکالت کی۔‘انہوں نے کہاکہ’مدارس کے ذمہ داروں کواگرکوئی خدشہ ہے توانہیں براہ راست وزیراعظم سے ملاقات کرناچاہئے،ہماراوزیراعظم گونگابہرانہیں،بات رکھیں گے توسنی جائے گی،حزب اختلاف کے سامنے تقریرکرنے سے اچھاہے کہ حکمراں پارٹی سے بات کی جائے۔‘قابل ذکرہے کہ ملک میں نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرانے کاپروگرام ہے،گزشتہ ۱۳دسمبر۷۱۰۲کوہی پینل برائے این ای پی کوڈرافٹ پیش کرناتھامگراب مارچ کے آخری دنوں میں پیش کیاجائے گا۔اب تک ہمارے ملک میں ۰۳سالہ پرانی پالیسی(۶۸۹۱میں تشکیل شدہ) نافذتھی۔وزارت تعلیم کی جانب سے جب این ای پی بنانے کی شروعات ہوئی توآرایس ایس اورسنگھ نوازادارے بھی سرگرم ہوگئے۔گزشتہ دنوں بلیوپرنٹ کے طورپروزارت تعلیم نے زیرتشکیل پالیسی کاڈرافٹ عام کیا،جوکھلے طورپرایک خاص نظریہ پرمبنی نظام تعلیم کی وکالت پرمشتمل تھا۔اس ڈرافٹ پرشدیدتنقیدیں ہوئیں اورہورہی ہیں۔(بشکریہ روزنامہ انقلاب دہلی)