تحریر: ڈاکٹر عبدالرحیم خان ریاض
میں ایک ایسی کارپوریٹ فرم میں گزشتہ تقریبا ایک دہائ سے ملازمت کررہا ہوں جو اب تک تسلسل کے ساتھ ارتقائ منازل طے کرتے ہوۓ اپنی صنف کی دو درجن سے زیادہ کمپنیوں میں نمبر تین پر آپہونچی ہے۔ مگر ۲۰۱۹ کا ربع اول (Quarter 1 -2019) باقی مہینوں کے تناسب میں معمولی مایوس کن رہا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں صرف تین ماہ کے نتائج میں کمی انتظامیہ کے لئے اسقدر تشویش کا باعث بن گئ ہے کہ آۓ دن تجزیاتی اجلاسات ہورہے ہیں اور جوابدیہی کے تئیں اعلی منتظمین کی نیندیں غائب ہوچکی ہیں۔
تمہید یہ بتانے کے لئے باندھی گئ کہ دنیاوی و دینی ہر دو معاملات میں مثبت نتائج کا انحصار صرف عمل مسلسل نہیں بلکہ ساتھ ہی تجزیہ، خود احتسابی، جوابدیہی اور اصلاحاتی اقدامات پرہوتا ہے۔ کل عزیزم کاشف کی مکاتب / مدارس و کانوینٹ اسکولوں پر ایک موازناتی پوسٹ کے بعد میں نے اعداد و شمار کی چھان بین کرنی چاہی۔ مکاتب و مدارس کی صحیح تعداد کا پتہ تو نہ چل سکا البتہ یہ ضرور اندازا ہوا کہ موجودہ ھندوستان میں بالخصوص مسلم آبادیوں میں مکاتب کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بات اگر شمال مشرقی ھندوستان کی کیجاۓ تو کم و بیش ہر گاؤں میں مکاتب موجود ہیں۔
قبل اس کے کہ ارباب حلت و حرمت مجھ پر لبرل اور اینٹی مذھب ہونے کا فتوی داغیں، واضح کرتا چلوں کہ برصغیر میں مدارس و مکاتب کا مسلم امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جسے بآسانی شمار بھی نہیں کرایا جاسکتا۔ اختصار میں اگر کہا جاۓ تو ھندوستانی مسلمانوں کا اسلامی تشخص انہیں بوریوں اور چٹائیوں کا مرہون منت ہے۔ ہزارہا سلام ہے ان نفوس سلف کو جنہوں نے امت کے مفاد کے تحت اس کی پرخلوص داغ بیل ڈالی تھی۔
لیکن۔۔۔۔ مکاتب کی ان بیش بہا خدمات کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ یہ مسؤلیت اور جوابدیہی یا اصلاح کے زمرے سے خارج کوئ مافوق الفطرت یا آفاقی شعبے جات ہیں کہ جن پر گفتگو، تنقید یا محاسبے کی بات کرنا نقص ایمان کا سبب بن جاۓ۔ اس بات سے آج کسی اہل دانش کو انکار نہیں کہ ہمارے لاکھوں مکاتب گزشتہ کئ دہائیوں سے وہ نتائج نہیں دے پارہے ہیں جو ان سے مطلوب ہیں یا جو ان پر ہونے والےاخراجات کے بقدر ہوں۔ ان سے متعلق ایک معمولی تعداد کے علاوہ اکثریت نہ تو دینی اعتبار سے مستحکم ہے اور نہ ہی دنیاوی کامیابی سے ہمکنار ہے۔ بہت ساری دیگر وجوہات کے ساتھ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مکاتب و مدارس کو روحانی خانے میں رکھتے ہوۓ انہیں ہر قسم کے احتساب سے مستثنی تسلیم کرلیا ہے۔ انہیں ملی سرماۓ کے بجاۓ ذاتی اجاراداریوں کی شکل دے دی گئ ہے جسمیں نہ تو مشاورتی طریقۂ کار کا دخل ہے اور نہ ہی جوابدیہی کا کوئ امکان شامل ہے۔ امت کے زکات و عطیات کا ایک خاطرخواہ حصہ ان پر صرف ہوتا ہے مگر نتائج کو لیکر ہم کبھی اسے گرفت کی صف میں کھڑا نہیں کرپاتے۔
بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے تشخص کے نگہبان ان مکاتب و مدارس کے سربراہان کے تعین کے لئے ہمارے ہاں دو بنیادی معیار ہیں۔ یا تو منتظمین کا اہل ثروت و سیٹھوں کی صف سے ہونا ضروری ہے یا پھر اہل جبہ و دستار میں سے آنا مشروط ہے۔ جبکہ ان دونوں کے ساتھ ساتھ سربراہان کے لئے بہتر منتظم، نتیجہ پرور اور اچھا آڈیٹر ہونا بھی یکساں ضروری ہے۔ جب تک ہمارے مدارس و مکاتب محاسبہ، جوابدیہی اور آڈیٹ کے زمرے میں نہیں لائےجائیں گے تب تک انکا یہی حال اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج ایسے ہی ہونگے۔ لازمی ہے کہ سہ ماہی اور سالانہ ان کا مالی تجزیہ و آڈیٹ ہو، خراب نتائج کے اسباب کا پتہ لگاکر انہیں دور کرنے کے سخت عملی اقدامات ہوں۔ اگر ایسا ہوا تب جاکے ایک نفع بخش مثبت نتیجہ سامنے آۓ گا۔۔۔۔۔۔۔ شاید یہی اصل مفہوم بھی ہے “الا كلكم راع و كلكم مسول” کا۔ مجھے یکسر تعجب کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ ان مدارس پر عوام کا سوال اور محاسبہ کیسے ناجائز ہوجاتا ہے جن میں خود انہیں عوام کا سرمایہ لگا ہوتا ہے۔ اگر مدارس کا آڈیٹ غیر جائز ہے تو حکومت کو ٹیکس دینے کے بعد پٹرول کی قیمتوں اور سڑک کے گڈھوں پر پیشانیوں پر بل لانا بھی حرام ہی ہونا چاہئے۔
سچر کمیٹی کے اعداد وشمار کے مطابق مسلمانوں کا صرف تین سے چار فیصد ان مدارس سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اسلئے جب کبھی انکے تعلق سے تنقید کی جاتی ہے تو اجاراداران ملت کی طرف سےجواب ملتا ہے کہ ان تین چار فیصد نفوس پر تنقید نہ کرکے آپ باقی ۹۷ فیصد کی فکر و اصلاح کیوں نہیں کرتے۔ ان معصوموں کو یہ نہیں معلوم کہ ھندوستان جیسے ملک میں یہ مدارس و مکاتب امت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی اور انکے اسلامی تشخص کے اولین نگہبان ہیں۔ تو بھلا آپ ایسے اہم حصے کو جوابدیہی سے الگ کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ضروری ہوچلا ہے کہ ۔۔۔۔۔
* مدارس و مکاتب کو شخصی اجاراداریوں سے نکال کر ملی اداروں کی شکل دی جاۓ۔
* انکی سربراہی ثروت و تقوی کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ بہتر منتظمین، محاسبین اور دوراندیشوں کے ہاتھوں سونپی جاۓ۔
* ضلعی، صوبائ اور مرکزی تنظیموں کے ادارے مکاتب و مدارس کا مالی و نتائجی آڈیٹ کریں۔
* اچھے نتائج پر ستائش کے ساتھ ساتھ خراب نتائج پر نہ صرف تجزیہ بالکہ گرفت اور سزا بھی ہو۔
یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر بالا اقدامات ہوۓ تو۔۔۔۔۔
• ملت کی مزید دلچسپیاں اور تعاون مکاتب و مدارس کے لئے سامنے آئیں گے۔
• نتائج مثبت ہونے کے بعد اسمیں شمولیت کا تناسب تین چار فیصد سے کہیں زیادہ ہوگا۔
• مدارس م مکاتب سے منسلک افراد زیادہ مستحکم اور اجرت کے اعتبار سے زیادہ مطمئن ہونگے۔
• دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی یہاں سے متعلق افراد کہیں زیادہ کامیاب ہونگے۔
اس موضوع پر روایتی کانفرنسیں نہیں بالکہ اہل علم و نظر کا بہت ہی سنجیدہ اور موثر سیمینار ہونا چاہئے۔ نصاب پر الجھنےاور بحث کرنے کے بجاۓ اس بات پر وچار ومرش کرنا چاھئے کہ ھندوستان کے کونے کونے میں عربوں روپئے کی زکات سے چلنے والے لاکھوں مکاتب کو کیسے نتیجہ آمیز بنایا جاۓ۔ ہمیں مثال سامنے رکھنی چاہئے کہ محض صحیح نظم، آڈیٹ اور جوابدیہی نے دلی کے گورنمنٹ اسکولوں کو ملک کے دیگر سرکاری اسکوں سے کس قدر ممتاز بنا رکھا ہے۔ اسلام نظام حیات ہے اور جب تک ھمارے سربراہان و نظماء “نظام” کے صحیح مفہوم سے نابلد رہیں گے تب تک اس ضمن میں کچھ بھلا نہیں ہوسکتا، ہم آپ خواہ کتنے ہی صفحات سیاہ کیوں نہ کرلیں۔






