عصر حاضر کا مسلمان اور مذہبی عقلیات

ذاکر اعظمی ندوی
آج کا مسلمان دو صندوقوں میں مقید ہے، ایک صندوق وہ ہے جس کا تعلق ان مسلمات سے ہے جو ارد گرد کے حالات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ مسلمان خواہ جنوب مشرقی ایشیا میں بستا ہو یا اسکا تعلق مشرق وسطی یا دیگر عرب ممالک سے ہو، اسلام پسند ہو یا لبرل فکر کا علمبردار بقول انڈونیشیا کے معروف مفکر اولی الابصار عبد اللہ “مسلمان ‘ہم’ اور ‘وہ’، یا ‘حزب اللہ’ اور ‘حزب الشیطان’ کے ما بین جو حد فاصل کھیچتا ہے وہ ایک ایسا اجتماعی مہلک مرض ہے جو اسلام کے اصول ومبادی اور اسکی اعلی قدروں کو تباہ وبرباد کردے گا”، یہی وہ قدر مشترک ہے جو سارے عالم میں بسنے والے مسلمانوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ دوسرے صندوق کا تعلق ان تصورات سے ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے اس مسلمان سے جو مختلف الخیال عقیدے کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مسلکی اعتبار سے بھی ہم خیال نہ ہو تو اس کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہونے چاہئے؟
در اصل یہ دونوں صندوق بہت قدیم ہیں، اور جو کچھ ان کے اندر ہے وہ موروثی ہے، اس میں کوئی ایسی شے نہیں جو عصر حاضر کی پیداوار ہو، بلکہ حقیقت تو یہ ہے موروثیت امت مسلمہ کے خصائص میں سے ہے جس سے کوئی بھی مسلم سوسائٹی بری نہیں۔ دوسرے لفظوں میں موروثیت آباء واجداد کی اندھی تقلید سے عبارت ہے جس کے خلاف قراں حکیم میں بارہا سخت وعیدیں آئی ہیں، اور اسے گمراہ قوموں کا شیوہ کہا گیا ہے۔
یہ مطلق اتباع اور آباء کی اندھی تقلید کا مرض آج کے مسلم معاشرہ میں اس قدر سرایت کرگیا ہے کے اس کے خلاف آواز اٹھانا برہ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ نہ تو ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ روشن خیالی کا مظاہری کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ان بھائیوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں جو ہم سے مختلف آراء رکھتے ہیں۔ بقول ابن حزم “جو شخص صرف ایک عالم کی اتباع کرتا ہے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ، اور اسکی مثال اس شخص کی ہوگی جو ایک ہی کنویں سے پانی پیئے، اور مٹھاس کو چھوڑکر کڑواہٹ کو اختیار کرے”۔
یہ صندوق در اصل ہماری زندگی میں دو خطرناک رول ادا کرتے ہیں (1) دوسروں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا (2) علمی وفکری تحقیق کو شدید نقصان پہچانا بایں طور کہ اگر کوئی شخص ان دونوں صندوقوں کے اندر پائے جانے والے غلط افکار کے تعلق سے بحث و تحقیق کرنا چاہے تو اس راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ جب کی حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں صندوقوں کے آفات سے بچنے کا واحد راستہ ان میں پائے جانے والے افکار کا غیر جانبدارانہ تجزیہ مسلم معاشرہ کو ان سے نجات دلانے کا اہم ذریعہ ہے۔ جن معاشروں میں علمی تحقیق میں مشغول افراد کے ساتھ ظالمانہ وسفکانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ماضی کی غلطیوں اور اسلاف کی لغزشوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے غلطیاں در غلطیاں کرنے پر بضد رہتا ہے۔
انسانی سوسائٹی کا مزاج یہ ہے کہ وہ دو صورتوں سے دوچار ہوتی ہے (1) تقلید جو بنی نوع انسان پر ہمیشہ غالب رہی ہے (2) ایجادات و انکشافات جو انسان معاشرہ میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے، جب کوئی قوم اس دوسری حالت کو اپنا تی ہے اقبال وسربلندی اس کے قدم چومتی ہے۔ اگر ہم ماضی میں مسلمانوں کی ان دونوں حالتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ہماری تاریخ کا بیشتر حصہ جمود و تعطل سے عبارت رہا ہے، اگر ہمیں اپنی صورتحال کو بہتر بنانا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ تقلید کی بھیڑ کے ساتھ چلنے کے بجائے اس شاذ ونادر والی راہ کو اپنائیں جس پر چل کر کبھی ہمارے اسلاف نے اپنی عظمت کا لوہا منوایا تھا اور جس پر چل کر آج مغرب ہماری بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہے، اور ہر محاذ پر ہم اسکے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔
جدت وایجاد انسانی معاشرہ کے دو بازو ہیں، دایاں بازو آزادیء فکر سے عبارت ہے جب کہ بایاں بازو علمی بحث و تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ غیر جانبدار وآزاد تحقیق ہر زمانے میں عقل کے تالے کو کھولنے کی کنجی رہی ہے، اور جب سے ہم نے اس کنجی کو کھویا تقلید آباء اور جمود وتعطل کے مزمن مرض نے ہمیں ناکامیوں کے ایسے دلدل میں پھیک دیا جہاں سے نکل پانے کا ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔
آج مذہبی موروثیت ہر میدان میں ہماری علمی وفکری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور جب تک ہم تقلید کے اس بت کو پاش پاش نہیں کر دیں گے، اور “انا وجدنا آبائنا کذلک یفعلوں” کے سحر سے نکل کر “لم نسمع بہذا فی آبائنا الاولین” کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گے اس قفل کو کھولنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے جس کی چاپی عرصہ ہوا ہم سے کھوگئی ہے۔(ملت ٹائمز)

SHARE