طلاق ایک ناگزیرضروت اور فطرت انسانی کے عین مطابق

ایک طلاق بائن سےبھی فوری طورپرنکاح ختم ہوجاتاہے؛اس لیے دویاتین طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔

آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں کے عنوان سے جاری محاضرہ میں علماء کرام کااظہارخیال

ممبئی(ملت ٹائمژ)

آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں کے عنوان سے سلسلہ وارمحاضرات کا چودہواں موضوع طلاق کے احکام ومسائل  پرگزشتہ اتوارکوبلال اسکول نزدبلواس ہوٹل گرانٹ روڈایسٹ ممبئی میں مفتی جسیم الدین قاسمی استاذومفتی مرکزالمعارف  ایجوکیشن اینڈریسرچ سینٹرجوگیشوری ممبئی نے تفصیلی محاضرہ پیش کیا، جس میں آپ نے بتایاکہ اسلام کانظام طلاق فطرت انسانی  کے عین مطابق ہے،اوریہ ایک ناگزیرضرورت ہے،جس کااستعمال بوقت ضرورت ہی جائزہے، مفتی صاحب نے بتایاہے کہ اسلام میں نکاح کی حیثیت عبادت کی ہے، اورکسی بھی عبادت کو توڑناجائزنہیں، البتہ سخت مجبوری کے وقت توڑنے کی گنجائش ہوتی ہے،  چوں کہ طلاق سے نکاح ٹوٹ جاتاہے،اس لیےجب میاں بیوی کے درمیان سخت اختلافات رونماہوجائیں،اوردونوں کی زندگی اجیرن بن جائےاوررشتہ نکاح ختم کرلینے میں عافیت محسوس ہو تو ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں صرف ایک طلاق کےذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کیاجاسکتاہے۔اس کابہترین طریقہ  یہ ہے کہ جب بیوی ماہواری سے پاک ہواورابھی صحبت بھی نہیں ہوئی ہو،تو ایک طلاق دی جائے،مثلایوں کہاجائے “میں نے تم کو ایک طلاق دیدیا”اس طرح کہہ لینے سے ایک طلاق پڑجاتی ہے، تین ماہواری تک اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ مرد اپنی بیوی کوواپس اپنے نکاح میں لےلے،اس کے لیے صرف اتناکہناکافی ہے کہ میں نے تم کوواپس لےلیا،یاکوئی  ایساکام کرلےجو صرف میاں بیوی کے درمیان ہی ہوتاہےجیسے بوس وکناریاصحبت وغیرہ،تو عورت بیوی بن جاتی ہے، البتہ رجوع کرنے کابہترطریقہ یہ ہے کہ دوگواہوں کی موجودگی میں زبانی رجوع کرےاوربیوی کو اطلاع دیدے،لیکن اگرمرد نےتین حیض(ماہواری )گزرنے تک رجوع نہیں کیاتونکاح ختم ہوجاتاہے،اب رجوع کی گنجائش نہیں رہتی ہے،البتہ نئے مہرکے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔مفتی جسیم الدین قاسمی نے بتایاکہ کہ طلاق دینے کایہی بہترین طریقہ  ہے،اسی کو طلاق احسن کہاجاتاہے،چوں کہ اس میں رجوع کرنے کی گنجائش رہتی ہے اس لیے اس کو طلاق رجعی بھی کہاجاتاہے۔ انھوں نے مزیدبتایاکہ جب اس طرح نکاح ختم ہوسکتاہے تو ایک سے زیادہ دویاتین طلاق دینے کی ضرورت نہیں،مفتی صاحب نے کہاکہ پہلےمہینے میں پہلی دوسرےمہینے میں دوسری اورتیسرےمہینہ میں تیسری یعنی تین مہینہ میں تین طلاق دینے کی بھی ضرورت نہیں،البتہ اگرکوئی پہلی بارہی “ایک طلاق بائن” دیدےتو اس سےبھی فوری طورپرنکاح ختم ہوجائے گایعنی عدت کے دوران رجوع کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی،البتہ عدت کے دوران اورعدت کے بعد بھی دونوں اگرچاہیں تونئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔مفتی صاحب نے افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ آج کل لوگ ایک ہی بارمیں ایک سے زیادہ دویاتین طلاق دیدیتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ حیض یاحمل کی حالت میں طلاق دیدیتے ہیں،  یہ غلط طریقہ ہے اورگناہ ہے، فقہاء نے اس کو طلاق بدعی کہاہے، مگرایسی حالت میں جتنی طلاق دے گاوہ شرعاواقع ہوجائے گی۔مفتی صاحب نے کہاکہ اسلام میں زبان کی بہت اہمیت ہے، زبان سے نکلی ہوئی بات اثرکرتی ہے،اس لیے غصہ یامذاق کی حالت میں بھی طلاق دینے سے طلاق پڑجائے گی۔

طلاق کی مشروعیت اوراس کے پس منظرپربات کرتے ہوئے مفتی صاحب نےکہاکہ دورجاہلیت میں آدمی اپنی بیوی کو سینکڑوں طلاق دیدیتاتھاجب عدت پوری ہونی ہوتی تو رجوع کرلیتاتھا،اس طرح عورتوں پر ظلم وستم کوروارکھاجاتاتھا، چوں کہ اسلام سراپارحمت ہے، اس لئےاس نے اس نظام کوختم کیااوریہ حکم دیاکہ تین طلاق تک رجوع کرنے کی گنجائش ہے اس کے بعد نہیں، یعنی تین طلاق کے بعدمردرجوع نہیں کرسکتاہے اورنہ ہی نکاح کرسکتاہے۔البتہ  عورت آزاد ہے چاہےتو دوسرے مردسے نکاح کرلےاوراسی کےساتھ زندگی گزارے،لیکن اگراس شوہرکاانتقال ہوجائے،یاکسی وجہ سے اس سے بھی طلاق خلع کے ذریعہ علیحدگی ہوجائے،تو اب یہ عدت گزارکرکہیں اوربھی نکاح کرسکتی ہے حتیٰ کہ سابق شوہرسے بھی کرسکتی ہے،اسی کوحلالہ کہاجاتاہے،مفتی صاحب نے کہاکہ حلالہ یعنی دوبارہ نکاح کرنے یانہ کرنے کاعمل خود عورت کاہے،اوراسی کی مرضی پرمنحصرہے، شریعت نے اس کو مکمل اختیاردیاہے،کوئی اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتاہے۔

محاضرہ کی صدارت کررہے معروف اسلامی اسکالرجناب مولانامحمد برہان الدین قاسمی (ایڈیٹرانگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ وڈائریکٹرمرکزالمعارف،جوگیشوری)نے اپنے خطبہ  صدارت میں کہاکہ غیرمسلموں کوحقیقت میں اسلام ہی سے چڑھ ہے،اس لیے وہ اسلام کے بعض مسائل جیسے طلاق،تعدددازدواج وغیرہ پراعتراض کرتے ہیں، حالاں کہ خود انھوں نے اسلام کے نظام طلاق ہی سے استفادہ کرکے اپناقانون طلاق بنایاہے،ورنہ عیسائی ، ہندو،اوردیگرمذاہب میں طلاق کاکوئی  قانون نہیں تھا،جس سے ان کی خواتین پرظلم وستم کے پہاڑتوڑے جارہے تھے،ستیہ جیسی ظالمانہ روایت ان کے یہاں تھی،عورتوں سے جان چھڑانے کے لیے ان کو قتل کردیاجاتاتھا،اس لیےانھوں نےطلاق کاراستہ نکالا،جس سے ان غیرمسلم خواتین کوبڑی راحت ملی،اورانھیں اپنے اختیارسے جینے کاموقعہ ملا، مولانابرہان الدین قاسمی نے کہاکہ آج مسئلہ طلاق کو لیکر مسلمانوں کوبدنام کیاجارہاہے، حالاں کہ مالیگاؤں جو ایک مسلم کثیرآبادی شہرہے،کی ٢۰١١ء کی سروے کے مطابق مسلمانوں میں طلاق کی شرح ایک ہزارمیں 5.63 ہے،جب کہ ہندوؤں میں طلاق اوریونہی چھوڑے رکھنے کی شرح 7.3ہے،یہ سروے یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک ہزارہندومیاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی شرح  5.5ہے۔اس لیےاس تعلق سے ہندؤں کے لیے قانون بنایاجاناچاہئے نہ کہ مسلمانوں کے لئے،اس کے باجود مسلمانوں کوبدنام کرنااورمسلم خواتین کی ترقی اورآزادکے نام پرمسلمانوں کے لیے ایساقانون طلاق پاس کراناجس سےخود عورتوں پرظلم ہوتاہوکہاں کاانصاف ہے۔واضح رہے کہ آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں کے عنوان سے ہراتوارکوبعدنمازمغرب بلال اسکول بلواس ہوٹل مولاناشوکت علی روڈد، گرانٹ روڈ ایسٹ ممبئی میں شریعت کے عائلی مسائل پرمحاضرہ دیاجاتاہے۔مزیدجانکاری کے لئے اس نمبرپررابطہ کرسکتے ہیں۔8080697348

SHARE