معاذ مدثر قاسمی
ہندوستان میں دینی مدارس کا نظام دو طرح سے چلتا ہے ، ایک وہ مدارس جو حکومت سے منسلک ہوتے ہیں ، جن کے اخراجات کا صرفہ حکومت اٹھا تی ہے۔ دوسرے وہ مدارس ہیں جنہیں مذہبی ذمہ داران یا تنظیمیں چلاتی ہیں ۔ یہ مدارس حکومت سے نہ ہی منسلک ہو تے ہیں اور نہ ہی حکومت سے یہ مالی تعاون لیتے ہیں ، بلکہ انکے اخراجات کی تکمیل عوامی تعاون سے ہوتی ہے ، اس تعاون کے حصول کیلئے ذمہ داران کو خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے، ایک ایک پیسہ جمع کرکے قوم کےغریب طبقے کو تعلیم سے آراستہ کیا جاتاہے ۔ در اصل یہ حکومت کا ایک طرح سے تعاون ہے جو یہ حضرات اپنے طور پر کر رہے ہیں ۔
مادیت کے اس دور میں ہر دینی و فلاحی تنظیم تنزلی کا شکار ہے،اسکا اثر مدارس پر پڑنا لازمی ہے ۔ اس سے بڑھ کر مدارس پر حکو مت کی بری نظر ، اس کے تعاون کے بجائے اس پر طرح طرح کے الزامات ، نئے نئے قوانین کا ان کو پابند بنانا ، اور متعصب و فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے سرکاری ملازمین کا طرح طرح سےانہیں پریشان کرنے کی کوشش کرنا ، جس سے ذمہ داران مدارس میں ایک طرح کی بے چینی پا ئی جا رہی ہے۔
مدرسہ حیات العلوم فرید ی پور، پوسٹ تیری، سلطا نپور کے مہتم مولانا عبدالمتین حلیمی جو ہر سال مدرسے کے چندے کیلئے ممبئی تشریف لاتے ہیں ،انہوں نے اپنے مدرسے کے ساتھ ہو نے والے ایک ایسے حادثے کا تذکرہ کیا جس سے موقع پے موجود تمام حضرات حیرت زدہ ہو گئے اور یقینا یہ اہل مدارس کے لئےبے حد پر شان کن بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکے مدرسے کا کھاتہ نومبر دو ہزار سترہ کو بر و ڈہ ، اتر پردیش گرامین بینک، چینی مل،سلطان پور، یوپی نے اچانک بند کردیا، جس میں عوام سے ایک ایک پیسہ کر کے حاصل کی گئی ایک خطیر رقم تھی۔ تفصیلات بتاتے ہوے انہوں نے کہا کہ مدرسے کے حافظ صا حب کو دس ہزار پانچ سو کا چیک دیا جب وہ لیکر بینک گئے تو بینک مینیجر نے ان سے آدھار کارڈ لگانے کا مطالبہ کیا ، جبکہ وہ پہلے سے لگا ہوا تھا۔ اور ایک فارم دیکر پین کارڈ اور آدھار کارڈ کا لنک کرنے کے ساتھ اسے پر کنے کو کہا گیا۔ یہ کاروائی مکمل کرنے کے بعد جب پندرہ دن کے بعدمیں بذات خود دوبارہ چیک لیکر گیا تو کہا گیا کہ آپ کے مدرسے کا کھاتہ منجمد ہو گیا ہے، جب تک حکومت سے منظور شدگی کے کاغذات نہیں لا ئینگے اگلی کاروائی نہیں ہوگی ، ان سے کہا گیا کہ کہ یہ مدرسہ ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ ‘جمعیۃ القریش ایجوکیشنل سوسائیٹی’ کے زیر اہتما چلتاہے ، اس کا ہر سال ہم آڈٹ بھی کرواتے ہیں ، سارے کا غذات لے جا کر انہیں دکھلایا پھر بھی مینیجرنے کہا کہ یہ نہیں چلےگا، آپ اب پیسے ڈال سکتے ہیں مگر نکال نہیں سکتے ، اکاؤنٹ کو چالو کرانے کےلئےمدرسے کو منظور کرانا ہی پڑے گا۔اس سے میں نے کہا کہ اگر اسکو ‘دینی تعلیمی کونسل اتر پردیش’ سے منظور کراکر وہ کاغذ ات پیش کردوں تو یہ کا فی ہوسکتا ہے؟ جس پر جواب ملا کہ اسے دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہا جائیگا۔ مولانا نے کہا کہ دینی تعلیی کونسل کی منظوری کیلئے مفتی عبدالرشید سلطانپوری ابن عبد اللطیف صاحب سے با ت کی گئی ہے جس کی کاروائی ابھی جاری ہے ۔ جمع شدہ پیپر کے بارے میں جب بینک میں فون کرتا ہو ں تو کہا جا تا ہیکہ پیپر ابھی نہی دیکھا گیا ہے ، اور ساتھ میں مکمل بائی لاج جمع کرنے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ مولا نا عبدالمتین صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے جاننے والے ایک مدرسے کے ذمہ دار ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا جس کے بعد انہوں نے جب اپنا مدرسہ حکومت سے منظور کرایاتو انکے بینک اکاؤنٹ میں موجود ڈھائی لاکھ روپے کٹ گئے ، اس صورت میں کیونکر اس طرح کا خطرہ مول لیا جا ئے۔
واضح رہے کہ مولانا عبدا لمتین کے مدرسے کا بر و ڈہ اتر پردیش گرامین بینک چینی مل سلطان پور کا اکاونٹ
فریز ہوا ہے، اور مدرسے کا رجسٹریشن نمبر 468 ہے۔ ا ہل مدارس کو اس سلسلے میں ہوشیار رہنا چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی قانونی اور اصولی معلومات ہیں اہل مدارس اس سے ضرور آگہی حاصل کریں ۔





