سعودی عرب کی نئی اقامہ پالیسی!

عمر العبیدلی
سعودی عرب کی شوریٰ کونسل نے کاروباری افراد ، سرمایہ کاروں اور ہ±نرمند تارکین ِوطن کے لیے خصوصی اقامتی اجازت نامے کی منظوری دی ہے۔یہ معیشت کی ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہے کیونکہ اس سے علم کی منتقلی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آئیے! اس کے فوری مثبت پہلوو¿ں پر غور کرتے ہیں۔سعودی عرب سمیت خلیج کی لیبر مارکیٹ کے کھلے پن کو بہتر معیارِ زندگی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔خلیجی شہریوں اور خلیج میں مقیم غیر ملکی تارکینِ وطن دونوں کو اس کا تجربہ ہورہا ہے۔تاہم مختصر اور درمیانی مدت کے ثمرات تو انھیں ضرور حاصل ہوئے ہیں لیکن ان کے لیے ایک طویل المیعاد سقم بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ غیرملکیوں کو مقامی شہریوں کو علم منتقل کرنے کا بہت تھوڑا اور بعض اوقات تو منفی انداز میں صلہ ملتا ہے۔

مزید برآں جن تارکین ِ وطن کے معیّنہ مدت کے ملازمتوں کے معاہدے ہوتے ہیں اور ان کے آجر ان کی تجدید نہ کرنے کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں تو ایسے تارکِ وطن ورکر خلیجی شہریت کے حامل اپنے ساتھیوں کی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور انھیں ہ±نر سیکھانے میں متردد ہوتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو تارکین ِ وطن کی جگہ ہ±نرمند خلیجی شہری لے لیں گے۔اسی بات کا کسی مقامی شراکت دار کے ساتھ کام کرنے والی غیر ملکی کاروباری شخصیت پر اطلاق کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ مقامیوں کی صلاحیت میں بہت زیادہ اضافہ کردیتے ہیں تو پھر ان کے لیے تو کوئی جگہ نہیں رہے گی۔
خلیج میں تارکِ وطن ورکروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔بالخصوص اگر وہ اعلیٰ مہارتوں کے حامل ہیں تو انھیں کم تر اجرتوں پر راغب نہیں کیا جاسکتا۔آجر حضرات اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سعودی شہریوں کے لیے جامعات میں آئی ٹی کے کورسز کی پیش کش کے باوجود انھیں غیر ملکی ٹیلنٹ کی خدمات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
امریکا سمیت تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی ( او ای سی ڈی) میں شامل ممالک میں تو تارکِ وطن ورکروں کو مستقل اقامت اور شہریت دینے کا ایک واضح اور نسبتاً تیز رفتار راستہ ہے۔اس طرح مقامی شہریوں کے ان کی جگہ لینے کا خدشہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔نتیجتاً وہاں علم کی منتقلی کے لیے مثبت مراعات و ترغیبات دی جاتی ہیں کیونکہ ہر کوئی زیادہ اہل اور باصلاحیت ساتھیوں کےساتھ کام کو ترجیح دیتا ہے۔
تاہم سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں اب تک گرین کارڈ ز دینے کا کوئی ڈھانچا موجود نہیں ہے۔ اب اگر نیا نظام موجودہ نظام کی جگہ رائج کیا جاتا ہے تو سعودی عرب کے پاس یقینی طور پر اپنا کیک ہوگا اور وہ اس کو کھا رہا ہوگا۔غیر ہ±نر مند ورکروں کے زمرے میں وہ موجودہ نظام کی لچکداری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس کے تحت کم اجرتوں کا سلسلہ برقرار رکھا جاسکتا ہے جبکہ ہ±نرمند ورکروں کے زمرے میں نئے نظام کو علم کی منتقلی کے لیے مراعات کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس اعتبار سے سعودی عرب کو او ای سی ڈی کے رکن ممالک میں ایک طرح کی برتری حاصل ہے۔وہاں کی لیبر مارکیٹ میں غیرملکیوں کی ایک تناسب سے موجودگی کی خواہش تو موجود ہے اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان کا داخلہ محدود اور سخت کردیا گیا ہے۔ بالخصوص کم اجرت کے زمرے میں۔ مگر بہت سوں کو اس نئے نظام سے باہر رکھنے کے لیے اضافی اقدامات ناگزیر ہیں۔
سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں سے کسی کے ہاں بھی علم کی منتقلی کے لیے کسی منظم ومنضبط پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا ہے جبکہ سنگاپور ایسے ممالک اس طریق کار سے بہت آگے چلے گئے ہیں۔ وہ اس امید میں غیرملکیوں کو اپنے شہریوں کے برابر لے آئے ہیں کہ اس طرح ایک سے دوسرے میں علم منتقل ہوگا ،اس کے بجائے وہ منظم مراعات اور دانش مندی سے ان تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں۔
مثال کے طور پر سائنسی تحقیق کے شعبے میں سنگاپور میں اعلیٰ درجے کے غیرملکی پروفیسروں کی ان کے کیرئیر کے اختتام پر خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور سنگاپور کے نوجوانوں کو ان کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ان کے یہ سنگاپوری شاگرد اگر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر ان غیرملکی پروفیسروں کو مزید مراعات اور بھاری مشاہرے ادا کیے جاتے ہیں۔اس کی جانچ اس طرح کی جاتی ہے کہ سنگاپوری شاگردوں نے ازخود تنہا یا ان غیرملکی پروفیسروں کے ساتھ مل کر کتنے تحقیقی مقالے ( پیپر) شائع کروائے ہیں۔سنگاپوری حکام جن غیرملکی سپر اسٹاروں کی ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب خدمات حاصل کرتے ہیں، انھیں یہ دھڑکا نہیں لگا رہتا کہ ان کے شاگرد ان کی جگہ لے لیں گے کیونکہ انھیں تو بہرحال اپنے ذمے داریو ں سے سبکدوش ہونا ہے اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے منتظر ہوتے ہیں۔
سعودی عرب بھی اسی طرح کی حکمتِ عملی اختیار کرسکتا ہے۔وہ تارکین ِ وطن کے ساتھ ملازمتوں کے معاہدے کے تحت انھیں شہریوں کو اپنی مہارتیں منتقل کرنے کا پابند بنا سکتا ہے کیونکہ روایتی طور پر تو یہ کارکردگی کی جانچ کا کسی طرح کا معیار نہیں ہے۔مزید یہ کہ سعودی عرب سنگاپور کی مثال کی پیروی کرکے مقامی لیبر مارکیٹ میں غیرملکی ٹیلنٹ کی جگہ بہتر سعودی ٹیلنٹ کو لاسکتا ہے۔
سعودیوں کی صلاحیت کار کی تعمیر وترقی میں نمایا ں کردار ادا کرنے والے غیرملکی سرمایہ کاروں اور ورکروں کے کام کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔مثال کے طور پر برطانوی حکومت غیر شہریوں ( تارکینِ وطن) کو اپنے ملک اور برطانیہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے کردار پر اعزازی سر کا خطاب دیتی ہے۔بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والے ٹیلنٹ کو نوجوان سعودیوں میں علم وہنر کی منتقلی پر اس طرح کے اعزازات سے نواز جاسکتا ہے اور یہ ایک توانا ترغیب ہوگی۔
فی الوقت تو متعارف کردہ مستقل اقامت کی جانب بہت سے لوگ راغب ہوسکتے ہیں کیونکہ تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے رکن ممالک میں اب مسلمانوں کا کوئی زیادہ جوش وخروش سے خیرمقدم نہیں کیا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ا نھیں خوش آمدید کہنے کا سلسلہ تھم سا گیا ہے۔اس کا اندازہ 2018ئ کے ایک سروے سے کیا جاسکتا ہے۔اس میں پانچ ہزار سے زیادہ امریکی شہریوں سے تارکین ِ وطن افراد کے بارے میں سوال پوچھے گئے تھے اور مسلمانوں کے حق میں سب سے کم رائے کا اظہار کیا گیا تھا اور صرف 48 فی صد امریکیوں نے ان کے حق میں رائے دی تھی۔
سعودی عرب اس وقت مذہبی مقامات بالخصوص مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں الحرمین الشریفین کی تعمیر وتو سیع کے بڑے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔اس سے مسلمان سعودی عرب کی جانب پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں راغب ہورہے ہیں۔چناں چہ سعودی عرب اپنی نئی ویزا پالیسی کو دنیا بھر سے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مسلمانوں کو ترغیب دینے کے لیے بروئے کار لاسکتا ہے۔اسی طرح درست ضمنی پالیسیوں کے نتیجے میں سعودی نوجوان بڑے فاتح بن کر ابھر سکتے ہیں۔(بشکریہ العربیہ )
(مضمون نگار دراسات ، بحرین میں ایک محقق کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔)