تجھے طوفاں بلاتے ہیں

مزمل الرحمن مدہوبنی

ملت ٹائمز؍
واقعی اس وقت ہمارے وطن ہندوستان کے دامن تقدیس پر اس سے برا کوئی بدنما داغ اور ہمارے ہم وطنوں کے لیے اس سے بڑا کوئی المیہ نہ ہوگا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح وبہبود کی بیشتر تدابیر وتجاویز بروئے کار لانے کے باوجود معاملہ جوں کا توں قائم رہ کر دیش اور دیش واسیوں بالخصوص مسلمانوں کی بدنصیبی وبدقسمتی کی شہادت دے رہا ہے، آج ان دور اندیش، نبض شناس ووقت شناس مجاہدین وطن کی ساری قربانیاں رائیگاں نظر آرہی ہیں، جنہوں نے ظلم وستم کے شکنجے میں گرفتار اس ملک کے روح فرسا حالات کو دیکھا اور اس کی دم توڑتی ہوئی نبض پراپنا دست شفقت رکھ کر اس کی سقامت وشقاوت کا اندازہ لگایا اور پھر جان ومال سب قربان کرکے اس کی حرماں نصیبی کو دور کیا اور اسے آزادانہ حیات جاودانی بخشی، پھر اس کی پشت پرعزت وعافیت کا پرسکون باغ سجاکر اسے ؂’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا* ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘‘ کے محبت والفت بھرے خطاب سے نوازا؛ نیز خون جگر سے سینچے ہوئے اس محبوب چمن کی مستقبل تابناک کرنے اور اس میں اپنے لیل ونہار بسر کرنے والے مختلف النوع طیور وعنادل کو اجتماعی طور پر راستۂ ترقی ہموار کرنے کے لیے باہمی الفت ومحبت اور یگانگت کا یوں پیغام دیا کہ ؂ ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا * ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا‘‘؛ کیونکہ ان تمام خونفشانی وجانفشانی پر مرتب ہونے والے ثمرہ کے انتظار میں اکائیوں سے اکائیاں ملتی گئیں، دہائیوں سے دہائیاں بغل گیر ہوتی رہیں اور اس طرح حسرت ویاس کے ۶۷/ برس یکے بعد دیگرے اپنی ترش روئی کے ساتھ گذر گئے؛ مگر وہ خواب جو انگریزوں کے ناجائز وظلم پرور تسلط وحکومت سے وطن عزیز کی سرزمین کو پاک کرتے وقت دیکھا گیا تھا، شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، قومی وملی یکجہتی، بلاتفریق رنگ ونسل، ذات وبرادری اور مذہب ومشرب، بحیثیت ہم وطن باہمی محبت ویگانگت رواج پانے کی ساری کوششیں تاراج ہوکر رہ گئیں؛ بلکہ ہزار نالہ وفغاں ہے اس پر کہ بجائے باہمی اخوت ومحبت اور بھائی چارگی کے اس ملک میں ذات پات اور دین ومذہب کے نام پر تعصب وعناد اور نفرت وعداوت کے مہلک مراسم ع ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کی تصویر بن کر رواج پانے لگے، طاقت وقوت کو ڈھال بناکر کمزور وناتواں کو پامال وبرباد کرنے کی ہر چہار دانگ میں ایسی شرانگیز ہوائیں چلنے لگیں کہ اعداد وشمار کے اعتبار سے اکثریت کی حامل گروہ نے اس ملک کی پاک ومقدس سرزمین کو اپنے ظلم وستم کے انسانیت سوز کھیل کا اکھاڑا بنالیا۔
اور پھر ملک کے تمام ہی اقلیتی فرقوں کو بالعموم اور ہم مسلمانوں کو بالخصوص اپنے ظلم وجور کا ہدف بناکر ہمارے ساتھ سوتیلے پن کو فروغ دینے لگا؛ چنانچہ چشم فلک شاہد ہے کہ ان ظالموں نے ہم پر ہمارا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے ہماری جان ومال، زمین وجائداد، دکان ومکان اور عزت وآبرو سب کو اپنے ظلم وستم کا تختۂ مشق بنالیا، ہماری مسجدیں، عید گاہیں اور تعلیم گاہیں سب ان غداران وطن ستم گروں کے ستم کے ہتھے چڑھ گئیں اور اس طرح ظلم وستم کا یہ بے مہار سلسلہ روز افزوں دراز ہوتا رہا؛ یہاں تک کہ اب حال کی خستگی وبدحالی کا یہ عالم ہے کہ فرقہ بندی وفرقہ پرستی کی یہ آگ زمانے کی برق رفتار ترقیوں کے دوش بدوش چل کر اس قدر پنپنے لگی ہے کہ ملک کا کوئی گوشہ اور انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس کی لپٹ سے محفوظ نہیں ہے آج جس طرف نظر اٹھاکر دیکھا جائے فرقہ واریت اوج ثریا پر ہے؛ بالخصوص برسر اقتدار سیاسی لیڈروں کا یہ حال ہوچکا ہے کہ نفرت وعداوت کی آگ لگانا اور کے شعلوں میں مسلمانوں کو جھونکنا ان کی زندگی کا محور بن گیا ہے، یہ ناہنجار وناعاقبت اندیش کبھی لو جہاد اور گھر واپسی کے نام پر ہمیں زخم لگاتے ہیں تو کبھی گؤ ہتیا اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ کھڑا کرکے ہمارے رستے ہوئے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں، غرضیکہ عرصۂ دراز سے مسلسل ظلم وستم کی بھٹی میں تپنا ہمارا مقدر بن گیا ہے۔
لیکن ان تمام کے باوصف ہماری صبر پیکر فطرت نے اہل وطن سے رواداری و وفاداری کی امید و آس لگائے تاہنوز لبوں کو مہر بند کر رکھا تھا، دل کلفتوں کی باڑھ کے باوجود زباں پر حرف شکایت لانے سے اباء کر رکھا تھا اور سست پا ظلم و تشدد کی یک طرفہ یورش و یلغار کی اینٹوں کا جواب پتھر سے دینے کی ہمت و استطاعت رکھنے کے باوجود لبادۂ صبر اوڑھ کر شبانہ روز ملک کے کروٹ بدلتے حالات اور ظلم و ستم کے کوکھ سے جنم لینے اولے نت نئے واقعات سے مصالحت و سمجھوتہ ہی کئے جا رہا تھا۔ مگر اب بہت دیر ہو گئی اور انتظار کا سورج ڈھل کر پردۂ حجاب میں جانے لگا ہے، نامردی و ناکامی کی کالی گھنیری شام اپنی تاریکیاں بکھیرنے لگی ہیں۔ مرغ دل ماحول کی وحشت نمائی اور اپنوں کی بے اعتنائی و بے وفائی دیکھ اپنی سوئے قسمتی پر کچھ اس طرح نالہ کشی کرنے لگا ہے کہ ’’وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی، میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال بے نوازی ‘‘اور اسی پر بس نہیں بلکہ حالات کی غیر معمولی سنگینیاں ہر چہار جانب سے ہمیں دستک دینے لگی ہیں۔ شب و روز کی تمام گھڑیاں ہمارے ساتھ ہوئی درندگیوں کی چشم دید گواہ بن کر دعوت انتقام دے رہی ہیں۔ کبھی دم صبح آفتاب عالمتاب دن کے اجالے میں ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہوئیں آبرو ریزیوں کی شرمناک داستان سناتا ہے، تو کبھی درمیان شب ستاروں کی جھرمٹیں ظلم و ستم کے ہاتھوں بے گھر ہوئے، ساز و سامان اور یار و مددگار سے عاری، رات کی تاریکیوں میں سسکیاں لیتے ہوئے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی آہ و زاریاں یاد دلاتی ہیں۔ کبھی ماضی کے جھروکے سے مسموع ہونے والی گجرات اور مظفر نگر میں ہوئے مسلم کش فسادات کے مظلومین کی چیخ و پکار ہم سے ہماری بزدلی کی شکایت کرتی ہے تو کبھی حال کے آئینہ میں محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل اور یعقوب میمن کی مظلومانہ پھانسی کی ابھرنے والی مجبور و بے بس تصویریں اس حقیقت کو وا نقاب کرتی ہیں کہ ’’کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن، ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے‘‘ مختصر یہ ہے کہ ظلم و ستم کے طلاطم خیز اس خونی طوفان کے شکنجے میں گرفتار ہماری قوم کی کشتی حیات کو بے کسی و بے بسی کے عالم میں حوادث و مصائب کے تھپیڑے کھاتے ہوئے دیکھ دیکھ کر زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ ہمیں للکارنے لگا ہے۔ اور سب بیک زباں ہوکر یوں پکار رہا ہے کہ ’’شناور ہو کر بھی ساحل کے جانب دیکھنے والے تجھے طوفاں بلاتے ہیں کناروں پر نظر کب تک‘‘
لہذا اب ہم پر ضروری ہے کہ بدون تاخیر جلد از جلد بیدار ہوں اور ردائے غفلت چاک کر کے اپنی اور اسلام کی عزت و ناموس بچانے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ اپنے درمیان سے مسلک و مشرب کے نام پر قائم گروہ بندی و جماعت بندی کی دیواریں ڈھا کر بحیثیت مسلم اور کلمہ گو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا‘‘ کی ایسی عملی تصویر پیش کریں کہ دشمن لاکھوں جتن کے بعد بھی ہمارے درمیان انتشار و خلفشار پیدا نہ کر سکے نیز اسلام اور شعائر اسلام پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اندر اسلامی غیرت و حمیت اور خود اعتمادی و خدا اعتمادی کی صفت پیدا کریں جنکے باعث فتح و نصرت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی قدم بوسی کیا کرتی تھی۔ اور پھر اتحاد و جمعیت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر باطل کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں؛ بلکہ حالات کی غیر معمولی سنگینیوں کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان ظالموں سے ایسا تاریخ ساز انتقام لیں کہ ہمارے وطن کی زمین اپنی وسعت کے با وجود ان پر تنگ ہو جائے۔ انکی ایک ایک ریشہ دوانیاں انہیں یاد کرا کر ایسا عبرت آموز سبق سکھائیں کہ انکی آئندہ نسلوں کے بھی سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ نیز ان ظلم شعار انسان نماں درندوں کو بھی پتہ چل جائے کہ ایک انسان بلکہ ایک مسلمان کے خون کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ اور شاعر انقلاب جناب دل خیرابادی کی آواز سے آواز ملا کر اپنی تعداد و کثرت پر اترانے والے خوش فہموں پر اس حقیقت کو ثابت کر دیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنا کر ان سے یہ باور کرا لیں کہ ؂
پھر بدل سکتا ہے تیور انہیں معلوم نہیں
*
ٹہنی بن سکتی ہے خنجر انہیں معلوم نہیں
بدر کیا چیز ہے یہ ذرا ان کو بتلاؤ
*
تین سو تیرہ کا لشکر انہیں معلوم نہیں
(مضمون نگار دارالعلوم دیوبند کے طالب علم ہیں )