چودھری آفتاب احمد
ملک میں پارلیمانی انتخا بات کے ساتوں مرحلے مکمل ہو چکے ہیں، اب سب کی نظریں23 مئی کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں،لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں،کہ ان کے ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟اور ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟وزیر اعظم ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے،جس کی ذات یا وجود سے ملک کے حالات طے ہوتے ہیں،وہ ملک کا اولین آدمی ہوتاہے،جو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے انتخاب سے سربراہی کے درجہ کو حاصل کرتا ہے،
ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریت ہے،یہاں کا ہر آدمی حکومت کا حصہ ہوتا ہے،اس کی رائے یعنی ووٹ سے پارلیمنٹ کے لئے نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے،اس ملک ہندوستان میں ہر مذہب،ذات برادی اور قبیلوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں،جیسے ہر ووٹ کی قیمت ایک ہی ہے،اسی طرح ہر شخص کو برابری کا حق حاصل ہے،یہاں اونچ نیچ اور چھوا چھوت کو ختم کرنے کی کوششیں ہوئیں،مگر ہنوز یہ اونچ نیچ اور چھواچھوت باقی ہے،یہ فرق ملک کی ترقی میں رخنہ ہے،
ملک کے اقتدار میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں،جمہوری نظام اس کی اجازت دیتا ہے،اور عوام اپنی رائے سے اپنی پسند کی حکومت اقتدار تک پہنچاتی ہیں،ملک میں سیاسی پارٹیوں کی یوں تو بڑی تعداد ہے،لیکن یہاں فی الوقت دوسیاسی حریف گروپ میدان میں ہیں،ان میں ایک سیکولراور دوسرا قدامت پسند سمجھا جاتا ہے،یہ الگ بات ہے،کہ کبھی کبھی قدامت پسندی سے نکل کر اس کے نمائندے انتہا پسندی تک پہنچ جاتے ہیں،انتہا پسندی تک وہ اس لئے پہنچ جاتے ہیں،کیونکہ وہ ملک میں اکثریت کی غالب حکومت چاہتے ہیں،یہ ان کا خیال ہے،حالانکہ یہ ممکن نہیںہے،کبھی کبھی ایسا لگتا ہے،کہ وہ اکثریت کی ووٹ لینے کے لئے ایسے حربوں کا استعمال کرتے ہیں،
ہمارا ملک ہندوستان ریاستوں پر مشتمل ہے،ریاستوں کی اپنی حکومتیں ہیں،جن میں زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کا غلبہ ہے،کچھ چھوٹی ریاستیں ایسی ہیں،جنہیں مرکز کے زیر انتظام رکھا گیا ہے،ملک کی وفاقی حکومت پارلیمنٹ چلاتی ہے،یہ عام انتخابات پارلیمنٹ کے لئے ہی ہوئے ہیں،پارلیمنٹ اپنے نمائندوں کے ذریعہ قانون سازی کا کام کرتی ہے،یہ آئین میں وقت ضرورت ترمیم کرتی ہے،اور عوام کے لئے فلاحی اسکیمیں بناتی ہے،نیز ملک کے وفاق میں پارلیمنٹ کی رولنگ پارٹی کے لیڈر کا عمل دخل ہوتا ہے،وہی ملک کا زیر اعظم ہوتا ہے،وزیر اعظم اپنی کابینہ کے صلاح و مشورہ سے ملک کے نظام کو چلاتا ہے،
ہمارے ملک پر 90سال تک مکمل انگریزوں کی حکومت رہی ہے،کانگریس اور مسلم لیگ نے آزادی کی لڑائی لڑی اور ملک کو انگریز حکومت سے آزاد کرایا،انگریزوں سے پہلے سدیوں تک مسلم حکمرانوں کی حکومت رہی،مسلم حکمرانی کے وقت میں جدید سہولیات کا فقدان تھا،لیکن جیسے جیسے سائنسی ایجادات نے ترقی کی،ہندوستان نے بھی اس سے استفادہ کیا،ہمارا ملک ہندوستان 1856کو پوری طرح سے انگریزوں کی غلامی میں آگیاتھا،ملک کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے قید کرکے رنگون منتقل کردیا تھا،جہاں شہنشاہ ہند کا انتقال ہوا،بہادر شاہ ظفر کی قبر رنگون میں ہی موجود ہے،بہر حال بات ہندوستان کی سیاست پر ہو رہی تھی،لیکن ہم ماضی میں چلے گئے ،تاکہ تاریخ سے کچھ واقف ہو سکیں،مسلم حکمرانی اور انگریزحکومت کے بعد اب ملک کے جمہوری اقتدار کی بات ہوتی ہے،
ہمارا ملک 1947میں آزاد ہوگیا تھا،مسلم لیگ پاکستان لے کر الگ ہوگئی،اور کانگریس نے ہندوستان کوتیسری دنیا یعنی غربت سے نکالکر ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں لا کھڑاکیا،کانگریس نے کم و بیش اس ملک کا اقتدار60برسوں تک سنبھالا ہے،کانگریس کے دور میں اس ملک نے جو ترقی کی ہے،وہ ہر زندہ شخص نے دیکھی ہے،گاو¿وں کو قصبوں سے قصبوں کو شہروں سے سڑکوں سے جوڑا گیا،تاکہ ٹریفک کی آمد و رفت سے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا نے میں آسانی ہو،اور مال بردار گاڑیاں ضروری مصنوعات کو وقت سے اس کی منزل تک پہنچا سکیں،کانگریس کی حکومت نے اس ملک میں بجلی اور صاف پانی کا انتطام کیا،صحت عامہ کے لئے اسپتالوں کو قائم کیا،لمبی مسافت کے لئے ریلوں کا اہتمام کیا اور دنیا کے ممالک کے سفر کے لئے ہوائی جہازوں کی پروازیں شروع کرائیں،اپنی عوام کو ہر صہولت مہیا کرانے میں کانگریس نے کوئی کمی چھوڑی ہو،یہ کوئی نہیں کہہ سکتا،صرف ایک آدمی کے علاوہ،اور وہ ہیں اس ملک کے وزیر اعظم نریندر بھائی مودی،
نریندر بھائی مودی نے پانچ سال اس ملک کا اقتدار سنبھالا ہے،انھوں نے 2014کے عام پارلیمانی انتخابات کی تشہیر میں کہا تھا،کہ ہم سب کا ساتھ سب کا وکاس پالیسی پر عمل کریںگے،یعنی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا،ملک کی عوام کو ان کا یہ نعرہ اچھا لگا،ویسے بھی انھوں نے ملک میں اچھے دن لانے کا وعدہ کیا تھا،گویا ملک کے دن خراب چل رہے تھے،بہر حال ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو اعتماد میں لئے بنا ہی،کچھ ایسے اقدام کئے جن سے ملک کی عوام پر سیدھا اثر ہوا،نوٹ بندی ایک بے وقوفانہ قدم تھا،اس سے نچلے طبقہ کو بھاری نقصان پہنچا،اور شدید دھوپ میں بینکوں کے سامنے لائنوں میں لگے لوگوں کی موت ہوگئی،نوٹ بندی کا فیصلہ وزیر اعظم نے لیا تھا،لیکن ان بے قصوروں کی موت کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی،
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک کا میانہ کاروبار متاثر ہوا،اس سے بے روزگاری بڑھی ،ویسے بھی ملک میں نوکریوں کا فقدان تھا،کمپنیوں نے بھی ملازمین کی چھٹنی کردی،سرکاری سیکٹر کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالہ کردیا گیا،اور اس طرح اچھے دنوں کے بجائے ملک میں لوگوں کے برے دن آنے لگے،اپنی تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے پھر امتیازی سلوک کا سہارا لیا گیا،اور ایک خاص اقلیت کو نشانہ بنایا گیا،اکثریت میں مذہبی جزبات کو ہوا دی گئی،تاکہ ساری ناکامیوں پر پردہ پوشی ہو سکے،اور ایک مرتبہ پھر دھوکہ سے ہی صحیح اقتدار کا منصب حاصل کرلیا جائے،یہ ملک کی عوام کے ہاتھ میں ہے،کہ وہ کسے اس منصب کو سونپتی ہے،
ان گزرے پانچ سالوں میں ملک کی ترقی رک کر کھڑی ہوگئی،ہر طبقہ حال سے بے حال ہوا،اور مودی جی کہتے رہے،کہ پانچ سال ساٹھ سال پر بھاری پڑے،یعنی ان پانچ سالوں میں ساٹھ سال سے زیادہ کام ہوا،ملک میں تعمیری کام نہیں ہوا،یہ سب کو دکھ رہا ہے،ہاں نفرت کا کام ضرور ہوا،وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ،کیونکہ اسی زینہ کے سہارے سے زعفرانیوں کو منصب مسند تک پہنچ نا ہوتا ہے،بہرحال 23مئی کو ووٹوں کی شماری ہوگی ،تب ہی پتہ چلے گا،کہ عوام آزاد ہو گئی ہے،یا مذہب کے نام پر فریبی جال میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
(مضمون نگار کانگریس کے رہنما اور سابق ریاستی وزیر ہیں )