بابری مسجد و رام مندر معاملہ اور موجودہ صورتحال

حسن مدنی ندوی
جب سے ہوش سنبھالا ہے بہت سے مسائل نگاہوں کے سامنے آئے جن میں خاص طور سے مسئلہ کشمیر اور بابری مسجد کا مسئلہ ہے، بابری مسجد ۱۹۹۲ کو شہید ہوئی تھی اور اسکے بعد سے حالات روزبہ روز بگڑتے چلے گئے اور اس مسئلہ کو لیکر مادر ہند کو دو مختلف مذہب کے ماننے والوں میں بیشتر جھڑپیں ہوئیں فسادات ہوئے اور مقدمے چلے ،یہاں تک کہ یہ مسئلہ عالمی میڈیا تک میں سرخیوں پر آیا،اور ہزار کوششوں کے باوجود کوئی اس معمہ کو سلجھا نہیں سکا، ذرائع ابلاغ سے لیکر ہر بڑی چھوٹی تنظیم اس مسئلہ کا حل لیکر آئی لیکن باہم اتحاد نہ ہوا، اس مسئلہ کو مذہب سے علیحدہ باضابطہ ایک سیاسی ایجنڈہ بنا دیا گیا، کل اخبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب اور شری شری روی شنکرصاحب کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی جس میں مولانا نے ایودھیا کی متنازعہ زمین کو رام مندر بنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس کے عوض میں وہیں دوسری جگہ مسجد اور یونیورسٹی کی زمین کے لئے مطالبہ کیا ہے، ہندو و مسلم دونوں فریقوں کے لئے یہ دونوں حضرات محتاج تعارف نہیں ،جہاں تک امید کی جا رہی ہے ہندو مذہبی پیروکار اس بات پر آمادہ ہوجائینگے لیکن !
مسلمان اس بات پر رضامند نہیں ، وہیں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان و عہدیداران کی جانب سے یہ پیغام بھی آگیا کہ مولانا سلمان صاحب کی یہ کوشش بے سود اور رائیگاں ہیں،ان حضرات کا ماننا یہ ہے کہ انکے پاس مضبوط دلیلیں اور ٹھوس ثبوت ہیں کہ متنازعہ اراضی کے اصل حقدار کون ہیں !
ہم اگر اسلامی نظریہ سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے نجس جگہوں کے علاوہ پوری زمین کو مسجد یا جائے نماز قرار دیا ہے ،نیز مصلحت کے تحت مسجد منتقل کرنا بھی شریعت اسلامی میں جائز ہے، اور یہاں مصلحتیں اور شرائط بدرجہ اتم موجود ہیں کیونکہ اختلافات بین الفریقین حد درجہ پائے جاتے ہیں اور فساد و عناد کا خوف ہی نہیں بلکہ ظاہری شکل بھی موجود ہے، ملت کے نونہالان آئے دن کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہورہے ہیں جن کی بنیادی ایک وجہ یہ بھی ہے، رام مندر کے تعلق سے ہندو مذہب میں وہ اتفاق ہوا جو شاید پہلے دیکھنے کو ملا ہو ، یہی نہیں بلکہ اس مسئلہ کا سیاسی رخ اس نتیجہ تک پہنچ گیا جو آ ج ہمارے سامنے ہے، عدلیہ سے لیکر حکومت تک آئین ہند ہر لمحہ قلم کی نوک پر رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے کو تیار ہے، دلیل ہیں وہ اہل مناصب جو مندر کی تائید میں اور حمایت میں مستقل سرگرمیوں میں مصروف ہیں، مسلم فریق کو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اقلیت میں ہیں اور صرف اس ایک مسئلہ کی وجہ سے جتنا نقصان اور جتنی خونریزی اور جتنا فساد ماضی میں ہوا اس سے کہیں زیادہ مستقبل میں ہوسکتا ہے ، اور خدانخواستہ جو حالات فلسطین و میانمار میں ہوئے وہی یہاں بھی نہ دہرا دئے جائیں اور فرقہ پرست طاقتیں حتی الامکان اسی کوشش میں ہیں،مذہب پسندی ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ مصلحت بھی ضروری ہے، ہمیں قرآن و حدیث سے بہت ایسی دلیلیں ملتی ہیں جن میں ظاہری طورپر فیصلہ اہل اسلام کے خلاف لگتا ہے لیکن وہی در حقیقت دانشمندانہ فیصلہ ثابت ہوتا ہے ،مذہبی عصبیت سے بالاتر اس وقت یہ معاملہ ایک انا کا ہے جس کے خاطر جتنا لہو بہا دیا جائے کم ہے یہی سوچ ہے جو شاید قوم کو تباہی کہ دہانے تک لے جائے اور جسکے نقصانات کے کوئی انتہا نہ معلوم ہو، مسلم قوم ہمیشہ سے دور اندیش رہی ہے اور یہ فالوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے،اس ضرورت کے مد نظر مسلم پرسنل لا ء و دیگر ملی تنظیموں کا باہم اتفاق انتہائی ضروری ہے ، عدالت عظمی یعنی سپریم کورٹ کا فیصلہ خواہ مسلمانوں کے حق میں آئے یاں انکے خلاف آئے دونوں صورتوں میں مسلمان ہی نقصان میں ہیں ، حق میں آئیگا تو فساد ات کا اندیشہ اور خلاف آئیگا تو زمیں ہی نہیں بلکہ بنیادی حقوق کی جتنی حق تلفی ہو رہی ہے اس سے کہیں زیادہ ہوگی، فرقہ پرست طاقتیں علانیہ طور پر تشدد کا بازار گرم رکھیں گی ، لہذا یہ مسئلہ فریقین آپسی رضامندی کے ساتھ حل کریں اور اس کے لئے جو بھی کوشش ہو سکے کریں اور تاریخ کے صفحات میں محبت و اخوت کی ایک مثال قلمبند کریں ۔