آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ۔ماضی اور حال کے آئینے میں

مولانامحمد عمرین محفوظ رحمانی

ملت پر کوئی آنچ آئے یا ملک کسی خطرے سے دوچارہواس کے تدارک کے لئے سب سے پہلے علمائے کرام آواز بلند کرتے ہیں۔ ملک و ملت کی آبرو بچانے اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں عام طور پر اسی طبقہ کی مرہونِ منت ہیں، ان کوششوں کی اس ملک میں لانبی تاریخ ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اسی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔ مسلمانوں کا یہ مشترکہ و متحدہ پلیٹ فارم ملک وملت کی خدمت اور تحفظ دین و شریعت کا جلی عنوان اور ۰۲کروڑ سے زائد مسلمانوں کی آبادی والے اس ملک میں تمام مسالک ، مکاتب فکر اور مختلف طبقات کے مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، جو آج سے ۴۴سال پہلے اپریل ۳۷۹۱ءمیںاسی تاریخی شہرحیدرآباد میں قائم ہوا ،اس وقت کے تمام قابلِ ذکر علمائے کرام اور ملت کے قائدین اس کی تعمیر و تشکیل میں شریک ہوئے اور پھر تحفظ ِ شریعت اور مسلم پرسنل لاءکی بقاءکے لئے سرگرم عمل رہے۔
۳۷۹۱ئ میں بڑے سنگین حالات میں بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھااور یہ طے کیا گیا تھا کہ قانونی راستوں سے مسلمانوں کے شرعی قوانین میں کسی بھی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور مسلمانوں کا یہ متحدہ پلیٹ فارم ایمانی غیرت اور اتحاد کی طاقت کے ساتھ اس طرح کی کوششوں کو ناکامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا،اللہ کا کرم ہے کہ پچھلے ۴۴ برسوں سے مسلمانوں کا یہ باوقار بورڈ اپنے بانیوں کے رہنما خطوط کے مطابق مسلسل خدمت انجام دے رہا ہے اور مختلف معاملات میں غیر معمولی کامیابی اسے حاصل ہوئی ہے ۔
چونکہ بورڈ کی تعمیر و تشکیل ایک ایسی عظیم شخصیت کے ذریعے ہورہی تھی جواعتدال و توازن کے عظیم جوہر سے مالا مال تھی اوراس وقت کے سنگین حالات کا بھی یہ تقاضا تھا کہ اس بورڈ کو کسی ایک جماعت کے دائرے میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے علماء، قائدین اور نمائندہ شخصیات کو اس میں شریک کیاجائے۔چنانچہ بورڈ کے قیام سے پہلے اس کے بانی امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے مختلف مسالک و مکاتب ِ فکر کے منتخب اشخاص کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی اور بورڈ کے باضابطہ قیام سے پہلے ۷۲،۸۲دسمبر ۲۷۹۱ءمیں بمبئی کے آزاد میدان میں منعقدہونے والے مسلم پرسنل لاءکنونشن میں مسلمانوں کے مختلف مسلک و مشرب کے قائدین کا جو اتحاد اور ایک دوسرے سے محبت کا اظہار اور مل جل کر قانونِ شریعت کی حفاظت کا عزم دیکھنے کو ملا اس سے ملک کے مسلمانوں کو کافی اطمینان حاصل ہوا ،مختلف مسالک و مکاتب ِ فکر کے افراد کو یکجا کرنے اور ان کو مشترکہ طور پر بلند مقاصد کے لئے جدو جہد اور کوشش و کاوش کی راہ پر لانے کا معاملہ کہنے اور لکھنے کے لئے جتنا آسان ہے عملی لحاظ سے اتنا ہی دشوار گزار ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی تربت کو ٹھنڈا رکھے کہ انہوں نے اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے بے پناہ جدو جہد کی ،وہ نہ تھکے نہ ہارے ، نہ شکست حوصلہ ہوئے اور نہ ہی کسی مرحلے میں اپنے مشن سے بددل ہوئے ، وہ مخلصانہ جدو جہد کی کامیابی پر یقین رکھتے تھے اور انہیں اس بات کا احساس تھا کہ منزل چاہے کتنی ہی دور ہو اور ہدف چاہے کتنا ہی بلند، مسلسل چلنے اور چلتے رہنے والا انسان ایک دن منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے اورہدف کا طلبگار ایک نہ ایک دن اپنے ہدف کو پالیتا ہے۔
مل ہی جائے گا ہدف خواہ ہو کتنا ہی بلند
شرط یہ ہے کہ کوشش اسی معیار کی ہو
حضرت امیر شریعت ؒ کا اخلاص کہہ لیجئے یا ان کی دعائے نیم شبی کا اثر ،کہ بورڈ کا کارواں اپنے بانی کے تشکیل کردہ رہنما خطوط پر آگے بڑھتا جارہاہے اور جن مقاصد کے تحت اس کا قیام عمل میں آیا تھا ان میں اسے بھرپور کامیابی ملتی رہی ہے۔
بورڈ کے قیام کے وقت متبنّٰی بل کا مرحلہ درپیش تھاجس میں اسلامی قانون کے برخلاف لے پالک بیٹے کو حقیقی اولاد کا درجہ دیا گیا تھا۔علمائے کرام اور قائدین ملت بالخصوص امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اورمتبنّیٰ بل واپس لیا گیا۔اس کے بعدایمرجنسی کے تاریک دور میں جبری نس بندی کے قانون کے خلاف مسلم پرسنل لاءبورڈ نے جرا¿ت مندانہ اقدامات کئے اور ان سنگین حالات میں جب کہ بولنے والی زبانیں خاموش تھیں اور لکھنے والوں کے قلم ٹوٹ چکے تھے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی آواز گونجی اور گونجتی چلی گئی۔بورڈ کے بانی اور جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی رحمة اللہ علیہ نے فیمیلی پلاننگ کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر جہاد بالقلم کا فریضہ انجام دیا اور اسے پورے ملک میں تقسیم کروا کر مسلمانوں کو شرعی حکم سے واقف کرایا ،بورڈ کے مخلص کارکنوں کی جدو جہد نے حالات کی سنگینی کا رخ موڑ دیا اور وہ دشوار گزار مرحلہ- جس میں اچھے اچھوں نے ہمت ہار دی تھی-گزر گیا،بورڈ کا یہ ایسا کارنامہ اورجرا¿ت و عزیمت سے لبریز ایسا اقدام ہے جس نے ملک کے ہر ایک مسلمان کو بورڈ کا احسان مندبنادیا۔پھر ۸۷۹۱ءمیں دو مساجد اور ایک قبرستان کی جگہ کا معاملہ سامنے آیا جسے الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو¿ بنچ نے میونسپل کارپوریشن کی جگہ قرار دے دیا تھا۔ بورڈ کے ذمہ داران نے بڑی حکمت ِ عملی کے ساتھ اس فیصلے کی غلطیوں کوواضح کیا اور بالآخر یہ فیصلہ واپس لیاگیا۔۶۸۹۱ءمیں اندور کی شاہ بانو نامی خاتون کے مقدمے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے تاحیات نفقہ¿ مطلقہ کا فیصلہ کیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیااوراس فیصلے کیخامیاںپورے ملک کے مسلمانوں کے سامنے واضح کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے گوشے گوشے میں مسلمانوں نے اس فیصلے کو شریعت اسلامی میں مداخلت قرار دیا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج کو منظم کیا ۔ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسلمانوں کے تیور دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون میں مناسب ترمیم کروائی۔یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بڑی جیت تھی ،جس نے اس ملک میں مسلمانوں کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا،ادھر حال کے چند برسوں میں بھی بورڈ کو مختلف مسائل کی نمائندگی اوراس نمائندگی کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اثرات کی بناءپر بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔۲۰۰۲ءمیں وزارتی گروپ کی رپورٹ سامنے آئی جس میں مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا گیا۔ بورڈ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور ملک کے عظیم قائدحضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے اس رپورٹ کا مفصل تجزیہ رسالے کی شکل میں کیا اورمختلف جلسے ، کنونشن اورسیمینار منعقد کرکے، اسی کے ساتھ ساتھ ارباب ِ اقتدار کومتوجہ فرماکر مدارس پر منڈلاتے ہوئے خطرات کے بادلوںکو دور کیا۔۰۱۰۲ءمیں مدارس اسلامیہ کو ختم کرنے کی ایک دوسری سازش بڑے خوبصورت عنوان ”مفت اور لازمی حق تعلیم قانون“کے نام سے سامنے آئی تو بورڈ نے پہلے مرحلے میں افہام و تفہیم کے ذریعے اسے حل کرنے کی کوشش کی، لیکن جب ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں نہ رےنگی تو ۶۲نومبر ۱۱۰۲ءکو دہلی کے اجلاسِ عاملہ میں اس قانون اور مزید ۳قوانین (وقف بل ،ڈائریکٹ ٹیکسیز کوڈ ، زرعی جائداد میں عورت کے حصے سے متعلق قانون)کے سلسلے میں آئینی حقوق بچاﺅ تحریک چلانے کا فیصلہ کیااورپورے ملک میں اس زورو شور کے ساتھ تحریک آگے بڑھی اور مسلمانوں میں ان مسائل کے تئیں ایسی بیداری پیدا ہوئی کہ حکومت کو”مفت اور لازمی حق تعلیم قانون“ سے مدارس کو مستثنی قرار دینا پڑا۔
پچھلے چندسالوں میں بورڈ نے کچھ ایسی تحریکیں بھی شروع کیں،جونہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ملک کے باشندوں کے حق میںباعث ِ رحمت ثابت ہوئیں،مثلاً دختر کُشی کی لعنت کے خلاف جاری کی گئی تحریک ، تلک جہیز مٹاﺅ تحریک ، اسی طرح بورڈ کے ۳۲ویں اجلاسِ عام میں جو قراردادیں باتفاقِ رائے منظور کی گئیں ان میں ایک قرارداد عورتوں کی عصمت و عفت کی حفاظت کے سلسلے میں تھی، جس میں دہلی میں ہوئے اجتماعی آبروریزی کے بھیانک واقعے کے پس منظر میں یہ بات کہی گئی تھی کہ عورتوں کی عصمت و عفت کی حفاظت ضروری ہے اوراس کے لئے ملک میں ایسے مو¿ثر قوانین بنائے جانے چاہئےں اور ایسی کوششیں کی جانی چا ہئےں ،جن کے ذریعے خواتےن کی عزت وناموس کی حفاظت کی جاسکے۔کاش کہ حکومت نے بورڈ کے اس مطالبے پر توجہ دی ہوتی اور خواتین کی عصمت و عفت کی حفاظت کے سلسلے میں مو¿ثر کوششیں کی جاتیں تو مظلوم نربھیاکے بعد سے اب تک عصمت دری کے ہزاروں درد ناک واقعات پیش نہ آتے،خصوصاً گذشتہ دنوں یوپی کے پرتاپ گڑھ ضلع میں مسلم ٹیچررابعہ نامی خاتون کے ساتھ انسانیت کو شرمسار کرنے والا وحشت ناک واقعہ بھی رونما نہ ہوتا،جس میںنصف درجن وحشیوں نے اولاًرابعہ کی عصمت دری کی کوشش کی اور جب اس۴۴سالہ باغیرت اور باحوصلہ خاتون نے مخالفت کی تو انتہائی سفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پیر توڑ ڈالے اور پورے جسم کو چاقوو¿ں سے گود دیا،آخر کار اسپتال میں رابعہ نے دم توڑ دیا۔
قانونی لڑائی کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے مسلمانوں کو احکام ِ شریعت اور اسلامی قوانین پر قائم کرنے اور ان میں شرعی قوانین کی عظمت پیدا کرنے کے لئے ”اصلاح معاشرہ“اور ”دارالقضائ“کے ذریعے عظیم خدمت انجام دی،مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے مسلمانان ہند کے اسلامی تشخص اورایمانی وجود پر ہرروز ایک نئی جہت سے حملہ کیاجارہاہے،خصوصاً طلاق ثلاثہ کو عنوان بنا کر خواتین کی ہمدردی کے نام پر موجودہ حکومت نے طلاق ثلاثہ کے خلاف اپنا مجوزہ قانون لوک سبھا میں پاس کروا لیا ہے،جو آئین ہند اور شریعت کی روح کے خلاف ہے،اس قانون کے ذریعے حکومت کا مقصد جہاں شریعت میں مداخلت ہے وہیں ملک میں یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی ہے،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت کی ان مذموم کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لےے ایک جانب سپریم کورٹ میںقانونی لڑائی لڑی تودوسری جانب پورے ملک میں تحفظ شریعت اور اصلاح معاشرہ کے عنوان سے سینکڑوں مقامات پر دینی جلسوں کا انعقاد کر کے مسلمانوں میں نکاح اور طلاق سے متعلق بیداری پیدا کی، مجموعی لحاظ سے ان تمام جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان مرد وخواتین شریک ہوئے اور شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کاعہد کیا،اسی کے ساتھ حکومت کی جانب سے شریعت میں مداخلت کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ،ان پر اپنی سخت ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کوششوں سے باز رہے اور دستور ہند نے اپنے مذہب پرعمل کرنے کی جو آزادی مسلمانوں کو دی ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے۔
بورڈ کا یہ قافلہ صدر محترم مرشدالامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی سرپرستی اورجنرل سکریٹری مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی قیادت پورے جوش و خروش کے ساتھ رواں دواں ہے،ملک کے موجودہ نازک حالات میں ملک کے مسلمانوں کی بورڈ سے بڑی امیدیں بندھی ہیںاور بورڈ پر ان کا اعتماد بھی بڑھا ہے۔الحمد ﷲ!ملک کا ہر مسلک و مشرب کامسلمان بورڈ کے ساتھ ہے اور ساتھ رہے گا۔ ان شاءاللہ!
اس مضمون کوامیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے اس فکر انگیز پیغام پر ختم کرتا ہوں۔
” آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا کارواں میری نظر میں بڑا محترم ہے ، اور اس کی خدمت دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی اور اجرو ثواب کا ذریعہ ہیں ۔ اور ہمارا یہ بورڈ مسلمانانِ ہند کا متحدہ ادارہ ہے ، مسلم پرسنل لاءبورڈ کی تاریخ ایمان و یقین کے متوالوں کی تاریخ ہے ، بصارت و بصیرت ، جرا¿ت و عزیمت کی تاریخ ہے ، صبرو برداشت، احتیاط و پرہیز کے ساتھ سوز دروں اور جذب وجنوں کی تاریخ ہے ، بر وقت فیصلے اور فیصلوں پر مسلسل عمل کی تاریخ ہے، وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے ، وہ پرہیز جو حالات سے گریز سکھائے، وہ صبر جو ظلم مسلسل کی حسین تعبیر تلاش کرے اور وہ برداشت جو بے عملی تک پہونچا دے، زندہ افراد اور زندہ اداروں کے لئے نہ قابل قبول ہے اور نہ گوارہ! اس بورڈ پر الحمدللہ نہ صرف ملت اسلامیہ کو اعتماد ہے بلکہ پورا ملک اس کے فیصلوں کو سننے کا منتظر رہا ہے، بزرگوں کی یہ امانت قابل قدر بھی ہے لائق شکر بھی، اور ہر لحاظ سے اس کی مستحق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے، اسے ترقی دی جائے ، اور ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی انفرادیت ، مسلک و مشرب کے فاصلوں اور جماعتی حلقہ بندیوں سے بلند ہوکر صرف دین کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی بہی خواہی کی خاطر ا س سمندر میں ضم ہوجائیں اور ہم میں سے ہر ایک کی انفرادیت موتی کی طرح سمندر کی تہ میں رہے جس سے سمندر کا وقارووزن تو بڑھے ، مگر اس کی روانی میں کوئی فرق نہ آئے ۔“