قاری نسیم احمد منگلوری
اترپردیش حکومت کے ذریعہ ملک کے اہم تاریخی ،قدیم شہرت یافتہ شہرالہ آبادکانام بدل دیاہے۔جسے مسلم دور حکومت میں بھی ایک خاص مقام حاصل رہا،دورشاہ جہاںمیں الہ آباد ایک مستقل صوبہ حیثیت حاصل کئے ہوئے تھا،جس کے تحت دس سرکاریں چلتی تھیں، آزادی کے بعد بھی اپنی خصوصیت کی وجہ سے یہ ملک کے دوسروں تمام شہروں سے ممتاز اورایک خاص مرتبہ کاحامل رہاہے۔مگرحیف صدحیف اترپردیش حکومت نے بڑی عجلت کامظاہرہ کرتے ہوئے اس تاریخی اورقدیم شہرکا نام بدل دیاہے۔جس کے بعدملک کے دوسرے تاریخی مقامات اوربستیوںکے نام بدلنے کی صدائےںبلند ہونے لگی ہےں۔اسی درمیان ایک اورقدیم آوازنئے اندازمیں ابھرکرسامنے آئی ہے کہ یہ غلامی نے نشان مٹانے ہیں ۔شوسل میڈیاپران غلامی کے نشانوں کی نشاندہی بھی کی جارہی ہیں،جن میں مسلمانوں کی قدےم مساجد ،عےدگاہِ،قبرستان اوروہ بستیاںمیںجن میںمسلم نام شامل ہیں۔وہیں بی جے پی کے چندنام نہادسیکولر لےڈروں کا کہنا ہے کہ ےہ صرف افواہ ہے،بی جے پی کاایساکوئی منصوبہ نہیںہے۔مگر اس بات پر کےسے ےقےن کرلےا جائے کےونکہ 6دسمبر1992سے قبل بی جے پی کی طرف سے واضح طورپر کہا گےاتھا کہ اےودھےامیں مندربناناہماری ذمہ داری نہیں صرف راستہ ہموار کریں گے اور پھر قومی ےکجہتی کاﺅنسل ،پارلیمنٹ،ہائی کورٹ ،سپرےم کورٹ ہرجگہ بابری مسجد کی عمارت کی حفاظت کرنے کا ےقےن دلانے کے باوجود جوکچھ ہوا جس طرح بابری مسجد کو منہدم کےا گےاوہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
حالانکہ ےہ تحرےک بے جے پی نے ہی شروع کی تھی،جوکہ عملی طورپرکامیاب بھی ہوئی اورطویل انتظارکے بعدبی جے پی کواقتداربھی مل گیا۔چارسال کے اس دوراقتدارمیںملک کے حالات کہہ رہے ہیں کہ اب اگر بی جے پی کوپھرسے اقتدارپرقابض ہوناہے تو بی جے پی کو وہی کرناہوگا جو وشوہندوپرےشد ،بجرنگ دل ،سادھوسنسد اورآرایس ایس کا جوفےصلہ ہوگا اسے ماننا پڑے گا ،چاہے ملک کاخسارہ کتناہی کیوںنہ ہو۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے لئے بی جے پی ہروہ کام کرسکتی ہے جسکاتصوربھی نہیںکیاجاسکتا۔رہامسئلہ نام بدلنے یاغلامی کے نشان مٹانے کا تواس ضمن میں تارےخ کے بہت سے اوراق پلٹنے پڑیں گے ۔سابق ایم ایل سی مرحوم خان عبدالودودخاں کے مضامین کاگلدستہ ”ہم نے کیاکھویاکیاپایا“جسے راقم الحروف نے ترتیب دیا،میںخان صاحب لکھتے ہیںکہ 1193عیسویں میں تھا نےسر کی جنگ کے بعد شہاب الدےن محمدغوری نے دہلی پر حکومت قائم کی اور اسکے واےسرائے ےانائب کی حےثےت سے شہاب الدےن کے غلام قطب الدےن اےبک سے اس سلطنت کا سلسلہ شروع ہوا۔1193 سے1857 تک تقرےباً سات سوچونسٹھ (764) سال کی حکومت اور پھرہندوستانی معاشرہ میں اس طرح گھل مل کر زندگی گذاری کہ ےہ اےک مشترکہ معاشرہ بن گےا،جس قدرترقی ہوسکتی تھی،ملک کی بہتری کے لئے بلالحاظ مذہب وملت قوم وبرادری سب کے لئے پورے ہندوستان اور ہر ہندوستانی کے لئے ملک کی ترقی کے لئے جو کچھ ہوسکتاتھا کےاگےا،سب کو برابرکا حصہ دےاگےا، سب کے فائدے کی بات کی گئی ،ملک کاہر کونہ ہرگوشہ اس کا شاہد ہے کہ ےہ اےک بہترےن قومی ےکجہتی کادورتھا۔ملک کی کوئی ترقی اےسی نہیں جس میں مسلمانوںکا ہاتھ نہ لگاہو،اورآج بھی اس ملک کی ہر ترقی میں ہم شرےک ہیں،جس طرح ابوالفاخرزین العابدین عبدالکلام (اے پی جے عبدالکلام)جےسے سائنسداںکی وجہ سے ہندوستان کی ،اےٹمی رےسرچ ترقی مےزائےل ،سب میں اےک مسلمان کی کوشش ہے،انٹارٹےکا کی تحقےق وہاں نظام قائم کرکے ٹےم بنانا ،اےک مسلمان ظہور قاسم کاکمال ہے، روبٹ کے سلسلہ میں اےکچودہ سالہ نوجوان ساری دنےامیں مقابلہ پرکامےاب ہوا، سونے کا طمغہ جےت کرلاےاہے ،اظہر الدےن نے کرکٹ ،شکےل الرحمن نے ہاکی میں ہندوستان کانام روشن کےا۔ آج بھی ماضی کی طرح ہندوستان کی ہر ضرورت پوری کررہے ہیں۔حکےم اجمل ،خاں مرحوم نے آےوروےدک ےونانی طرےقہ چلاےا ،حکےم عبدالحمےد ےونانی طبی ےونےورسٹی بنادی ، اسلامک رےسرچ ادادہ مثال بناکر دےنا میں ہندوستان کا نام بلند کردےاہے،کون ساپلاننگ کمےشن اےساہے جس میں مسلمان آگے نہ رہاہو، اور پھر پوری طرح ملکر رچ بس گئے تو پھرےہ تو ملکی سماجی،بہتری ،بھائی چارہ اور قومی ےکجہتی کے نشان ہوئے ،غلامی کے نشان کس طرح ہوگئے۔
اب سوال ےہ ہے کہ کس کس غلامی کے نشان (اگر وہ غلامی کے نشان ہیں )کو مٹاےاجائے گایانام بدلا جائے گا۔مسلمانوں کے آنے سے پہلے سارے ملک میں اےک مشترکہ سکہ ےاپےمانہ نہیں تھا، کسی چےز کی مستقل قےمت نہیں تھی ،کپڑا بننے والے کوگےہوں چائےے توگےہوں والااپنی مرضی کے مطابق سوداکر تاتھا، یہ پورے معاشرہ کا حال تھا،ہراےک اپنی ضرورت کے مطابق سوداکرتاتھا، علاﺅ الدےن خلجی وہ پہلا حکمراں ہے کہ جس نے قےمت متعےن کی قےمتیں اور پےمانے مقرر کئے،باقاعدہ سکہ چلاےاسکہ ڈھالنے کے مختلف مراکز بنے،اسی وقت سے ےہ سلسلہ شروع ہوا، سولہ (16)آنے کا اےک روپےہ، سولہ (16)چھٹا نک کااےک سےر ،سولہ (16)گرہ کا اےک گز،سولہ (16)بسوانی کااےک بسوا ،سولہ(16)بسواکا اےک بےگھہ۔ےہ عمل آج بھی رائج ہے ۔ وزیر اعلیٰ یوگی سمیت ان تمام فسطائی طاقطوںسے سوال ہے کہ ےہ علاﺅالدےن کا اےجاد کردہ ،طرےقہ کےاےہ غلامی کا نشان ہے اوراب اسکو مٹاکر آپ پھر وہی پرانا طرےقہ گےہوں سے کپڑے والا دورکب واپس لائیں گے۔تغلق نے داراسلطنت دہلی سے دولت آباددےوگری لے جانا چاہا دہلی سے دولت آبادتک دےوگری تک عظےم شاہر اہ بنائی آج سب اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں،شےرشاہ سوری نے کلکتہ سے دہلی ہوکر پشاورتک عظےم شاہراہ بنائی ےہ آج بھی موجو د ہے ،ڈاک کا اےک عظےم نظام اےسا قائم کےاتھا کہ کلکتہ کا خط دہلی چوتھے دن پہنچ جاتا تھا ےہ سلسلہ اور شاہر اہ آج بھی قائم ہے ،اور سب ہی اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں، تغلق نے دہلی میں جب پانی کی تنگی تھی کی وجہ سے گنگاجمنا سے کاٹ کر نہر نکالی جس کا پانی راجستھان تک پہنچا ےاگےا۔ےہ نہر یں آج بھی موجود ہیں ،ان سے ہرہندوستانی کو فائدہ ہورہاہے ،سڑکوں پر دوراہوں پردرخت اور پھلداردرخت ےہ بھی اسی دورکی نشانی ہیں اور اُس دورمیں بھی ،آج بھی ان سب سے ہرطبقہ کے افراداستفادہ کرتے ہیں، مسلمانوں ہی کےلئے ےہ چےزیں مخصوص نہیں تھیں اورنہ ہے۔اب بتائیں کہ ےہ دوستی کے نشان ہیں ےاغلامی کے اور اگر غلامی کے ہیں تو ان نشانات کو آپ کب مٹائیں گے ؟ تغلق نے ہندوستان پر حملہ کرنے والے چےنےوں کی سرکوبی کی اورچےنےوں کو سنکےا نگ تک دھکےلاواپسی پراشو کاکی اےک لاٹ جس پر مہاتمابدھ کے فرامےن درج ہیں وہ پتھرکی تقرےباً150فٹ لمی لاٹ اس زمانے میں سےکڑوں بلکہ ہزاروں مےل کا فاصلہ طے کر کے حفاظت کے ساتھ لاکر دہلی کے کوٹلہ فےروزشاہ میں تقرےباً70گز اُونچی عمارت کی چھت پر لاکر فتح کے نشان کے بطور لگائی لاٹ راجہ اشوک کی اور اس پر فرامےن بدھاکی ،اسطرح ہندومذہب وتہذےب کو زندہ کےا۔یہاںاس بات سے قطعی انکارنہیںکیاجاسکتاکہ اےک مسلمان بادشاہ نے ہندوتہذےب کو زندہ کےا،کھوےاہوا اےک عظےم سرماےا واپس ہندوستان لاکر محفوظ کےا آج بھی وہ لاٹ کو ٹلہ فےروزشاہ میں محفوظ ہے ےہ دوستی کا نشان ہے ےاغلامی کا اور اگر غلامی کا نشان ہے تو اسے کب مٹاےاجائے گا۔عمارت ،سڑکیں ،سب موجود ہیں ،اب ذراملا حظہ فرمائیں کہ تربےننی سنگم کے پاس سومےشورناتھ مہادےوکامندرہے اس مندر کےلئے حضرت اور نگزےب ؒ کا فرمان ہے۔” اس مندر کے پجاری کو بھوگ لگانے اور پوجاکے کاموں کےلئے جاگےرمیں دوگاﺅں دیئے جاتے ہیں“
بنارس کے جنگم باڑی شےومندر کے لئے مختلف اوقات میں اورنگزےب ؒ نے چار فرمانوں کے ذرےعہ جائدادزمےن عطاکی ،لگان سے معافی بھی دی گئی تھی ،اس کے علاوہ مہاکال مندراجےن ،بالاجی مندر،چترکوٹ،کاماکھےہ مندر ،گوہاٹی جےن مندر گرنالہ،دلواڑ مندر،آبوتروپتی مندر(جہاں آج تروپتی ےونےورسٹی بھی اس مندر کے تحت بنی ہوئی ہے )گرودواررام رائے دہرہ دون ،ٹھاکرجی مندر ہری دور،مسرک مندرسےتاپور(جہاں پوران لکھے گئے)نےم شارمندر سےتاپور(جہاں وےدازلکھے گئے )ان سب مندروں کو اور نگزےبؒنے زمےن،گاﺅں ،جائدادیں اور روپےہ دےابلکہ اےک خط میں توےہاں تک لکھا ہے کہ” ٹھاکرجی کو بھوگ لگاکر پرارتھنا کی جائے کہ ان (اورنگزےب ؒ )کے خاندان میں تاقےامت حکومت بنی رہے“۔ان مندروں کو جوجاگےریں دی گئیں اوراکبرآبادکے ےعنی آگرہ کے اچھترہ قصبہ کے کسانوں اور زمےں داروں کو اےک فرمان کے ذرےعہ حکم دےاگےاتھاکہ سترہ(17)بےگھہ زمےن بنالگان مندرکے پجاری شےتل داس بےراگی کو دھرمادے میں دی جاتی ہے تاکہ وہ دےوتاکے بھوگ اور ٹھاکر جی کابوجھ برداشت کرسکے ،اچھےترا بازارکے چودھرےوں کوحکم دےاگےا کہ ہرگاڑی پرپاوسےراناج ٹھاکرجی کے نام کارکھ کر بےراگی جی کو دے دےاجائے ،ا س حکم کی توثےق احمد شاہ نے 1754میں کی ۔(یہ حوالہ جات ڈاکٹر پنڈت بشمبرناتھ پانڈے (سابق اےم پی وگورنر) کی کتاب ”قومی ےکجہتی “سے ماخوذہیں)اس کے علاوہ پنڈت بشمبر ناتھ پانڈے نے اےک حوالہ ےہ بھی دےا ہے کہ اےلفنشن نے اپنی کتاب میں ےہ حوالے دیئے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے دورمیں ہندﺅں کے مندروں دھرم شالاﺅں کی حفاظت کی جاتی تھی ،مندرابن گوردھن اور متھرا کے مندرروں کوشاہی خزانوں سے مستقل مدددی جاتی تھی یاان کی تعمےر میں بھی سرکاری خزانوں سے مددہوتی تھی،متھراضلع کے گوردھن میں ہری دےوجی کا مندرہے جو1500 میں بناہے اسکے لئے بھی جاگےردمعافی کا فر مان ہے ،گورکھ ناتھ مندر گورکھپور۔ےہ اےک چھوٹاساکچی چھت کا مندرتھا، جب نواب آصف الدوالہ گورکھپورگئے توہاں جامع مسجد اور امام باڑہ کےلئے سواسوالاکھ روپےہ دےا،اور گورکھنا تھ مندر کو ڈھائی لاکھ دےا،جب لوگوں نے مندرکو ڈھائی لاکھ دےنے کی وجہ پوچھی توجواب دےاگےاکہ شےعوں کو امام باڑہ ،سنےوں کی مسجد کے لئے ڈھائی لاکھ دےاہے اورمندر کے لئے ےکجاڈھائی لاکھ روپےہ دےاہے ،(ےہ بھی اےک رواےت ہے کہ اےک مورتی بہت قےمتی نگےنہ جڑی وہ بھی مندرکودی گئی جو گورکھ ناتھ کی بتائی جاتی ہے )مگر اس کا تحرےر ثبوت ہے کہ روپےہ دےاگےااور37گاﺅں بھی دیئے گئے ،مندرکے لئے کافی وعرےض زمےن دی گئی جس پر آج گورکھ ناتھ مندراورپورابازار، گےتاپرےس وکپڑے کاکارخانہ سب موجودہے ،لکھنو¿میں جب عےدگاہ بنوائی گئی تونواب اودھ نے سڑک کے اےک طرف عےدگاہ کے لئے زمےن اور سولاکھ روپےہ دےا اوراس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف رام لےلامےد ان کے لئے وسےع عرےض زمےن کے علاوہ سوالاکھ روپےہ اور انتظام کےلئے گاﺅں بھی دیئے۔ ےہ بھی دستاوےزی ثبوت موجودہے اس کے علاوہ اسی لکھنو¿میں ہنومان مندر اور اکھاڑہ اسکی زمےن بھی نوابےن اودھ کاتحفہ تعمےر کے لئے روپےہ اور انتظام کے لئے جاگےریں بھی دی گئیں ،اگر سب کوچھوڑکران فسطائی طاقتوں سے صرف گورکھ ناتھ مندر،عےدگاہ ہنومان اکھاڑے کے لئے سوال کیاجائے کہ ےہ محبت خلوص اور دوستی کے نشان ہیں ےاغلامی کے اور اگرغلامی کے ہیںتوان غلامی کے نشانوں کو کب مٹائےنگے ،بابری مسجد توگروادی، اب ان غلامی کے بقےہ نشانوں کےلئے کےا فےصلہ ہے،ےہ سوال شیوسیناکے ذمہ دران سے بھی کیاجاسکتاہے کہ شےوسےنابناکر اسکا سب سے بڑاپروگرام مسلمانوں کی مخالفت ہے،مسلمانوں کے قتل اور انتہاےہ کہ ماضی میںٹھاکرے جی کاحکم تھاکہ مہاراشٹرخصوصےت سے بمبئی کو مسلمانوں سے خالی کرالےاجائے اور اس طرح ملوں فےکٹرےوں میں مسلمانوں کوملازمت نہ کرنے دی جائے۔شیوسیناوالوںسے یہ بھی سوال کہ آپ شےواجی سے اپنے آپ کو وابستہ کرکے مسلم مخالف ذہنیت کوپالے ہوئے ہیں۔کبھی اس پر غورکرلیں کہ شےواجی کا خودکاطرزعمل کےاتھا،اگر مسلمان شےواجی کاساتھ نہ دےتے توشاےد شےواجی کانام تارےخ میں ابھرتابھی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ شےواجی کے دادامالوجی احمد نگر (مسلم رےاست )کے دربارمیں اےک مشہورفوجی کمانڈ ر تھے ان کی شادی کے دس سال بعد بھی اولادنہیں ہوئی ،ان کو فکر ہوئی ہندومذہب میں بھی اسے اچھانہیں سمجھاجاتا جس کے گھر میں اولاد نہ ہو اور خصوصےت سے بےٹانہ ہوبہت علاج معالجہ ہوا،کئی تےرتھ کئے گئے مگر گودخالی رہی کسی نے مشورہ دےاکہ احمد نگر قلعہ کے باہر شاہ شرفؒ کے مزارپر جاکر دعامانگومرادپوری ہوگی،مالوجی نے درگاہ پر حاضری دی، اس وقت کے سجادہ آستانہ نے دعادی، مالوجی واپس آئے پروردگارکاکرشمہ کہ سال بھر بعد پہلابےٹا ہوامالوجی نے کہاکہ شاہ شرفؒ کی دعاسے اولادملی ہے ،اسکانام شاہ جی رکھاجائے گا، دوسرے سال پھر اےک لڑکا ہوا اس کانام شاہ شرف کے نام پر شرف جی رکھاگےا۔
شےواجی مہاراج انہی شاہ جی کے بےٹے تھے ،شےواجی جب جوان ہوئے ،مغل دربار میں پےش ہوئے ان کو جومنصب ملاوہ ان کی امےد کے مطابق نہیں تھا وہ اورنگزےب ؒ کے مغل دربار سے الگ ہوگئے اورپھر اپنی حکومت قائم کی مگر پہلافوجی دستہ جوبنا یااس میں اکثرمسلمان ہی شےواجی کے ساتھ تھے،پھر شےواجی کی مستقل فوج جب بنی تو اس وقت بھی اس فوج کاکمانڈ رانچےف سلطان محمدخاں تھاجوآخرتک رہا،شےواجی کے بحری فوج کے کمانڈر دولت خاںاور سہرنگ خاں تھے، جس وقت پدم ورگ پرحملہ ہوادولت خاں سہر نگ خاں نے مزےد فوجی ا ور خزانہ کی فراہمی کے پےغام بھےجے ،شےواجی نے اپنے اےک سردار صوبےدارجےواجی وناےک کوہداےت دی کہ فوراً کمک بھےجی جائے رسداورروپےہ بھےجاجائے، مگر جےواجی وناےک نے سےدی سردارجس نے پدم ورگ کامحاصرہ کررکھاتھااس سے اندرخانہ رشوت کے کر مدد نہیں کی جس پر شےواجی نے سردربار جےواجی سے کہاکہ تم نے ہندو(مےرے ہم مذہب اور برہمن )ہوکر بھی دغاکی، جب کہ مےرے مسلمان بحری فوج کے سردا رکتنے وفادارتھے کہ سےدی کے مقابلہ پر (جوکہ مسلمان تھا)اپنی جان پرکھےل کر پدم ورگ کی حفاظت کی ،تم سمجھتے ہوکہ براہمن ہومیں تمہیں معاف کردوں گا،ہرگزنہیں شےواجی نے اسی لمحہ اس سردار جےواجی کوبرخواست کرکے قےد کردےا اور سخت سزادی ۔سورت کی جنگ میںاےک مرہٹہ سردار دربارمیں حاضر ہوا،اور کہاکہ میں شےواجی کی خدمت میں اےک ناےاب تحفہ لاےاہوں ۔ےہ اےک خوب صورت عورت ہے جو وہاں کے اےک مسلمان سردار کی بےوی ہے ،اس پر شےواجی نے انتہائی غضب ناک آوازمیںکہاتم نے نہ صرف اپنے مذہب کی توہےن کی ہے، بلکہ اپنے مہاراجہ (شےواجی )کے ماتھے پرکلنک لگادےا۔اس سردار کو سزادی اور اس لڑکی کو ماں کہہ کر مخاطب کےا پھر اس عورت سے کہاےہ لومےری تلوار اگر مےری نےت میں فرق دےکھاتوےہ تلوار مےرے سےنہ میں بھونک دےنا اورپراتھنا (دعا)کی”بھوانی ماں شےواگنہ گارہے اسے معاف کردو“۔اےک فوجی دستہ کے ساتھ تحائف دے کر اسے واپس اس کے شوہر کے پاس بھےجااور اس کے شوہر کو خط لکھاجس میں اس سردار کے غلط طرزعمل کے لئے معافی مانگی چندہی دن بعد اس عورت کاشوہر بہلول خاں شےواجی سے ملا اور پھر شےواجی کے دوبار سے وابستہ رہا،شےواجی کی حکومت کی حدود میںمسلمانوں کو صرف ملازمت ہی نہیں دی گئی ،بلکہ قاضےوں کی عدلتیں بھی قائم کی گئیں تھیں ،اور نائب قاضی بھی جن کا کام مذہبی معاملات کی نگہداشت نکاح پڑھاناہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدمات پر فےصلہ کرنابھی تھا۔ فےصلہ پر تعمےل کاحکم شےواجی کی طرف سے جاری ہوتاتھا،اتناہی نہیں خود شےواجی کاسخت حکم تھا کہ مسجدیں نہ توڑی جائیں، درگاہوں کی حفاظت کی جائے۔اگر کہیں کوئی قرآن شرےف ملے تو وہ ہمیں لاکردے اور و ہ قرآن شرےف شےواجی ادب کے ساتھ قاضےوں کودےدےتے تھے ،مسلمان عورتوں، بچوںکا بہت خےال رکھنے کا حکم تھا، شےواجی کو جب بھی موقع ملتا حضرت شاہ شرفؒ کی درگاہ میں بھی حاضری دےتے تھے ،خودشےواجی باباےاقوت سہروردی ؒ کے بہت قرےبی مرےدتھے ،ہمےشہ جنگ پر جانے سے پہلے باباےاقوت ؒکی خدمت میں حاضر ہوکر کامےابی کی دعائیں لےتے تھے،باباےاقوت سہروردیؒ کے آستانہ کےلئے 652اےکڑزمےن بطور جاگےردی اور اےک بہت بڑی خانقاہ بھی بنوائی، اپنے اےک فرمان میں جہاں ےہ زمےن دی خودلکھاہے ”باباےاقوت بہت تھوردے“باباےاقوت بہت بڑے صوفی اور سب سے بڑے وقت کے عالم پےر ہیں،اےک دوسرے مسلم صوفی جوپاڑگاﺅں میں رہتے تھے جن کانام صوفی بوامشہور تھاشےواجی ان کے بھی معتقد تھے اور کرناٹک کے مورچہ پر جانے سے پہلے ان سے بھی دعالےکر گئے تھے،شےواجی کاپرنسل سکرےٹری مُلاحےدرتھا شےواجی کی ساری خفےہ دستاوےز ات اور خطوط وکتابت اسی کے سپردتھی وہ بھی اےک مسلمان فراش منداری خاں ہی تھا جس نے جب شےواجی قےدہوئے تو ان کے ساتھ رہا اور اس مسلمان فراش نے ہی شےواجی کو آگرہ کے قلعہ کی قےد سے خفےہ طرےقہ سے بچاکر نکالاتھا،ےہاں پر ےہ بات بھی قابل ذکرہے کہ شےواجی نے کبھی بھی مذہب کے نام پر لڑائی نہیں لڑی ،ان کی حکومت میںبھی بے شمار مسلمان صرف دربارمیں ہی نہیں فوج میں بھی تھے،ےہ بھی قابل غورہے کہ کسی براہمن نے شےواجی کاتاج تلک نہیںکےا،سب نے انکار کردےاتھا،(پوتامحصرنامہ ۷۵۶۱ءمیں شےواجی کے دربار کی کارائےاں میں ےہ واقعات درج ہیں،)شیوسیناوالے واقعی کےا انہی شےواجی کے نام لےواہیں جوسبھاجی کے پوتے شاہ جی کے بےٹے اےک مسلمان شاہ شرف کی دعا سے پےدا ہوئے ،جن کے بےشتر مسلم صوفی حضرات سے تعلقات تھے اور وہ ان کے مرےد تھے ان سے آشےروادلےتے تھے،انکو زمےن وجاگےر دےتے تھے ان کی خانقاہیں بنواتے تھے ،مساجد کی حفاظت کرتے تھے ،قرآن شرےف کا احترام کرتے تھے ،غےر عورتوں خصوصےت سے مسلمانوں عورتوں کی طرف غلط نگاہ ڈالنے کوماتھے پر کلنک سمجھتے تھے، جن کے تمام خفےہ معاملات مسلمان کی تحوےل میں تھے،کےا آپ انہی شےواجی کے نام لےواہیں جن کی حکومت میں قاضےوں کی عدالتیں تھی ان کے فےصلہ قبول کرتے تھے۔ جنکی فوج کے کمانڈرانچےف مسلمان تھے بحری فوج کے کمانڈربھی مسلمان تھے،سورت کی صرف اےک لڑکی کے اٹھاکرلے آنے پر آپے سے باہر ہوگے غصہ کےا لڑکی کو اٹھاکر لانے والے سردارکو سزادی لڑکی کوماں کہاتحفہ دےکر واپس بھےجا اور اس سردار کے غلط طرزعمل کی اس سے معافی مانگی۔(قومی ےکجہتی ازپنڈت بشمبر ناتھ پانڈے )۔شیوسیناجماعت کے ساتھےوں نے اسی سورت میں مسلمان عورتوں کو ننگاکرکے جلوس نکالا سرِبازار عصمت دری کی ۔انکے وےڈےو فلم بنائے گئے۔ مسجدیں توڑیں ،آگ لگائی ہے لوٹ مار کی ہے قتل کئے ہیں ، ان کو زندہ جلاےا، مسلمانو ں کی بستےاں کی بستےاں خالی کرالیں ،بے گھر کردےا اسمیں مر د عورت بچے بوڑھے کی کوئی تمےزنہیں تھی۔ آج کچھ لوگوںکوبابری مسجد کی شہادت پرناز ہے، شےواجی کے نام لےواانہی کی سرزمےن پرےہ سب کچھ کررہے ہیں ۔کےا آپ واقعی سمبھاجی کے پوتے شاہ جی کے بےٹے شےواجی کے نام لےوا ہیں اورجومرےادا میں شےواجی نے قائم کی تھیں ان کو توڑکران شےواجی کانام بدنام کررہے ہیں ان شےواجی کا مسلمانوںنے ساتھ نہ دےاہوتاتو کےا شےواجی آگرہ قلعہ سے زندہ واپس آتے آج تارےخ میں کےا ان کانام ہوتا؟ جوتباہی وبربادی بابری مسجد کے انہدام سے شروع ہوکر آج تک جاری ہے، جو ننگاناچ ناچاجاچکا،اسکا کوئی جو ازشےواجی کے نام کے ساتھ اور مےرے سوالات کا کوئی جواب ہے ان کے پاس؟اوراب اس پر بھی غور کریں کہ ہندوستان کے پاس سارنگی تھی آنے والے طاﺅس لائے حضرت امےرخسروؒ نے دونوں کو ملاکر ستاربنادےا، ہندوستان کے پاس مردنگ تھاامےر خسروؒ نے دف اور مردنگ ملاکر ڈھول بنادےا،ےکھادج کوکاٹ کرطبلہ بناےا، امےر خسرونے چھ راگ اور چھتےس راگنےاں اےجادکےں،جس سے آج شےواجی کی وندنا،جس سے سرسوتی کی وندناہوتی ہے ، کرشن جی کی وندناآج بھی رس خان کی بھگتی وندناسے ہوتی ہے،اب کےاخےال ہے کےا ےہ بھی غلامی کے نشان ہیں ان کو کب مٹائیں گے یابدلیںگے۔
مسلمانوں کی آمد سے قبل اس ملک میں سارے پوتر گرنتھ رامائن ،گےتا،مہابھارت ،اپند پر ان، سب سے پہلے تغلق کے دورمیں ےہ سلسلہ شروع ہوا،بنگال کے خود مختار حکمراں ہمےشہ بنگلہ زبان کے حامی رہے،اور سرکاری خرچہ پر سلطان خاں حسےن شاہ نے ان تمام دھارمک گرنتھوں کا بنگلہ زبان میں ترجمہ کراےا ،جس کی بناپر اس زمانے کے بنگلہ اور متھلی کے شاعرودےاپتی نے حسےن شاہ کی تعرےف میں بہت سی نظمیں ا ور گےت بھی لکھے ہیں،بنگال کے مسلمان بادشاہوں کے دورمیں بارہ جاگےرداراپنی رےاست کا انتظام کرنے میں خودمختار تھے صرف بےربھوم کے جاگےر دارکو چھوڑکر باقی سب گےارہ ہندوتھے ،ہرفاتح اپنے مفتوح کے نشانات مٹاتاہے ،جس طرح ہندوستان میں بھی اشوک راجہ ہرش اور دوسرے حکمرانوں نے اس ملک میںکےا ، مگر مسلمانوں نے اس ملک میں آنے کے بعد ان تمام دھارمک گرنتھوں کاترجمہ دار اشکوہ رامائن ،گےتا ،مہابھارت کا علامہ ابوالفضل ،فےضی ،عبدالکرےم وجیہی نے فارسی اور خواجہ ولی محمد نے اُردو میں ترجمہ کےا ہے۔
ابورےحان تےمارالبےرونی (پےدائش973 وفات1084 )میں جوہندوستان آےا اور ےہاں رہ کر جس نے اپنی مشہور کتاب تحقےق الہند میں اس وقت کے ہندوستان کے حالات پر بہت مکمل اےک اعتبار سے ہندوستان پرانسائکلوپےڈےالکھی ہے۔ جس میں شہر ی رہن سہن ہی نہیں ،درےاﺅں ،پہاڑوں کے حالات لکھ کر اس وقت ےہ لکھاتھاکہ ہندوستان کسی زمانے میں سمندرتھا اور ےہ حصہ بعدمیں سمندر سے اُبھراہے ،آج کی سائنس اس کی تصدےق بھی کررہی ہے ،مگر قابل غورےہ ہے کہ جارج سارٹن نے اپنی مشہور کتاب (ہسٹری آن سائنس )میں البےرونی کو صرف سائنسداں عالم تارےخ وجغرافےہ ،علم نجوم ،طب میں ہی کامل نہیںمانا بلکہ ےہ بھی معلوم ہواکہ سب سے پہلے البےرونی نے ہندوستان آکر سنسکرت پڑھی اواتنی پڑھی کہ البےرونی کو ماہر سنسکرت ماناگےاہے ،البےرونی نے بھگوت گےتا، وےدوں کے علاوہ گپلدکی کتاب ”سنکھےا“بر ہما گپتاکی ”برہماسد ھانتا“اور پرتبھاسمےتا کاعربی میں ترجمہ کےا اور عربی سے اقلےدس اور پوٹولمی ےونانی فلسفہ ونجوم کا سنسکرت میں ترجمہ کےا ،اس ملک میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے صرف اےک طبقہ کے براہمن لوگ ان گرنتھوں کو پڑھ سکتے تھے ،باقی سب صرف سن سکتے تھے ،مگر ہندوستان کا پچھڑاورگ جس میں جاٹ ڈےادو،بودھ ،پھر ان کے علاوہ ہرےجن ،گونڈ ےھبل ،بالمےکی نہ ان گرنتوں کو دےکھ سکتے تھے،دےکھنے والے کی آنکھ میں تےزاب اور چھپ کر سننے والو ں کے کانوں میں پگھلاہوا سےسہ ڈال دےاجاتاتھا، چھونے والوں کے ہاتھ کاٹ دےئے جاتے تھے ،مگر مسلمانوں نے ان تمام گرنتھوں کو مٹاےانہیں بلکہ زندہ رکھا، ان کاترجمہ کراےا،خود پڑھااوردوسروں کو پڑھنے دےا، اس مذہبی تعلیم کو عام کردےا،آج سب پڑھ سکتے ہیں۔اس وقت مسلمانوںکااہاتھ کون کاٹتا، ہاتھ میں تلوا رتھی ، آنکھ میں تےزاب ،کان میں سےسہ کون ڈالتا، اےک بلند اور مضبوط تخت پربےٹھے ہوئے تھے، ہونٹوں کو کون جلاتا، سرپر اےک قےمتی تاج تھا۔ ےقےنا مسلمانوںکے آنے سے پےشتر ہندو بےوہ کودوسری شادی کی اجازت نہ تھی،بےوہ کوستی ہونا(شوہر کے بدن کے ساتھ زندہ جلنا پڑتاتھا)مسلمان بادشاہوںنے اس بری رسم کوروکا،اکبر کے دورمیں اس پر سختی سے عمل ہوا کسی بھی لڑکی کو باپ کی جائیدادمیں حصہ نہیں ملتاتھا۔آج بےٹی کو والد کی جائدادوشوہر کے مرنے کے بعد شوہر کی جائدادمیں حصہ ملتاہے ،ہندوعورت کو بھی طلاق لےنے کا حق حاصل ہے اب مسلمانوں کے ےہ سارے عمل توغلامی کے نشان ہیں،توہندوستان کے پچھڑے ورگ ہرےجن ،بالمےکی کو سوچناہوگا کہ اگر ےہ غلامی کے نشان مٹادئے گئے یابدل دیئے گئے توپھر مندرکے دروازے ان پر بندہوجائیں گے اور پھر وہی پرانا دورآجائے گا اورعظےم بھارت کی خواتےن کو پھر سے سوچنا ہوگاکہ بےوہ کو پھرستی ہوناپڑے گا، اور تمام حقوق سے محروم ہوجائےںگی، کےونکہ الہ آبادکانام بدل کر تقریبااس منصوبہ پرعمل کاآغازہوچکاہے۔ (یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )






