دناکر پیری
راڈار سے متعلق وہ بنیادی باتیں جنکاجاننا آپ کیلئے ضروری ہے اور یہ کہ وہ ابر آلود موسم میں بھی کیسے کام کرتے ہیں.
راڈار کی ابتدا اور اسکو چکمہ دینے کا عمل
وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک حالیہ تبصرہ نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ بپا کردیا ہے، جس میں انہوں نے بتلا یا تھا کہ کیسے انہوں نے خراب موسم کے باوجود بالا کوٹ پر فضائی حملہ کو اس بنیاد پر ہری جھنڈی دی تھی کہ موسم کے ابر آلود ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے جنگی طیارے دشمن کے راڈار کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے.
چلیے جانتے ہیں کہ راڈار کیا ہے اور وہ کیسے کام کرتا ہے.
راڈار کیا ہے؟
راڈار کا مطلب فضائی ترنگوں اور لہروں کے ذریعہ سراغ رسانی کرنا ہے. ایک راڈار میں بنیادی طور پر چار چیزیں پائی جاتی ہیں (1) میگنوٹرون (2) ٹرانسمیٹر (3) ریسیور (4)اسکرین. میگنوٹرون ایک انٹینا کے ذریعہ مختلف سمتوں میں ذرا ذرا سے وقفے سے ریڈیائی ترنگیں بھیجتاہے اگر فضا میں کوئی چیز موجود ہو جیسے ہوائی جہاز وغیرہ تو یہ ترنگیں اس سے ٹکراکر واپس آتی ہیں تاکہ راڈار کے ریسیور کے ذریعے اسکی نشاندہی کی جا سکےواپس آنے والی ترنگوں کی وجہ سے وہ ہوائی جہاز راڈار کے گرڈمیپ(اسکرین پر لائنوں کے شکل میں بنا ہوا نقشہ) پر ایک نقطے کی شکل میں ظاہر ہو تا رہتا ہے اور جب جب ریڈیائی لہریں اس جہاز سے ٹکرا تی ہیں اس کی نقل و حرکت کا پتہ چلتا رہتا ہے(آپ اسکو سمجھنے کیلئے ہالی وڈ کی ایکشن فلموں کا تصور کر سکتے ہیں).
یہ چار چیزیں ہیں جو بنیادی طور پر ایک راڈار کے اندر پائی جاتی ہیں.
گذشتہ دہائیوں میں راڈار کی ٹکنالوجی میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے جسکی وجہ سے یہ بہت زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ہوگئے ہیں.
ریڈیائی لہروں کی مدد سے راڈار ابر آلود موسم میں بھی دن اور رات، ہر وقت نگرانی کرنے کے اہل ہوتے ہیں اور در حقیقت یہ اسی مقصد کے لیے ہی ایجاد کیے گئے ہیں. آپ بہت سی مرتبہ دیکھتے ہوں گے کہ خراب موسم اور آسمان کے بادلوں سے ڈھکے ہونے کے باوجود مسافر بردار جہازوں کی آمد ورفت معمول کے مطابق جاری ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں فضائی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا عمل راڈار کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے.
سبھی ایر ٹریفک کنٹرول میں دو قسم کے راڈار پائے جاتے ہیں، ابتدائی اور ثانوی. ابتدائی راڈار ایک روایتی راڈار ہو تاہے جسمیں وہ چیزیں پائی جاتی ہیں جو اوپر بیان کی گئیں اور ثانوی درجہ کا راڈار ہوائی جہاز میں موجود ٹرانسپونڈر( جہاز کے متعلق مطلوبہ معلومات فراہم کرنے والا خودکار آلہ) سے رابطہ کرکے جہاز کے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرتا ہے. چنانچہ راڈار ہی کی وجہ سے ابر آلود موسم میں بھی ہوائی جہاز کا نظام تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا ہے.
ٹھیک یہی سسٹم فوجی راڈار کا بھی ہوتا ہے جسمیں ترقی یافتہ فوجی قوت کےحامل پاکستان کے راڈار بھی شامل ہیں.
راڈار کی ابتدا:
راڈار کا استعمال دوسری عالمی جنگ میں شروع ہوا جب 1935 میں برطانیہ میں پہلا راڈار نصب کیا گیا. جنگ کے شروع ہونے کے وقت حملہ آوروں کا پتہ لگانے کیلئے برطانوی ساحل پر راڈار کا ایک سلسلہ تھا اور جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس وقت جنگ میں شامل تمام اہم ممالک اپنے اپنے راڈار نصب کر چکے تھے.
زمین پر موجود راڈار کا زمین کے گولائی کی وجہ سے ایک محدود دائرہ کار ہوتا ہے اسی بنیاد پر راڈار کو ہوائی جہاز پر لگایا گیا تھا جو زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر 360 درجہ گھماؤ کے ساتھ پرواز کرتا ہے. اسکو ایر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم (AWACS) کہا جاتاہے اور یہ آجکل کے دور میں میدان جنگ میں فوجی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے.
26 فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملہ میں ہندوستانی ایر فورس نے فضائی حملہ کے مشن کے دوران جنگی طیاروں کی رہنمائی کرنے اور فضا میں پاکستانی طیاروں کی کسی بھی قسم کی سرگرمی پر نظر رکھنے کے لیے اندرون ملک اور اسرائیل میں تیارکردہ (AWACS) کا استعمال کیا تھا.
راڈار کی نظروں سے بچ نکلنا:
گزشتہ سالوں میں جیسے جیسے راڈار کے اندر جدت آئی ہے ویسے ویسے اس سے بچ نکلنے کی نئی نئی تکنیک بھی سامنے آئی ہے.
راڈار کی نظروں سے بچ نکلنے یا اسکے دائرہ کار کو محدود کرنے یا اسکے اثر کو کم کرنے کے کئی طریقے ہیں، یہیں سے اسٹیلتھ (stealth) کا تصور سامنے آ تا ہے (‘stealth’ یہ ایک اصطلاح ہے جو مختلف قسم کی ٹکنالوجی کو استعمال کرکے راڈار کی نظر سے بچنے کیلئے استعمال ہوتی ہے). ‘Stealth’ ایک ذیلی تصور ہے، کوئی مستقل تصور نہیں.
راڈار بنیادی طور پر ریڈیائی لہروں کے ذریعہ منعکس کی گئی چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں، چنانچہ اگر ریڈیائی لہروں کو ریسیور سے بھٹکا دیا جائے تو یہ اسکے اثر کو کم کردیتا ہے.
بطور مثال ہم US F-117 کو ذکر کر سکتے ہیں جو اب زیر استعمال نہیں.
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ راڈار کے کچھ یا اکثر ریڈیائی لہروں کو جذب کرلیا جائے اور کراس سیکشن کو کم کرنے کیلئے شکل کو تبدیل کیا جائے. غیر معمولی US B2 بمبار جہاز اسکی ایک شاندار مثال ہے.
جدید ترین Stealth جہاز F-22 اور F-35 یہ تمام ٹکنالوجی مجموعی طور پر استعمال کرتے ہیں.
(یہ مضمون دناکر پیری کا ہے جو دی ہندو میں شائع ہوا تھا۔ اردو ترجمہ مولانا حسان جامی قاسمی نے کیا ہے)






