جھوٹ کی شاخ پرمشکل سے ثمرلگتاہے!

خالدانورپورنوی المظاہری
ملک کی صورت حال انتہائی نازک ہے،بولنے والے چپ ہیں اورلکھنے والے خاموش،پتہ نہیں کیا سے کیاہوجائے؟اقلیتوں ،دلتوں کویہ فکرہمیشہ ستاتی ہے،ایسالگتاہے کہ ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجودان دونوں کاوجودخطرے میں ہے،وہ سوچتاہے،اورغوروفکرکی دنیامیں کھوجاتاہے تو یہ سوال اسے باربارپریشان کرتاہے: کیاہم محفوظ ہیں؟
کسی بھی ملک میں اکثریت کے ساتھ اقلیتوں اوردلتوں کی حفا ظت کی ذمہ داری حکومت اورسرکارکی ہوتی ہے ،مگران کامحفوظ رہنااورسلامت رہناہی کافی نہیں ہے،اسے یہ احساس ہونابھی ضروری ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔
سیاسی اعلانات میں، دستوروآئین میں اورمنشورمیں حکومت کے سربراہان کی طرف سے یہ اعلان کردیاجا ئے کہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہیں ہوگی،پرسنل لا میں مداخلت نہیں کی جائے گی،مذہب پرعمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی،اقلتیں اپنے آپ کومحفوظ سمجھیں،لیکن صورتحال یہ ہوکہ اقلتیوں کویہ اطمینان نہیں ہے کہ وہ محفوظ ہیں،تویہ اعلان کافی نہیں ہے۔
رات کاوقت ہے،ایک شخص گھرمیں سورہاہے،باہرپہرہ ہے ،ہرطرح سے حفاظت کے پختہ انتظامات ہیں،وہ خوداکیلابھی نہیں ہے،ساتھ میں گھروالے،اوردوسرے احباب بھی شامل ہیں،مگروہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہاہے،یقینااسے نیندنہیں آئے گی۔
خانہ کعبہ اللہ کاگھرہے،اوردنیاکاشایدہی کوئی مسلمان ہوگاکہ اسے دیکھنے کی آرزواورتمنائیں اس کے دل میں موجزن نہ ہو،وہ ہرنمازکے بعد،سوتے،اوراٹھتے ،بیٹھتے خانہ کعبہ کی زیارت اوردیدارکی دعائیں نہ کرتاہو،مگرداعش کی طرف سے یہ اعلان کیاجاتاہے کہ وہ جلدہی خانہ کعبہ کوتباہ وبربادکردے گا،مگرپھربھی عالمی میڈیاکی طرف سے داعش کی شکل وشباہت کومسلمانوں کی طرح پیش کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اورگھناؤنامزاق یہ کہ مسلم نوجوانوں کے تارکواس سے جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
جبکہ مذہب اسلام توامن کاپیامبرہے،وہ بہت ہی صاف ستھرہ مذہب ہے،وہ انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ہرطرح کے ظلم وجوراورقتل وغارت گری سے ہی منع نہیں کرتاہے ،بے زبان جانوروں کوبھی مارنے سے روکتاہے،اورداعش اس وقت کاسب سے بڑافتنہ ہے،وہ اسلام مخالف طاقتوں کی اولادہے، اسی کے کوکھ سے جنم لیاہے،اورمذہب اسلام کو نیست ونابودکرنااوراس کے پیروکاروں کاخاتمہ ہی اس کابنیادی مقصدہے۔
ہندوستان میں گنگاجمنی تہذیب کی روایت بہت پرانی ہے،برسوں سے اخوت وبھائی چارگی کارشتہ دیکھنے کوملتاہے،سبھوں کواپنے اپنے مذہب پرعمل کی آزادی رہی ہے،اوران سبھوں کے حقوق یکساں طور پر محفوظ رہے ہیں،مگرجانے انجانے میں اس میں دراڑپیداکرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
رام گڑھ کے اجلاس میں مولاناابوالکلام آزادؒ نے ایک بارخطاب کرتے ہوئے کہاتھا:’’میں مسلمان ہوں،اورفخرکے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں،اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں،میں تیارنہیں کہ اس کاکوئی چھوٹے سے چھوٹاحصہ بھی ضائع ہونے دوں ، اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ،اسلام کے علوم وفنون اوراسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے ، اورمیرافرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں،بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور(Cultural)دائرہ میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں ، اور میں برداشت نہیں کرسکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔
لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اوراحساس بھی رکھتاہوں،جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیداکیاہے،اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی،وہ اس راہ میں میری ر ہنمائی کرتی ہے،میں فخرکے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں،میں ہندوستان کی ایک اورناقابل تقسیم متحدہ قومیت کاایک عنصر ہوں ، میں اس متحدہ قومیت کاایک ایسااہم عنصرہوں جس کے بغیراس کی عظمت کاہیکل ادھورارہ جاتاہے، میں اس کی تکوین (بناوٹ)کاناگزیرعامل (Factor)ہوں، میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردارنہیں ہوسکتا۔‘‘
ہماری دوآنکھیں ہیں،دونوں سے ہماری محبتیں یکساں ہیں،اسی لئے کسی ایک کے بیچنے،اسے پھوڑ دینے پر ہم اتفاق نہیں کرسکتے،ٹھیک اسی طرح ہم مسلمان بھی ہیں،اورایک اچھے ہندوستانی بھی ، ہمارے اسلام پر فرق آئے ہم برداشت نہیں کرسکتے۔اورہندوستان کی خوبصورتی کو کوئی بربادکرناچاہے ہم اسے بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ چونکہ یہی ہمارااسلام ہمیں کہتاہے۔اوراسی کی تائیدہندوستان کا دستور اورآئین بھی کرتاہے۔
مذہب اسلام کی تعلیمات اورہندوستان کے آئین ودستورمیں کوئی تضادنہیں ہے،یہ اوربات ہے کہ سماج میں نفرت پھیلانے والے لوگوں نے دونوں میں تضادات ثابت کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں۔
ڈاکٹرامبیڈکرجن کی سرابراہی میں ہندوستان کادستوروآئین بن کر تیارہواتھا،وہ اپنے خطاب میں کہتے ہیں: ’’ میں اچھائیاں گنانے نہیں آیاہوں،سمبھیدھان کتنااچھاہو،اخیریں میں وہ براثابت ہوگا، اگر اس کے استعمال میں لانے والے برے ہوں،اورکتناہی براہو،اخیرمیں اچھاثابت ہوگااگراس کے استعمال میں لانے والے اچھے ہوں!!
ایک چینی ڈاکٹرایک دن مسجد گیا،اس نے دیکھاکہ ایک مسلمان منہ ہاتھ دھورہاہے۔ڈاکٹر اس شخص کے پاس گیااورپوچھاکہ جس طریقے سے آپ منہ ہاتھ دھورہے تھے یہ طریقہ آپ کو کس نے سکھایا ہے؟ مسلمان نے جواب دیا:اس طرح ہاتھ منہ دھونے کو ہم وضوکہتے ہیں،اوریہ طریقہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہم کو سکھا یاہے،ہم دن میں پانچ باروضوکرتے ہیں۔اس نے کہا:میں آپ ﷺ سے ملناچاہتاہوں وہ کہاں رہتے ہیں؟ وہ شخص بولا:ان کاتوچودہ سوسال پہلے انتقال ہوگیاتھا۔وہ بولا:میں چینی طریقہ علاج کا ماہر ڈاکٹرہوں، ہم جانتے ہیں کہ قدرت نے انسان کے جسم میں کھال کے نیچے 66؍ مقامات پرایک خاص قسم کے سونچ نصب کیے ہیں،چینی طریقہ علاج میں ان 66؍ مقامات پرایک خاص طریقہ سے مساج کیا جاتا ہے، جس سے پچاس سے زیادہ بیماریوں کامؤثرعلاج ہوتاہے۔میں نے دیکھاکہ آپ جس طریقے سے وضو کررہے تھے، اس میں آپ نے وضوکے دوران جسم کی ایسی 62؍ جگہوں پرہاتھوں سے مساج کیا،جہاں قدرت نے سوئچ نصب کررکھے ہیں اور دن میں پانچ دفعہ وضوکرنے کی وجہ سے آپ کی بہت سی بیماریاں خود بخود غیرمحسوس طورپرآپ کے جسم سے رفع ہوتی رہتی ہیں، جس کاآپ کواحساس بھی نہیں ہوتاہے۔میراخیال تھا کہ جس شخص نے آپ کو و ضوکایہ طریقہ سکھایا وہ یقیناانسانیت کادرددل میں ریکھنے والاایک عظیم محقق اورعلم طب کاماہرہوگا۔
اسلام کامادہ ہی سلم ہے،یعنی امن وسلامتی،ہمدردی اورخیرخواہی ،اوراس کااعتراف دنیاکے بڑے بڑے سائنس دانوں،ڈاکٹروں اورپروفیسروں نے بھی کیاہے،اورجب تک اسلام اوراس کی تعلیمات دنیامیں باقی ہیں، اس کی روشنی سے پوری دنیامنورہورہی ہے، انہیں کے وجود سے کائنات ارضی اور اس میں بسنے والے ہزاروں ، لاکھوں انسانوں اور دیگر مخلوقات کا وجود ہے،جس دن اللہ،رسول اوراس کی تعلیمات ایک بھی نام لینے والا دنیامیں نہیں رہے گا۔زمین پر بھیانک زلزلہ برپاہوگا،جسے ہم قیامت کہتے ہیں۔
ملک کی تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا،جن کی آن ،بان اور شان وشوکت کی نشانیاں اور پرشکوہ عمارتیں ہندوستان کے نقشے میں آج بھی موجود ہیں ،مگر ایک سازش کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کو ہرطرح سے کمزورومجبورکردیاگیا ہے۔تعلیمی ،ماقتصادی،سیاسی ،سماجی ،بلکہ ہرہر میدان میں وہ ظلم کاشکار ہیں ، اور ہمارے ساتھ ساتھ دلتوں کی حالت بھی بہترنہیں ہے،جومسائل ہمارے ساتھ ہیں،وہی حالات ان کے ساتھ بھی،ہاں!ہمارے نام کے ساتھ لفظ محمد جڑا ہوا ہے، اس لئے مصائب وآلام بھی زیادہ ہیں،مگر بقول مولانا ابوالکلام آزاد کہ ؒ :’’ آزمائشیں ہونگی،مگرجتناسورج اورچاندپریقین نہیں ہے اس سے زیادہ حق کی کامیابی اورسچائی کی جیت پرہمیں یقین ہے۔‘‘
اللہ کے رسول سرکاردوعالم ﷺ نے جب اعلان کیانبوت کا،اورکفروشرک سے لوگوں کومنع کیا،ایک خداکی طرف دعوت دی،اور360بتوں کی پوجااورپرستش سے روکا،اپنے خاندان کے لوگ دشمن ہوگئے،وہ لوگ جواپنے قبیلے کے چودھری سمجھے جاتے تھے،وہ بازاروں میں جاجاکرلوگوں سے کہتے کہ تم لوگ محمدکی بات نہ سننا، وہ توبڑاجادوگرہے،وہ باپ بیٹے میں جدائی کردیتاہے،ان مفادپرست چودھریوں کوپتہ تھاکہ اگر لوگ محمدکی بات سنیں گے تو حقیقت میں لوگ اسلام کے قریب ہونگے،اوران کے پیروکاربن جائیں گے۔
اورہندوستان کی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے،یہاں پربھی اہل سیاست اورسربراہان حکومت کی زبان مکہ کے چودھریوں سے کم نہیں،وہ صرف جانبدار ہی نہیں ہیں،ایک عظیم مشن کے تحت کی ان کی پلاننگ اس بات پرچل رہی ہے کہ ہندومسلم میں قربت نہ ہو،اورہندوستان کے فرقہ پرست عناصرکی مکمل حمایت انہیں حاصل ہے۔مگرپھربھی اچھے لوگوں سے یہ زمین بالکلیہ خالی نہیں رہی ہے،اورانہیں لوگوں کے طفیل ہندوستان کی خوبصورتی باقی ہے۔
ہاں یہ افسوس کا مقام ضرورہے کہ مسلمانوں میں سے ہی بعض احباب کی حمایت انہیں حاصل ہے،وہ مسلک کے نام پرمسلمانوں کو بانٹ تے ہیں،اور قیادت کے بھوکے،حکومت سے اپنی قربت اور نزدیکی بڑھانے کیلئے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر دہشت گردی کا الزام لگادیتے ہیں،شکل وصورت ایک ہے ،وہی ٹوپی اور ڈاڑھی ہے،اسلام مخالف طاقتیں بہت جلدی مان بھی لیتی ہیں،انہیں کیاپتہ؟یہ دیوبندی ہیں یابریلوی،سلفی ہیں یا جماعت اسلامی ،یاں یہ ضرورجانتے ہیں :’’الزام لگانے والابھی مسلمان ہے اور جس پر لگایاجارہاہے وہ بھی مسلمان ہے ،یعنی اسلام کی تعلیمات ہی دہشت گردی کی اصل وجہ ہے‘‘
ہم کہیں تو کس سے ،ہونٹ بھی اپنے ہیں اور دانت بھی اپنے،مگرہم یہ اتناضرور جانتے ہیں :ہم مسلمان ہیں ،اور جس مذہب کومانتے ہیں ،اس میں کوئی تقسیم نہیں ہے،کوئی بھید بھاؤنہیں،فسادیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے،یہی قرآن نے بتایاہے،یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ ہے؛اس کے باوجود جولوگ جھوٹ کی کھیتی کرتے ہیں ، اور ہمارے صبر کا باربار امتحان لے رہے ہیں ،ہم انہیں کہناچاہتے ہیں:
چاندکے نورکوقینچی سے کترنے والو!
جھوٹ کی شاخ پرمشکل سے ثمرلگتاہے

khalidanwarpurnawi@gmail.com
9934556027

SHARE