مدثر احمد قاسمی
جب ہم دنیا کے مختلف قوموں کے عروج و زوال کی داستان پڑھتے ہیں تو ہمیں نمایا طور پراُن میں ایک بات مشترک ملتی ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی قوم کے عروج میں حال اور مستقبل کے حوالے سے اُن کے منظم منصوبے اور اُن پرعمل در آمد کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل اگر کوئی قوم پلان سازی کے بغیر اپنے آپ کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور مستقبل کے تقاضوں سے نظر چرا کر یا بے خبر ہوکر کثیر مدتی منصوبہ نہ بنائے تو نظامِ کائنات کے حساب سے زوال کی تاریخ اُس قوم کے عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ تاریخِ انسانی کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو عقل و دانش عطا ءفرماکر نئی چیزوں کو دریافت کرنے،ترقیات کے نئے منازل طے کرنے اور طرز زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھر پور صلاحیت سے نوازا ہے،اسی وجہ سے ہر زمان و مکان میں نئی تبدیلیاں فطری عمل ہے جن کے مطابق اپنے اپنے کو ڈھالنا اور اُن سے فائدہ اُٹھانا کامیاب لوگوں کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی نئی تبدیلی کو اپنانے سے پہلے انسان اس کا مکمل طور پر جائزہ بھی لے لے اور دیکھ لے کہ کہیں اُس تبدیلی کو اپنانے سے اللہ اور رسول اللہ ﷺکے ہدایات کی نافرمانی تو نہیں ہورہی ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو اس تبدیلی کو اپنا نا ہی عقلمندی اور ترقی کی ضمانت ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم عالمِ اسلام کا با لعموم اور مسلمانانِ ہند کا با لخصوص جائزہ لیتے ہیں تو صاف طور پر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے منصوبہ بندی اور نئی تبدیلیوں کے تئیں مسلمانوںسے کافی کوتاہیاں ہوئی ہیںجسکا خمیازہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ چونکہ منصوبہ سازی قوم کے رہبروں کے دائرہ کار میں آتاہے تو ظاہر ہے کہ اس میں ناکامی کی ذمہ داری بھی انہیں کے سر ہے،اس کی وجوہات بہت ساری ہیں جو اسوقت ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔اس کے با لمقابل یہودی ،عیسائی اور کچھ دیگر قوموں نے منظم منصوبہ سازی کے ذریعہ جو غلبہ حاصل کیا ہے وہ ہم سب کی نظروں کے سامنے ہے۔خاص بات یہ ہے کہ ان کی منصوبہ بندی کا حصہ صرف یہ نہیں تھا کہ نئی تبدیلوں کو قبول کرتے ہوئے وقت کے شانہ بشانہ چلتے رہیں بلکہ اُن کے پلان کا ایک حصہ مسلمانوں کا فکری پر کترنا بھی تھا جسمیں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے اور مسلمان اس کو سمجھنے میں یا دفاعی لائن تیار کرنے میں ناکام رہے۔اسی منصوبے کی ایک عملی مثال اندلس میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ عہدِ زریں کا خاتمہ ہے ۔وہاں مسلمان اپنی منصوبہ سازی کی ناکامی اور غیروں کے منظم پلان سے نہ صرف یہ کہ حکومت گنوا بیٹھے بلکہ فکری زوال کے اس حد تک شکار ہوئے کہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔
اس تنا ظر میں جب ہم بر صغیر کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں کے مسلمانوں کو اس اعتبار سے انتہائی خوش نصیب پاتے ہیں کہ اگر چہ وہ حکومت تو نہیں بچا سکے لیکن۷۵۸۱ءکے بعد بہتر منصوبہ بندی کی وجہ سے ایمان کو بچانے میں کامیاب ہوگئے اور فکری ارتداد کے اسیر ہونے سے بھی بچ گئے۔ یقیناً یہ منصوبہ بندی تھی مدارسِ اسلامیہ کے قیام کی اور پورے ملک میں اس کے جال بچھا دینے کی۔ یہ پلان کس قدر اہمت کا حامل تھا اس کا اندازہ ہمیں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کے اِن دور بین نگاہوں کے ترجمان لفظوں سے ہوتا ہے: © “ان مدارس کو اسی حال پر رہنے دو۔اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو با لکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں کی گئی آٹھ سو سالہ اسلامی حکومت کے باوجودآج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ءکے نشانات کے سوا اسلام کے پیرو کاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔”
یہاں یہ بات تو مسلم ہے کہ علمائے ربانین کی بروقت اور بہترین منصوبہ بندی کی وجہ سے پورے بر صغیر میں مدارس اور مکاتب کا جال بچھ گیا اوراس کے نتیجے میں اسلام اپنی روح کے ساتھ مسلمانوں میں زندہ رہا اور ہے۔غرضیکہ مدارس کواولاً جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا اس میں وہ اطمینان بخش حد تک کامیاب رہا۔لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ۷۴۹۱ءمیں آزاد ی کے بعد سے اب تک حالات اور تقاضوں کے حساب سے مدارس کے ظاہری نظام میں کیا کوئی تبدیلی لائی گئی جس سے وہاں کے فضلا موجودہ ملکی ڈھانچے میں اپنے آپ کو کہیں نہ کہیں فٹ پائیں؟ اس سوال کا جواب ملاحظہ فرمانے سے پہلے اس نکتہ کو ذہن میں رکھیں کہ مدارسِ اسلامیہ کے بنیادی نظام میں تبدیلی کی ضرورت نہ پہلے تھی،نہ اب ہے اور نہ بعد میں ہوگی۔ بہرِ حال جہاں تک ظاہری نظام میں تبدیلی کا سوال ہے تو اس میں اربابِ مدارس سے کہیں نہ کہیں کچھ کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔
ظاہری نظام میں تبدیلی لانے کے تئیں منصوبہ بندی نہ کرنے کی ایک مثال مدارسِ اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علمائے کرام کو ملنے والے اسناد کا حکومتی سطح پر بے وقعت ہونا ہے۔ اس کا ایک انتہائی حوصلہ شکن پہلو یہ ہے کہ عربی، اردو اور مدارس میں پڑھائے جانے والے دیگر فنون میں ماہر ہونے کے باوجود حکومت کی نظر میںفضلائے مدارس کا شمار اَن پڑھ میں ہوتا ہے۔اس حیثیت سے آنے والے دنوں میں حکومت کی نئی پالیسی کے حساب سے اِن کو زعفرانی رنگ کا پاسپورٹ ملتا نظر آرہاہے۔ یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اتنے پڑھے لکھے لوگوں کو اَن پڑھ شمار کرنا حکومت کی غلطی ہے مدارس کی نہیں۔ایک حد تک یہ بات معقول بھی ہے لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مدارس نے اربابِ اقتدار کو یہ بتلایا ہے کہ ہمارے فضلا اِن صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں لہذا ہمارے مدارس کی اسناد کو رائج ڈگریوں کے مساوی قرار دیں تاکہ مدارسِ اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علمائے کرام بھی اپنے خاص شعبوں میں ملک کی خدمت انجام دے سکیں اور اُن پر بلا وجہ اَن پڑھ ہونے کا داغ بھی نہ لگے۔ وقت رہتے اس جانب اگر خصوصی توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں ناقابل تصور نقصان ہو سکتا ہے۔
اسی طریقے سے مدارسں اسلامیہ کے نصاب کے بنیادی ڈھانچے کو نہ چھیڑتے ہوئے ایک ضرورت یہ تھی کہ وقت اور حالات کے مطابق نصاب کو بہتر سے بہتر بنانے کی مسلسل کوششیں ہوتی تاکہ وہاں کے فضلااضافی کوششوں کے بغیر موجودہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے اور مخصوص شعبوں ہی میں سہی لیکن وہ جہاں بھی جاتے مکمل طور پر فٹ ہوجاتے۔ مثال کے طور پر معیشت کے میدان میں اس وقت ایک بڑا انقلاب برپا ہے ،تجارت کے نت نئے طریقے ایجاد ہورہے ہیں اور کیش لیس لین دین کا دور دورہ ہے۔ اب سوال یہاں یہ ہے کہ کیا ہم طلبا ئے مدارس کو فقہ کی قدیم کتابوں کے علاوہ مذکورہ نئی چیزوں کی معلومات فراہم کراتے ہیں۔ اس کا واضح جواب ہے” نہیں”۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارسں اسلامیہ کے پاس نصاب پرکام کرنے والوں کی مستقل کوئی ٹیم نہیں ہے جو ہر دو چار سال میں آئی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر نصاب کی کتابوں میں حذف و اضافہ کرسکے۔ حالانکہ پوری دنیا کی تعلیمی نظام کا جائزہ لیں گے تو آپ کو نصاب پر کام کرنے والوں کی ایک مستقل ٹیم نظر آئے گی ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ارباب مدارس الگ سے بجٹ پاس کریں اور ماہر علماءکی ایک ٹیم کو اس خدمت پر مامور کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مدارسں اسلامیہ کا مقصدبھی واضح اور ہدف بھی صاف ہے لیکن موجودہ ملکی تناظر اور زمانہ ءحاضر کے تقاضوں کے مطابق کچھ نئے فیصلے اور اُن پر عمل بھی ضروری ہے۔ ماضی میں ہمارے اسلاف نے انہی خطوط پر منصوبہ بندی کی تھی اسی وجہ سے وہ کامیاب تھے اسی لئے ہمیں بھی انہیں کے نقشِ قدم پر چل کر نئے طور پر منصوبہ سازی کی ضرورت ہے تاکہ ایک بار پھر ہم قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
(مضمون نگار معروف مصنف ،کالم نگار اور مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے سینئر استاذ ہیں)