مدثر احمد قاسمی
جمہوریت آمریت کی ضد ہے۔جمہوری نظامِ حکومت میں عوام حقِ رائے دہی کے ذریعہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ منتخب نمائندے دستور کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کام کریں اور اس کے ذریعے ایک مستحکم نظامِ زندگی کا تصور دینے میں کامیاب ہوں۔ اس کے بالمقابل آمریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں مطلق العنان فرد یا افراد کا گروہ ریاستی اختیارات کو آئین وقانون حتّیٰ کہ عوامی مفادات کی پروا کئے بغیر اس انداز سے استعمال کرتا ہے کہ وہ اس کیلئے ذاتی طور پر موزوں ہو ۔
جمہوریت کی تین بڑی خصوصیات ہیں قانون کی حکمرانی،مساوی شہری حقوق اورشخصی آزادی ۔ برطانیہ کے ممتاز جیورسٹ لارڈ ٹوم بنگھم نے اپنی کتاب ’’ قانون کی حکمرانی‘‘ میں قانون کی حکمرانی کے آٹھ اہم اجزاء کا تذکرہ کیا ہے۔ یعنی قانون عام فہم اور قابلِ رسائی ہونا چاہیئے۔ قانونی حقوق اور ذ مہ د اریوں کا تعین صوابدید سے نہیں بلکہ قانون کے اطلاق سے ہونا چاہیئے۔ قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیئے ۔وزراء اور سرکاری افسران اختیارات کا استعمال نیک نیتی اور دیانتداری سے محض اس مقصد کیلئے کریں جس کیلئے انھیں یہ عہدے تفویض کئے گئے تھے ۔ان سے تجاوز نہ کریں ۔قانون بنیادی انسانی حقوق کا کماحقہ تحفّظ کرے۔ ریاست شہریوں کے تنازعات کے حل کا میکانزم مہیّا کرے۔ فیصلہ جات کا نظام دیانتدارانہ ہونا چاہیئے۔ قانون کی حکمرانی کا تقاضہ ہے کہ ریاست بین الاقوامی اور ملکی قوانین کی پابندی کرے۔
جمہوریت اور آمریت کے اس فرق سے ہمارے لئے یہ بات سمجھنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے کہ ایسی جمہوریت جہاں آمریت کے اصولوں پر کام ہو یقیناً وہ برائے نام ہی جمہور نظام ہے۔اس تناظر میں جب ہم اپنے پیارے ملک ہندوستان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا ملک جمہوریت اور آمریت کے بیچ ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی ترقی،سالمیت اور آپسی بھائی چارگی کی بنیاد ،دستورِ ہند جس کا نفاذ 26/ جنوری 1950 کو عمل میں آیا ،حالیہ دنوں میں اس کے مخالف عمل کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ،بالفاظِ دیگر دستورِ ہند کو پامال کرنے کی بڑی تیزی کے ساتھ مذموم کوششیں ہورہی ہیں۔ ہم یہاں نمونے کے طور پر چند تقابلی مطالعہ پیش کرنا چاہیں گے:
(1) دستور ہند دفعہ ۲۸ /میں مذکور ہے کہ :”کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جو بالکلیہ مملکتی فنڈ سے چلایاجاتا ہو کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی”۔ستم یہ ہے کہ اس واضح دستور کے موجود ہونے کے باوجود ملک کی مختلف ریاستوں میں برادرانِ وطن کی مقدس کتاب ‘”بھگوت گیتا” کی تعلیم کو تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں لازم قرار دینے کی جارحانہ کوششیں کی جاری ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اس پر عمل نہ کرنے والوں کو ملک چھوڑنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے ۔اس سے صاف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف صوبوں میں اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی جنتا پارٹی، اس کی ثقافتی اور ذیلی تنظیمیں اپنے ایجنڈے کو مسلط کر نے کی آمرانہ کوششیں کرتی ہیں اور اپنے عمل سے دستورِ ہند کو بے حیثیت ثابت کرتی ہیں۔
(2) اسی طریقے سے دستور ہنددفعہ ۲۵/ میں یہ مذکور ہے کہ :”تمام اشخاص کو آزادیٴ ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے” ۔تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے اتنا خوبصورت اور اطمینان بخش دستور کے موجود رہتے ہوئے بھی آج ہمارے ملک میں”لو جہاد” کے نام پر دہشت گردی کا کھیل جاری ہے؛ چنانچہ کبھی کیرل کی نومسلمہ ڈاکٹر ہادیہ اور اس کے شوہر ڈاکٹر شافعین کو ذہنی کرب سے گذارا جاتا ہے اور جان سے ہاتھ دھونے کی دھمکی دی جاتی ہے تو کبھی بنگلور میں ایک 20 سالہ بی کام کی طالبہ دھنیا شری کو” ‘ آئی لو مسلم”لکھنے کی وجہ سے اتنا پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ خودکشی کر لیتی ہے ۔اور جہاں تک اس دستور میں کسی مذہب کی پیروی کرنے کے تئیں آزادی کی بات ہے تو اس حوالے سے ہمارا ملک اور بھی زیادی خطرناک صورتِ حال سے دو چار ہے؛چنانچہ آج ہندوستان میں لوگوں کو کیسے رہنا ہے،کیا پہننا ہے،کیا کھانا ہے اور مذہب پر کیسے عمل کرنا ہے —ان تمام کو سیاسی پشت پناہی میں شدت پسند تنظیمیں بزور طاقت طے کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
نریندر مودی حکومت کے ناک کے نیچے اس وقت ملک بھر میں لا قانونیت کا جو کھیل جا ری ہے اس کو دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آئین کے جن اقداروں نے دہائیوں سے ہماری حوصلہ افزائی کی،اب اس پر مہیب خطرہ منڈلا رہا ہے اور ملک کو بھگو ارنگ میں رنگنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ مکمل طور پر ان جذبات کے خلاف ہے جنہیں آئین میں یقینی بنایا گیا ہے۔ آئین ہند جس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ہندوستان کے ہر شہری پر لازم ہے اور جس کو نہ ماننا ملک سے بے وفائی اور غداری ہے ؛ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کو ہی ملک سے بے وفائی اور غداری کا طعنہ دیا جاتا ہے اور دستور ہند کی روح کو پامال کرنے والے ملک کے وفادار شہری قرار پاتے ہیں۔آخر یہ کہا ں کا انصاف ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ دستورِ ہند کے مخالف بات کرنے والوں پر ملک سے بے وفائی اور غداری کا مقدمہ چلتا اور انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا۔
مذہبی آزادی پر حملہ کس قدر خطرناک ہے اس کا ادراک ہمیں مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کے اس اقتباس سے بخوبی ہوجا تا ہے: ‘مذاہب عالم کی تاریخ اور واقعات و مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ آزادیٴ مذہب کا مسئلہ اس درجہ نازک اور جذباتی ہے کہ جب بھی کسی حاکم یا حکومت کی جانب سے اس پر قدغن لگانے کی غیرشریفانہ کوشش کی گئی ہے تو عوام نے اسے برداشت نہیں کیا ہے۔ بلکہ اکثر حالات میں حکومت کا یہی بیجارویہ بغاوت اور انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔ آزادیٴ ہند کی تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ برطانوی حکومت کے خلاف ۱۸۵۷/ کی تاریخی جدوجہد کا اہم ترین محرک مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہ اندیشہ تھا کہ ان کے مذہب میں رخنہ اندازی اوراسے خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
‘ اس تناظر میں ہمارا ملک ایک بار پھر ایک نئے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے ،کیونکہ یہاں نا انصافی صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہورہی ہے بلکہ سنگھ پریوار اور اس کے ہمنواؤں کے علاوہ سبھی زد میں ہیں ،بس فرق یہ ہے کہ کوئی زیادہ متاء ثر ہے اور کوئی کم۔ خدا کرے کہ یہ انقلاب خون خرابے سے پاک ایک مثبت نتیجہ کا ذریعہ بنے اور ہمارا ملک اتحاد و اتفاق، مذہنی رواداری اور ہمہ جہت ترقی کی مثال بن جائے۔
اس ملک کی تعمیر اور آزادی کے پیچھے جنہوں نے اپنا خون اور پسینہ نہیں بہایا ہے ،انہیں کیا معلوم کہ ہمارا یہ ملک ترقی اور اس عزت کے اس مقام تک کیسے پہونچا؟ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اس ملک کے تانے بانے کو برہم کرنے پر مصر ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ سیکولر مزاج لوگ انہیں اس ملک کو توڑنے سے روکنے میں کمزور پڑتے نظر آرہے ہیں۔یاد رکھئے اس ملک کی بھلائی اور ترقی کا واحد راستہ یہی ہے کہ یہاں بسنے والے مذہبی،نسلی اور لسانی گروہوں کو یکساں پھلنے پھولنے کا موقع ملے اور کثرت میں وحدت کی مثال کو زندگی دی جائے۔ اس حوالے سے ملک کی آزادی کے لئے کالا پانی کی سزا کاٹنے والے مجاہد آزادی شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کا قوم کے نام ذیل کا مشورہ آبِ ذر سے لکھے جانے اور ہر ہندوستانی کے لئے حرزِ جان بنائے جانے کے لائق ہے:
‘ہاں میں یہ پہلے بھی کہہ چکاہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ ان اقوام کی باہمی مصالحت و آشتی کو اگر آپ خوشگوار اور پائدار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی حدود کو خوب اچھی طرح دل نشیں کرلیجئے۔ اور وہ حدود یہی ہیں کہ خدا کی باندھی ہوئی حدود میں ان سے کوئی رخنہ نہ پڑے جس کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتی کہ صلح وآشتی کی تقریب سے فریقین کے مذہبی امور میں کسی ادانیٰ امر کو بھی ہاتھ نہ لگایا جائے اور دنیوی معاملات میں ہرگزکوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے کسی فریق کی ایذا رسانی اور دل آزاری مقصود ہو“۔(جمعیۃ علماء کیا ہے،ص:۱۳۲)
آئیے 69/واں یومِ جمہوریہ کے اس موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم سب مل کر اس ملک کے آئین کی حفاظت کر ینگے اور اس کے لئے ہر ممکن جمہوری راستہ اپنائیں گے تاکہ اس ملک کے لئے مجاہدین آزادی اوردستور ساز کمیٹی نے اپنی آنکھوں میں جو خواب سجائے تھے وہ پورا ہو سکے اور ہمارا ملک امن و آشتی کا گہوارا بن جائے۔
(کالم نگار معروف مصنف اور مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے سینئر استاذ ہیں)