مسلمانوں کی ملی و سیاسی زندگی کی صورت حال: احتشام الحق آفاقی

احتشام الحق آفاقی

آئے دن کوئی نہ کوئی خبر ایسی آتی ہے ، جس میں کہا جاتا ہے ، کہ مسلمانون کو ملی وسیاسی زندگی میں تبدیلی لانی ضروری ہے، ان کو اپنا سیاسی طریقہ بدلنا ہوگا ، ملی طرز عمل میں تبدیلی لانی ہوگی ، آخر کیوں؟ مسلمانوں کو ملی و سیاسی زندگی میں تبدیلی ،آخر و ہ اپنا سیاسی طریقہ کیوں بدلیں ؟ آخر مسلمان اس طرز عمل اور طریقہ کو بدل کر کون سا طریقہ اپنائیں گے ، وہ کس طرز عمل پر گامزن ہوں گے ؟ آخر ا س کو بدلنے والا عمل کون کرے گا ؟ آخر کوئی تو ہوگا جو مسلمانوں کی ملی و سیاسی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے یکسو ہوگا ، کیا سیاسی میدان میں مسلمانوں کو متحد ہونا ضروری ؟ کیا اب تک ہمارے سیاسی قائدین کو اس بات کی خبر نہیں تھی ، کہ ہمیں متحد ہونا چاہئے؟ لیکن اب تک وہ متحد کیوں نہیں ہو ئے ؟ آخر وہ کب متحد ہوں گے ؟ اس کو متحد کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم کون آگے بڑھائے گا ؟ کیا ان کے متحد کرنے سے ہم متحد ہو جائیں گے ؟ کیا ہمارے سیاسی قائدین کے اندر دردِ قلب ہے ؟ اگر ہے تو وہ کب دکھے گا ؟ ہماری ملی زندگی میں تبدیلی کیوں کر ہوں؟ کیا ہم میں سے ایک ایک فرد ذمہ دار نہیں ہے ؟ اگر ہے تو اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھیں گے ؟ اور اس کو کیسے سمجھیں گے ؟ آخر اس کو کس غرض کے تحت سمجھیں گے ؟ سب سے پہلے میں شام کے تعلق سے کچھ گفتگو کروں گا ، کیا شام میں پیش آنے والا اس درد ناک اور الم ناک حادثہ سےملت اسلامیہ کے قائدین بے خبر ہیں ؟ جس طرح وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے اور انھیں ملک بدر ہونے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ، کیا یہ وقت کا تقاضا نہیں کہ مسلم قائدین بیدار ہو جائیں ، شام کا شمالی حصہ شہر حلب بدستور لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے ،اس شہر کی شاید ہی کو ئی عمارت ایسی ہو  ، جو تباہی سے بچی ہو  ، وہان پر بسنے والے مظلومین کو ہر طرح کی قلت کا سامنا ہے ، آخر اس ظلم پر روک لگانے کے لئے ملت اسلامیہ کے دم بھرنے والے قائدین کب بیدار ہو ں گے؟ اور شامیوں کو انصاف دلائیں گے ، نائیجریا کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہورہا ہے ، کیا وہ قابل دید ہے ؟ عراق و ایران جس کش مکش سے گزر رہا ہے ،آخر ان کے مسائل کب حل ہوں گے ؟  تاتارمیں  جو مسلمانوں کو بالکل ہی صفایا کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہے ، کب تک ہم اس کو برداشت کرتے رہیں گے ؟ اور کب تک ہم معصومیت سے اسے دیکھتے رہیں گے ؟ فرانس میں جو مسلمان گزشتہ چند مہینوں سے غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں  ، ہماری نظر اس طرف کیوں نہیں ہیں ؟ پاکستان ، ترکستان اور مصر میں جو گندی سیاست کی بیج بوئے جارہے ہیں، اس کو ہم اتنا سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہے ہیں؟ ہندستانی مسلمان جس خوف و گھبراہٹ کا شکار ہے وہ کب بیدار ہوں گے ؟ اور اپنے مسائل کی گتھیاں کب سلجھائیں گے ؟ کب یہ ایک پلیٹ فارم پر ایک سواری پر سوار ہونے کے لئے جمع ہوں گے ؟ اس میں کوئی شک نہیں ، کہ اب ہمارے مسائل کانفرنسوں اور اجلاس تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں ، ان کو سلجھانے کے لئے کوئی بھی مستحکم کوششیں نہیں کی جاتی ہیں ، ہمارے سیاسی قائدین نے اس کو پارلیمنٹ اور ایوانوں تک ان مسائل کو محدود کردیا ہیں، ہمارے مفکرین اور اسکالرس نے ان کو اپنے مضامین اور کتابوں میں قلمبند کردیا ہے ، ہمارے علماءنے ان کواپنے مسجدوں اور درس گاہوں تک محدود کردیا ہے ، یہیں پر بس نہیں ہم طلباء نے تو اس کو اپنے درسیات تک سمیٹ دیا ہے ، آج جب کہ ضرورت ہے, ہمارا قائد حضرت عمررضی اللہ عنہ اور صلاح الدین ایوبیؒ جیسا ہو ، محمد بن قاسم جیسا جانباز ہو، محمود غزنوی ؒ جیسا انصاف پرور ہو، جو حق کی بازیابی کے لئے کسی کانٹے کی پرواہ نہ کرے ، جو ایمان بیچنے کے بجائے اس کو دوسروں تک پہونچانے میں پیش پیش رہے، آج ہمیں بے باک قائد کی ضرورت ہے ، آج ہمیں فعال قائد کی ضرورت ہے نہ قوال، آج ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہیں، جو قوم مسلم کی ضرورت کو پورا کرے ، جو سیاست اور اسلامیات کو اپنی اپنی جگہ فروغ دے، جو انسانیت کو بچانے اور اس کو راہ راست پر لانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے ، امت مسلمہ اور تمام عالم انسانی کو بچانے کے لئے سرگرداں رہے اور انسانیت کو انسانیت کا درس دے ، تمام انسانوں کو ایک راستہ پر لائے ، وہی راستہ جس کو اللہ کے نبی ﷺ نے دنیا کے سامنے رکھا اور جس کی بنا پر علماء کو انبیاء کے وارث ہونے کا مژدہ سنایا گیا ، آج ہم طلباء کو ایک ایسا طالب علم بننا چاہئے جس کے اندر قومی انحطاط کو پہچاننے کی پوری پوری صلاحیت ہو ، ہم اپنی قوم کو زوال کی پستی سے نکال کر عروج تک پہوچانے میں بھی خو ب آشنا ہوں ، ہم طلباء تنگ نظری سے کوسوں دور ہوں ، ہم خود کو قوم مسلم کی تابناک مستقبل سمجھتے ہوں ، جراءت ایوبی و کردار ٹیپو ہمارے سینوں میں رہ رہ کر درد ملت جوش مارتا ہو، ہم میں ہر کریکٹر کی اداکاری کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، ہم طلباء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مکمل زندگی کو اپنے لئے ایک آئیڈیل مانتے ہوں ، اور ہماری قوم ایسی ہو جائے اطاعت خدا و اطاعت رسول سے شرسار ہو جائے ، اپنے علماء کی فرمانبرداری کریں اور اپنے حاکموں کی اطاعت گزاری کریں ، اپنے علماء کی نافرمانی نہ کرے اور اپنے حاکموں کی غلطیوں پر جائز طریقے پر ان کے اصلاح کی ہر ممکن کوشش کریں ، اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں ، کسی بھی صورت حال میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں ، اپنے ایک بھائی کے درد کو اپنا درد سمجھیں، اپسی اتحاد کو برقرار رکھیں، ملت کے شیرازہ کو منتشر ہونے سے بچالیں ، اپنے اندر عزم استقلال پیدا کریں اور حقیقی معنوں میں یہی مسلمانوں کی ملی و سیاسی زندگی میں تبدیلی ہےملت ٹائمز) ۔(

SHARE