سہیل انجم
دہلی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر وقف املاک اور محکمہ آثار قدیمہ کے تحت آنے والی مساجد کی زبوں حالی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس حوالے سے آئے دن تفصیلات سامنے آتی رہتی ہیں۔ چند روز قبل دہلی کے مالویہ نگر کے پاس کھڑکی مسجد کے بارے میں ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں مسجد کی زبوں حالی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ اس مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی ہے۔ اس وسیع و عریض مسجد کے داخلی دروازے کے باہر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نصب بورڈ پر لکھا ہے کہ چونکہ یہ مسجد محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ہے اس لیے اس میں نماز کی ادائیگی ممنوع ہے۔ لیکن بورڈ پر جہاں ’کھڑکی مسجد‘ لکھا ہوا ہے وہاں لفظ ’مسجد‘ پر سفید پینٹ پھیر دیا گیا ہے۔ ساکیت کورٹ کے بالکل سامنے واقع اس مسجد کی، بعض احباب کی جانب سے واگزاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا یہ کوشش کامیاب ہو سکے گی کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ حکومت او رمحکمہ آثار قدیمہ کا رویہ معاون نہیں ہے۔
بات صرف اسی ایک مسجد کی نہیں ہے۔ دہلی ہی میں متعدد مساجد ہیں جو انتہائی شاندار اور وسیع و عریض ہیں لیکن وہ محکمہ آثار قدیمہ کے قبضے میں ہیں، وہاں نماز کی ادائیگی پر پابندی ہے۔ اگر متعلقہ محکمے سے یہ دریافت کیا جائے کہ ان میں نماز کی اجازت کیوں نہیں ہے تو رٹا رٹایا سا جواب ملتا ہے کہ ہمیں جو عمارت جس حالت میں ملی ہے ہمیں اسے اسی حالت میں محفوظ رکھنا ہے اور یہ کہ موجودہ پالیسی کے مطابق ایسی عمارتوں میں پرارتھنا کرنے یا ان کے مذہبی استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ پورے ملک میں ایسی ہزاروں مسجدیں ہیں جن پر یاتو محکمہ آثار قدیمہ کا قبضہ ہے یا اغیار کا یا پھر اپنوں کا۔ قبرستانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ہم دہلی کی بات کریں تو یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ لاتعداد قبرستانوں پر قبضے کرکے ان پر سرکاری عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ دہلی اقلیتی کمیشن نے ابھی حال ہی میں دہلی کے قبرستانوں کا ایک سروے کیا ہے۔ اس کی غیر مطبوعہ رپورٹ کے مطابق دہلی میں کاغذوں پر کل ۴۰۷ قبرستان ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین، سینئر صحافی اور دانشور ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے مطابق ان میں سے ۳۲۶ دہلی وقف بورڈ کے پاس ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر پر قبضہ ہو چکا ہے اور ۱۳۱ قبرستان ہی قابل استعمال ہیں۔ ان میں سے بھی ۶۱ پر مقدمات چل رہے ہیں۔ دہلی میں مسلم فرقے میں سالانہ اموات کی شرح اوسطاً ۳۱ ہزار ہے۔ یعنی ہر سال اتنے لوگ فوت ہوتے ہیں۔ قابل استعمال قبرستانوں میں ۹۲ ہزار قبروں ہی کی جگہ ہے۔ یعنی تقریباً ڈھائی سال کے اندر اندر ان قبرستانوں میں قبروں کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں کمیشن حکومت، ڈی ڈی اے، وقف بورڈ اور مسلم تنظیموں کے پاس تجاویز پیش کرنے والا ہے۔ جن میں دو تجاویز یہ ہیں کہ جن پر لوگوں کے قبضے ہیں ان کو پیسے دے کر خرید لیا جائے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں سے اپیل کی جائے کہ وہ قبروں کو پختہ بنانا بند کر دیں۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کہتے ہیں کہ صرف اغیار ہی نہیں بلکہ اپنے بھی اوقاف کی املاک پر قابض ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جو ناجائز قبضے ہیں ان میں ساٹھ فیصد قبضے خود مسلمانوں نے کر رکھے ہیں۔ اس کی ذمہ داری دہلی وقف بورڈ کے وکلا اور افسران پر بھی عاید ہوتی ہے۔ وکلا عدالتوں میں مضبوط پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ وہ عدالتوں میں جاتے ہی نہیں۔ ان پر فریق مخالف سے سازباز کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ اوکھلا کے رکن اسمبلی امانت اللہ خاں کے مطابق ۶۲ مقدمات ایسے ہیں جن میں وکلا نے پیروی ہی نہیں کی اور وہ دوسرے فریقوں کے حق میں چلے گئے۔ ابھی گزشتہ دنوں سینٹرل وقف کونسل کے سابق سکریٹری ڈاکٹر قیصر شمیم کی ایک کتاب کا، جو کہ وقف قوانین سے متعلق مقالات کا مجموعہ ہے، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت دہلی کے دفتر میں اجرا ہوا۔ اس موقع پر جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی اور دوسرے مقررین نے کہا کہ اوقاف پر ناجائز قبضوں کے لیے مسلمان بھی ذمہ دار ہیں۔ بلکہ انھوں نے بھی بہت سے ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔ لہٰذا جب وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں تو وہ ان کو کیسے بازیاب کرا پائیں گے۔ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں سرسید کی معرکہ آرا کتاب آثار الصنادید کی مانند کام کرنے اور دہلی کی مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں وغیرہ کی تفصیلات جمع کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے ملی تنظیموں کو ایک ریسرچ یونٹ قائم کرنا اور اس بارے میں کام کرنا چاہتے۔
اس تعلق سے مختلف عدالتوں میں برسرکار مسلم وکلا بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ کھڑکی مسجد کے بارے میں شاہد علی خاں ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اس کی بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔ کھڑکی مسجد کا ویڈیو انھوں نے ہی وائرل کیا ہے۔ وہ ملی معاملات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دہلی میں ایسے کئی سینئر مسلم وکلا ہیں جو ملی جذبہ رکھتے ہیں اور ملت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انھی میں سینئر وکیل محمود پراچہ بھی ہیں۔ وہ غوثیہ مسجد مہرولی کے پاس ڈی ڈی اے کے ذریعے منہدم کیے گئے مکانوں کی تعمیر نو اور تیس بیگھہ آراضی کی بازیابی، بھوگل کالونی میں حکومت سے مسجد کے لیے زمین کے حصول اور مسجد کی تعمیر اور مرکزی دہلی کے جور باغ میں واقع درگاہ شاہ مرداں اور کربلا کی آراضیوں کی بحالی میں دوسروں کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ جور باغ میں چھوٹی کربلا کے لیے تین ہزار گز اور درگاہ کے اطراف میں ۶ ہزار گز زمین واگزار کرائی گئی ہے۔ دہلی میں گزشتہ پانچ برسوں میں تقریباً ۶۲ ہزار گز آراضی، جن پر قبضہ ہو چکا تھا، واگزار کرائی گئی ہیں اور ان میں محمود پراچہ کا اہم رول رہا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کو رہا کرانے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے پونہ کے جرمن بیکری بم دھماکہ کے ملزم حمایت بیگ کے خلاف نچلی عدالت سے پانچ پھانسیوں اور اتنی ہی عمر قید کی سزائیں ختم کرائیں۔ معروف صحافی محمد احمد کاظمی کے مقدمہ میں بھی انھی کی کوششوں سے کامیابی ملی۔ اگر ایسے کسی وکیل کی خدمات وقف بورڈ کو حاصل ہو جائیں تو اس سے کافی کچھ کام لیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دہلی میں بار کونسل کی رکنیت کے لیے انتخابات کی ہلچل ہے۔ متعدد مسلم امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ جن میں محمود پراچہ کے علاوہ ثاقب قریشی، سرفراز صدیقی، رعنا پروین، جمال اختر، کبیرالدین چودھری، شاہد علی اور شمس الدین چودھری کے نام قابل ذکر ہیں۔ تقریباً پچاس ہزار وکلا ۶۱ اور ۷۱ مارچ کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مسلم نقطہ نظر سے اس الیکشن کی اہمیت اس لیے ہے کہ بار کونسل کا مسلم ممبر دہلی وقف بورڈ کا بھی ممبر بن جاتا ہے۔ ایک سے زائد مسلم ممبران کے منتخب ہونے کی صورت میں انھی میں سے ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بار کونسل عدلیہ پر بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ لہٰذا اگر مختلف عدالتوں میں بڑی تعداد میں برسرکار مسلم وکلا اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ ایک متفقہ حکمت عملی بنا کر ووٹنگ کریں اور ملی جذبہ رکھنے والے امیدوار کو کامیاب بنائیں تو یہ بہت بڑی ملت نوازی ہوگی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور وائس آف امریکہ کے بیوروچیف ہیں)
sanjumdelhi@gmail.com