ؒ نورالہدی شاہ
جنید جمشید کی موت پر مجھے آج زہرہ نگاہ سے سنی ہوئی ایک نظم یاد آ گئی ’’میں بچ گئی ماں‘‘۔ نظم ایک ایسی بیٹی کی زبان میں کہی گئی ہے جسے پیدا ہو کر سماج کی گندگی کی نذر ہونا ہے، مگر جسے ماں اس گندگی کی نذر ہونے سے پہلے ہی اپنی کوکھ میں ضائع کر دیتی ہے۔ اب وہ ضائع ہو چکی بیٹی زہرہ نگاہ کی نظم میں کہہ رہی ہے کہ ’’میں بچ گئی ماں‘‘۔ایسا لگ رہا ہے کہ جنید جمشید کو بھی اسے تخلیق کرنے والے نے اوپر ہی فضا کی کوکھ میں ضائع کر دیا، ہمارے ہاتھوں مزید گندا ہونے سے پہلے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور وہ اب کہیں بیٹھا کہہ رہا ہے کہ ’’میں بچ گیا ماں‘‘۔وہ ایک ایسا شکار تھا جس پر بیک وقت کئی عقابی نظریں مرکوز تھیں۔ ہر فرقہ اور ہر فرقے کا boss۔ کیا لبرل اور کیا دین دار۔ سب ہی نے آگ گرم کر رکھی تھی اس کے لیے۔
دین داروں کو جلدی تھی کہ ہم اسے اپنی جلائی ہوئی آگ کے ذریعے دوزخ میں بھیجنے کا اعزاز حاصل کریں گے اور اپنے جنّتی ہونے کا ثبوت دیں گے۔ لبرل اس آگ میں اسے ڈال کر اپنا سگار سلگاتا تھا کہ موسیقی جیسی روح کی غذا چھوڑ کر جدید دور کے انسان کو مذہب کی باتیں سنا کر بیوقوف بناتا ہے!
وہ خود اس بچے کی طرح تھا جو سارے کھلونے اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتا ہے۔ دین بھی، دنیا بھی۔ عشقِ اللہ بھی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔ کعبہ اسے پیچھے سے کھینچتا تھا اور کلیسا اس کے آگے آگے۔ شہرت اس کے پیروں سے لپٹی اسے زمین کی طرف کھینچتی تھی اور اْڑان وہ آسمان کی طرف بھرنا چاہتا تھا۔ دنیا اس کا دامن خالی نہیں کرتی تھی، جس کے بوجھ کی وجہ سے وہ بار بار اپنی اْڑان میں بے دم ہو کر گرتا تھا، پھر سے اْٹھتا تھا، پھر سے پر جھاڑتا تھا اور پھر سے اْڑان کی تمنا کرتا تھا۔ رہِ عشق کے مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو دنیا کو ٹھکرا کر تہی دامن سفرِ عشق پر روانہ ہو جاتے ہیں اور مڑ کر نہیں دیکھتے۔ مڑ کر دیکھیں گے تو پتھر کے ہو جائیں گے۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو رہِ عشق کے سفر میں پہلے والوں کے نقشِ کفِ پا پر پیر رکھ رکھ کر چلتے ہیں۔ ان کا شمار عشاق میں ہو نہ ہو مگر وہ شوقِ عشق میں مبتلا ضرور ہوتے ہیں۔ جنید جمشید بھی شوقِ عشق میں مبتلا تھا۔ اس شوق میں وہ بار بار دنیا کی رنگینیوں سے دامن چھڑاتا ہوا بھی دکھتا اور بار بار دامن تار تار بھی کر بیٹھتا۔شاید رامائن میں پڑھا تھا کہ ستی ساوتری وہ نہیں ہے جس کی آزمائش ہی نہ ہوئی ہو اور وہ ستی ساوتری رہ جائے۔ ستی ساوتری وہ ہے جس پر آزمائش بھی آئے اور وہ پھر بھی ستی ساوتری رہے۔ جنید جمشید بار بار آزمایا گیا اور فیل ہو ہو کر پاس ہوتا رہا اور پاس ہو ہو کر فیل ہوتا رہا۔
ایسا ہی تو ہوتا ہے انسان۔ کھنکتی بھربھری مٹی سے ایسا ہی تو بنایا گیا ہے انسان۔ بار بار بھربھرا کر بکھرتا ہوا اور کھنکتا ہوا اور سمٹتا ہوا۔ وہ انسان ہی کیا جو ہر صبح نیا جنم نہ لے اور ہر رات اس سوچ میں نہ پڑ جائے کہ نہیں نہیں، بات اب بھی کچھ بنی نہیں۔ پھر اگلی صبح وہ نیا جنم لے۔ پھر رات کو وہ اپنی مٹی کے ذرّے گنے اور کہے کہ بات اب بھی بنی نہیں۔ جنید جمشید بھی ایسا ہی جستجو کا مارا ہوا انسان تھا۔ جستجو انسان کو دنیا کی مرضی کے مطابق بننے نہیں دیتی۔ ہم اسے اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے اس کے شکاری بھی بہت تھے۔ وہ ہمارا لاڈلہ نہ تھا۔ وہ دراصل دکھائی دینے والا شکار تھا۔ جیسے ہرن ہوتا ہے! قلانچیں مارتا ہوا، اور شکاری اسے چاروں طرف سے گھیر رہے ہوتے ہیں۔ سب کو اپنے اپنے ثواب کے لیے یہ شکار اس کے حضور پیش کرنا تھا جو ہماری نیتوں کا حال ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ لبرل بھی شکار کھیلتا ہے مگر اپنے نظریے کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے۔ مولوی ثواب کا بھوکا ہے اور لبرل ثبوت کا بھوکا ہے۔
اس کے گرد شکاریوں کا گھیرا تنگ ہوتا چلا جا رہا تھا، اس لیے اب اسے جنگل سے چلے ہی جانا چاہیے تھا۔ ورنہ ہم اسے کبھی وہابی کہہ کر سنگسار کرتے اور کبھی عشق رسول کا مجرم قرار دے کر گولی مارتے اور جنّت کماتے۔ کبھی کافر ثابت کرتے اور کبھی گستاخ قرار دیتے۔ کبھی اس کے مولوی ہونے کا مذاق اڑاتے اور کبھی اس کی گلوکاری چھوڑنے کو بنیاد پرستی قرار دیتے۔ کبھی اسے پیسے کا لالچی کہہ کر مذہب بیچنے والا قرار دیتے اور مطالبہ کرتے کہ اسے بھوکا مرنا چاہیے۔ اپنے اپنے گناہوں اور خطاؤں اور مکّاریوں اور چال بازیوں کی فائلیں بغل میں دبائے اس کا حساب باریک بینی سے لکھتے جاتے۔گو کہ ابھی ہم نے اسے گلیوں میں گھسیٹنا تھا اور اس پر سنگ زنی کر کے ثواب کا کاروبار بھی چمکانا تھا مگر اللہ اس پر مہربان ہو گیا اور اسے اس پاگل قوم کے ہاتھوں مزید رسوا ہونے سے بچا لیا۔
اب یہ قوم چاہے اسے بڑے اعزاز کے ساتھ رخصت کرے اور اسے شہید قرار دے! یا پھر مفت میں ثوابِ دارین حاصل کرنے کے لیے اس کی نمازِ جنازہ کو حرام قرار دے! یا پڑھے لکھے لوگ مولوی کے مرنے پر افسوس کرتے ہوئے شرمائیں اور صرف گلوکار کی تعزیت کریں! مگر وہ بہرحال بچ گیا۔ اس نے اللہ کے راستے پر اپنا پسندیدہ کام آخری بار سر انجام دیا، جہاز میں سوار ہوا اور فضاؤں کی کوکھ میں ضائع ہو کر بچ گیا۔مگر مجھے آج پہلی بار اس پر صرف پیار آ رہا ہے۔ آج پہلی بار جنید جمشید کی طرف غور سے دیکھا تو جانا کہ یہی تو ہے وہ باغِ بہشت سے نکالا گیا انسان، جو نہ اپنے رب کو چھوڑ پاتا ہے اور نہ دنیا سے نجات حاصل کر پاتا ہے۔(ملت ٹائمز)
(بشکریہ ہم سب پاکستان)