جماعت اسلامی ہند کااخبار” سہ روزہ دعوت بند“ ۔فیصلہ کی حمایت اور مخالفت میں سوشل میڈیا پرشدید بحث

سہ روزہ دعوت جماعت اسلامی ہند کا بہت پرانا اخبار ہے ۔1953 میں ہفت روزہ اخبار کی شکل میں اس کی شروعات ہوئی تھی
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
ہندوستان کی معروف تنظیم جماعت اسلامی ہند نے اپنا قدیم ترجمان اور سہ روزاخبار دعوت بند کردیاہے ۔ یہ اعلان جیسے سامنے آیاہے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے ۔ کچھ صارفین جماعت اسلامی ہند کے اس فیصلے پر شدید تنقید کررہے ہیں تو کچھ جماعت اسلامی ہند کی حمایت کرتے ہوئے اس پر تنقید کرنے والوں کی مخالفت کررہے ہیں ۔
سہ روزہ دعوت جماعت اسلامی ہند کا بہت پرانا اخبار ہے ۔1953 میں ہفت روزہ اخبار کی شکل میں اس کی شروعات ہوئی تھی ۔ 1960 میں روزنامہ میں تبدیل ہوگیا ۔ بعد میں یہ سہ روزہ بن گیا ۔ 6جولائی کو جماعت اسلامی ہند نے لیٹر ہیڈپر ایک اعلان جاری کیا کہ ” سہ روزہ دعوت مسلسل خسارہ کی وجہ سے جاری نہیں رہ پائے گا ۔ممکن ہے کہ برسوں کے اسٹاف کی رقابت ختم ہوجائے “
یہ اعلان سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑ گئی ہے ۔کچھ ناقدین جماعت اسلامی کے اس فیصلہ کی شدید مخالفت کررہے ہیں ۔ایسے لوگوں کا مانناہے کہ جماعت کا واحد مقصد ملازمین کو برطرف کرنا اور انہیں پریشان کرناہے ۔ دعوت ایک کمرشیل اخبار نہیں ہے اس لئے خسارہ کی وجہ قرار دینا بھی ناقابل قبول ہیں ، کچھ لوگ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جماعت نے اخبار بند کرکے نااہل کا ثبوت پیش کیا۔ جو لوگ حمایت کررہے ہیں وہ اسے جماعت اسلامی ہند کا اندونی فیصلہ قرار دے رہے ہیں ۔ایسے لوگوں کا مانناہے کہ جماعت کا داخلی معاملہ ہے کسی کو عتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی کی پالیسی ہے ۔ممکن ہے کہ سہ روزہ دعوت کی جگہ وہ کوئی نیا قدم اٹھائے اور اس سے بہتر متبادل پیش کرے۔
اس سلسلے میں سینئر صحافی زین شمسی اپنے فیس بک پر لکھتے ہیں۔
ہندوستان کی سب سے بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند دعوت نہیں چلا سکی۔ ہندوستان کی دوسری سب سے معتبر تنظیم جمیعتہ العلما ہند جمیعتہ اخبار نہیں بڑھا سکی۔ کروڑوں کے چندے کے باوجود انگریزی اخبار کا پروجکٹ فا?ل میں بند ہو گیا۔
چھوٹے نجی اخبارات کے مالکان نے ہمت کی کہ وہ قوم کی آواز بنیں تو انہیں بھی کہیں سے کو?ی مدد نہیں ملی۔
قوم کو ایک بڑے میڈیاہاﺅ س کی ضرورت ہے۔اور قوم کے بڑے بڑے ٹھیکیدار بڑے کاروباری گھرانوں کے اخبارات کے چھوٹے چھوٹے صحافیوں میں آم اور کھجور تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کر رہے ہیں۔قومی میڈیا چینلوں پر مت جاﺅ کا فرمان جاری کرنے والے اپنا قومی میڈیا کا فرمان کب جاری کریں گے؟ہم بولے گا تو بولوگے کہ بولتا ہے۔سرکار کے خلاف بولو تو غدار وطن قوم کی سرگرمیوں اور کارکردگیوں پر سوال کرو تو سنگھی ، آر ایس ایس کا آدمی۔ اسی لیے بولنا ہی چھوڑ دیا۔ روایتی اور غیر منطقی مضامین پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔
جارحانہ انداز تحریرکیلئے مسلسل سرخیوں میں رہنے والے نوجوان قلم کا ر محمد علم اللہ فیس بک پر لکھتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ حیلہ ، بہانا اور خود کو بچ نکلنے کا طریقہ وہ لوگ اپناتے ہیں جو مخلص نہیں ہوتے یا جنھیں کوئی چور دروازہ اپنانا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے ملازمین کو بے دخل کرنے کا ایک نیا حربہ اپنایا ہے اس کے تحت انھوں نے ایک نیا حیلہ تلاش کرتے ہوئے سہ روزہ اخباردعوت کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ نئے سرے سے دعوت کے ہی نام سے ایک ہفت روزہ اخبار حیدر آباد سے جاری کیے جانے کی خبریں ہیں۔ ہم ابھی اس پر بحث قطعا نہیں کریں گے کہ آنے والا اخبار کتنا آئیڈیل اور مثالی ہوگا یا پھر جماعت اسلامی پاکستان کے روزنامہ جسارت اور فرائڈے اسپیشل کا چربہ،لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ جماعت کا یہ رویہ درست نہیں ہے۔
سہ روزہ دعوت کی پوری ٹیم جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس اخبار کے لیے صرف کیا ہے،ان میں سے بہت سے لوگ ایسےبھی ہوں گے جنھیں شاید اس بڑھاپے یا ادھیڑ عمر میں کوئی دوسری نوکری نہ ملے،انھیں اس طرح جیسے چائے سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے ، بیک قلم جنبش بے دخل کرنا محل نظر ہے۔ وہ خود کو اخبار سے جذباتی طور پر جوڑ چکے ہوں گے اور ان کا علٰحدہ کیا جانا شاید ان کے لئے موت جیسی ہو۔
یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ ملی تنظیموں یا ان کے اخبار و جرنل کے ساتھ کوئی کام کر لیتا ہے تو اسے مین اسٹریم میں جگہ نہیں ملتی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ بندہ ہارڈ کور ہوگا ،جس کا ب±ھکت بھوگی خود میں بھی ہوں،کیا ایسے میں جماعت اسلامی کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ جو دن رات اخلاقیات اور اسلامیات کا درس دیتے رہتے ہیں ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ، کچھ اخلاقی قدریں ہیں ؟۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10212065794840476&set=a.3172500851757&type=3&theater

نوجوان صحافی یاور رحمن اپنے فیس بک پر لکھتے ہیں :
سہ روزہ دعوت کے ‘بند’ ہونے سے کچھ لوگ اتنے پریشا ن ہیں جیسے انہوں نے ہی اسے شروع کیا تھا۔ یا اس کے شروع ہونے میں انکے گھر کے بزرگوں نے اپنا پیسہ اور پسینہ بہایا تھا۔ اسی لئے ایک جماعت کے اندرونی فیصلے پر بھونڈی بکواس کر رہے ہیں۔ یہ جماعت کسی ایک فرد کی خاندانی میراث نہیں ہے۔ بلکہ ایک عظیم اور انتہائی منظم جماعت ہے۔ جسے بہترین افراد ایک ساتھ ملکر چلا رہے ہیں۔ اس جماعت کی قیادت میں شامل زیادہ تر لوگ با علم، با فکر اور اپنی بنیادوں میں با عمل بھی ہیں۔ اس کی خدمات کو اس کے فکری مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس نے اگر اپنے ایک آرگن میں کسی تبدیلی کا پروگرام بنایا ہے تو اس میں اس طرح شور مچانے کی تک کیا ہے۔ اور انھیں اس کا حق کب سے مل گیا کہ بدتمیزی اور بدکلامی کی حدیں چھونے لگیں ؟ جبکہ انکا اس سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔ اور نہ انکی اپنی کوئی حیثیت ہے۔ نہ علمی نہ فکری اور نہ معاشی و سماجی۔ اس کے باوجود اپنی زبان دراز کرتے پھرتے ہیں۔ مگر افسوس ہےکہ تربیت سے محروم چند کتابوں کے متفرق مطالعے نے انھیں یہ زعم دیدیا ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا خوب جان گئے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ سوشل میڈیا کا فری پلیٹ فارم بھی مل گیا اور ساتھ میں ہر بات پر پیٹھ تھپتھپانے والے فالورس بھی مل گئے ۔
دیکھیں جناب ! یہ جو ہماری مسلم تنظیمیں، جماعتیں، جمیعتیں اور رفاہی ادارے ہیں نا یہ سب بہت ہی غنیمت ہیں۔ ان کو ان کے جنم داتاو¿ں نے بڑے خلوص کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ہی وجود بخشا تھا۔ وقت کے ساتھ سب میں اگر کچھ کمیاں آءہیں تو بہت سی نئی اچھائیاں بھی آءہونگی۔ فکری اور منہجی اختلافات کو ایک طرف کر کے دیکھیں تو 30 کروڑ ہندی مسلمانوں کے لئے انکا وجود بہت غنیمت ہے۔ لہذا ان کے پیچھے پڑنا ہی ہے تو پہلے انکی دامے ، درمے اور سخنے مدد کیجئے۔ آپ جس لائق ہیں ، اپنی خدمات کی پیشکش کیجئے۔ اگر کسی نکتے پر اختلاف ہو تو سلیقہ اختلاف سیکھیے پھر انکے کسی غلط رویے یا پالیسی پر دلیل کے ساتھ انکی گرفت کیجئے۔ ورنہ چپ رہ کر ملک و ملّت پر احسا ن کر ہی دیجئے !!!

https://www.facebook.com/yawer.rahman/posts/2450848355002130

محمد حذیفہ ہدائی لکھتے ہیں :انجینئر سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت نے بتایا کہ ہیکہ سہ روزہ دعوت کو ہفتہ وار کرنے اور جدید اسلوب میں شایع کرنے کا فیصلہ تقریباً ایک سال پرانا ہے، اب اس پر عمل آوری کا آغاز ہورہا ہے.. پچھلے کچھ عرصے سے اس کی ڈمی (نمونہ کی) کاپیاں شایع کی جاتی رہیں اور تجربہ کار افراد کو روانہ کرکے مشورے لیے جاتے رہے.. حالیہ اجلاس نمائندگان میں بھی اس پورے پراجیکٹ کا تعارف ہوا اور ڈمی کاپی کا اجراء کیا گیا.. یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے.. ان شائة اللہ اس کے ہفتہ وار ایڈیشن کا جلد ہی آغاز ہوگا.. اس کا انتظامیہ دہلی ہی میں ہوگا اور ادارتی عملہ کا ایک حصہ حیدرآباد سے کام کرے گا۔
واضح رہے کہ سہ روزہ دعوت ایک مقبول اخبا رتھا ۔ جماعت اسلامی فکر رکھنے والوں کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے علماءاور اسکالرس بھی اس کے شیدائی اور مستقل قارئین تھے ۔ اب جماعت اسلامی ہند اس کے متبادل کے طور پر اپنے قارئین کو کیا پیش کرے گی اس پر سبھی کی نظر مرکوز ہے ۔ کہاجارہاہے کہ یہ اخبار اب ہفت روزہ کی شکل میں کچھ بہتر اندا ز میں شائع ہوگا ۔