عبدالرحمن عابد
سال دوہزار سولہ کا اختتام ہے یہ سال پوری دنیا میں انقلابات کا سال رہا ہے۔
یورپ کے کئی ملکوں میں حیرت انگیز طور پر پالیسی انقلاب برپا ہوئے ہیں خاص طور سے فرانس کی پالیسی گلف ممالک کے مہاجرین کے سلسلے میں اہم تبدیلیوں کا شکار ہوئی ۔ شام سے زندگی بچا کر جانے والے مہاجر ین کے لئے فرانس نے فراخدلی سے اپنے دروازے کھولے اور اپنے حلیف ملکوں سے بھی مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے کی اپیل کی لیکن فرانس اور دیگر یورپین ممالک میں مسلمانوں کو جائے پناہ ملنا بھی دشمن طاقتوں کو گوارا نہ ہو سکا لہٰذا سازشیں رچ کر تخریبی طاقتوں نے تباہ کن دھماکوں کے ذریعے فرانس ہی کو نہیں پورے یورپ کو دہلا دیا اسی طرح کی سازش ترکی اور دوسرے ممالک میں انجام دی گئیں۔ اس طرح مسلمانوں کے لئے یورپ اور یورپ کی مدد سے دوسرے ملکوں کے کھلنے والے دروازوں کو پوری طرح کھلنے سے پہلے ہی بند کرادیا ، نتیجہ میں فرانس اور اس جیسے دیگر ممالک کی ہمدردیوں سے بھی مسلمانوں کو محروم ہونا پڑا ۔ مسلمانونکے نام پر کھیلے جانے والے یہودی دہشت گردی کے کھیل کو ایک بار پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر شیطانی چکر چلا نے اور انسانی خون بہانے کا نادر موقعہ مل گیا ۔!
شام میں بشارالاسد کی فوج نے جو تباہی مچائی اس کے لئے بھی سال دوہزار سولہ یاد رکھا جائے گا بشار کے مظالم کے خلاف دنیا کی سپر پاور کہلانے والا امریکا بہادر بھی کچھ نہیں کر سکا جبکہ اسکے برعکس روس نے بشار کی حمایت کرتے ہوئے شام کے عوام پر بم برسانے میں درندگی کی تمام حدود کو پار کرکے بستیوں کی بستیاں اور شہر کے شہر تباہ و برباد کر دئیے اور امریکا سمییت ساری دنیا تماشائیوں کی طرح دیکھتے رہی کیونکہ مرنیوالے ہرطرف مسلمان ہی تھے ۔!
اسرائیل کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور ساری سپر پاورس کسی بھی حد تک جا نے کو تیار ہیں ۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ شاہد ہے کہ خلیج کےمسلمانوں کے دم پر اسرائیل کو مسلط کرنے کے لئے اقوام متحدہ روس برطانیہ امریکا نے کوئی کور کسر نہیں چھوڑ ی ۔ آج بھی دونوں سپر پاور امریکا و روس بظاہر اپنے اپنے مفاد کی خاطر اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور گلف کے مسلمانوں کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں ۔ داعش امریکا اور اسرائیل کا کھلونا ھے یا آلہ کار کہہ لیجئے اسی کے ذریعے منفی حرکتیں کرانا اورانکا پروپیگنڈہ کراکر اسلام کی تصویر مسخ کر کے پیش کرنے کی منصوبہ بند مہم چلا کر اسلام کا راستہ روکنے کی سازشیں عمل میں لائی جا رہی ہیں ۔ دوسری طرف چھوٹے چھوٹے گھروندوں کی صورت اختیار کر چکے مسلم ممالک بےبسی کے ساتھ تماشائیوں میں شامل ہیں .. کچھ اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے ظالم طاقتوں سے ظاہرا یا خفیہ سمجھوتے کرچکے ہیں ۔ اور کچھ خوف زدہ ہین ؛
ایران مسلکی تعصب کی وجہ سے ظالم بشارالاسد کی حمایت میں خود بھی مظلون کے خون مين گردن تک ڈوبا ہوا ہے اس نے اپنےہی روحانی پیشوا بانی انقلاب اسلامی ایران امام آیت اللہ خمینی کے اصولوں کو روند ڈالا یا اسلام دشمنوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا ہے !
جاتے جاتے دو ہزار سولہ کا ایک بین الاقوامی کارنامہ یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ گزشتہ نصف صدی میں اقوام متحدہ میں پہلی بار یہ دیکھنے کو ملا کہ اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر امریکا نے ویٹو نہیں کیا ۔ جس کی وجہ سے غزہ کی بستیوں میں اسرائیلی قبضے اور توسیع پسند اسرائیلی تعمیرات کے خلاف کوئی قرارداد آسانی سے منظورکر لی گئی حالانکہ اس سے اسرائیل کو زبردست چرکہ لگا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد امریکہ اسراءىیل کو اسپر صفاءی دے رہا ھے دوسری طرف نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً ہی اسرائیل کو دلاسہ بھی دیا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اس کے مفادات کی تکمیل کیلئے اقدامات کریں گے۔
ایک اور عجیب و غریب واقعہ یہ پیش آیا کہ پاکستان اور اسرائیل کے وزراء خارجہ کے درمیان باالواسطہ طور سے ایک دوسرے پر ایٹم بم سے حملہ کرنے کی دھمکی دینے کی خبریں شائع ہوئیں ، ہوا یہ کہ ٹوئٹر پر اسرائیلی وزیر خارجہ کی طرف سے بیان آیا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اگر اس کی دہشت گردی سے اسرائیل پر آنچ آئی تو اسرائیل پاکستان پر ایٹمی حملہ کر دیگا ۔ جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل یہ کیونکر بھول گیا کہ پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ بھی اسرائیل کو سبق سکھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔ حالانکہ بعد میں اسرائیل کی طرف سے اپنا بیان فرضی قرار دیکر معاملے کو رفع دفع کر دیا گیا ۔ لیکن سمجھنے والی بات یہ ہیکہ انصاف کے خود ساختہ چودھریوں نے اسرائیل کو ہر ظلم کی کھلی چھوٹ کیوں اور کس لئے دی ہو ہے ؟ عربوں کی تیل کی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ساتھ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر تیزرفتار اقدامات کا کیا مطلب ہے ۔؟ مسلمانان عالم کو سوچنا ہوگا کہ سال انیس سو اڑتالیس 1948 عیسوی میں صہیونی اسرائیلیوں نے ایک سو سال کے اندر اسرائیل کی راجدھانی مدینہ منورہ کو بنانے کا جو اعلان کیا تھا اسرائیل اسکی طرف بہت منظم منصوبے کے مطابق تیزی کے ساتھ قدم بڑھارہا ہے ۔ جبکہ مسلم ممالک اور علماء مسلکوں شیعہ سنی علاقوں عربی عجمی لباس و کلچر کے ساتھ گھروندے نما حکومتوں کے لئے لڑنے میں مصروف ہیں ۔۔!
سال دوہزار سولہ کو اسلئے بھی یاد کیا جائے گا کہ ہند پاک تعلقات کی کھٹاس مٹھاس کا ذاءىقہ جس تیزی کے ساتھ بدلتے دیکھا گیا وہ بھی شاید دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلا ہی اتفاق تھا کہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ والے محاورے کو عملاً صادق آتے ہوئے دیکھا گیا ۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے سرکاری سطح پر بڑی کو ششیں کی ہیں کہ کسی طرح دونوں ملکوں کے مسائل و معاملات کو گفتگو کے ذریعے حتمی طور پر حل کرکے ہمیشہ کے لئےدشمنی کے باب کو بند کردیا جائے ۔ ان کوششونکو کس کی نظر لگی اور کیوں لگی نہیں معلوم لیکن اس معاملے کا انجام بہر حال اچھا نہیں ہو ا – کہیں نہ کہیں نچلی سطح پر معاملے کو الجھا نے والے دونوں طرف حکومت کے اندر ہی موجود ہیں جنکے مفادات دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات اور اتحادی حکمت عملی کی وجہ سے خطرے میں پڑ تے ہیں ۔۔ انکے علاوہ دونوں ملکوں کی افسر شاہی میں بھی ایسے عناصر یقیناً موجود ہیں جو دوطرفہ دشمنی اور حریفانہ رویّوں میں ہی اپنی ترقی اور کمائی کے کھیل کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر دوطرفہ تعلقات خوشگوار ہوگئے تو سیکورٹی اور دہشت گردی کے نام پر ملنے والے فنڈ سے موٹی اور بے خطر کمائی سے انکو یقیناً محروم ہو نا پڑے گا ۔۔ اسی لئے وہ نہیں چاہتے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں متنازعہ مسائل اور معاملات کو حل کرکے انکی کا لی کمائی کے سروت کو ہی بند کردیا جائے !
یہی وجہ ہیکہ جب سے مرکزی حکومت نے نوازشریف حکومت سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تھا تبھی سے اس کو سبوتاژ کر ے کیلئے بھی سرجیکل اسٹرائیک شروع ہوگئی تھی۔ مودی حکومت میں شامل بڑبولے وزرا ء تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی چاہت میں جہاں تہاں شیخی بگھار نے میں لگے رہے اور یار لوگوں نے اندر ہی اندر سرجیکل کردیا یایون کہین کہ کار سیوا کردی ۔ وزیراعظم مودی اگر پاکستان سے رشتے سنوارنے اور ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی منفی سوچ کو بدلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس میں شک نہیں کہ نریندرمودی ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوجائیں گے لیکن یہ کام جتنا اہم ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے ۔۔ دنیا میں ناممکن تو اب کچھ بھی نہیں رہا لیکن نوٹ بندش کی کرکری کے بعد مودی کے لئے ضروراب یہ کام دور کی کوڑی لگنے لگے ہیں ۔۔!
دوہزار سولہ کاسال ہندوستان کی سیاست میں اسلئے بھی مدت تک یاد رکھا جائے گا کہ اسکے آخر میں ہندوستان بھر کے لوگ پیسے پیسے سے پرشان ہوگئے بچے بوڑھے عورت مرد ملک کے طول و عرض میں اپنے ہی پیسوں کو حاصل کرنے کے لئے بھکاریونکی طرح لائنوں میں لگے کھڑے رہے ۔۔
جس طرح پیسوں کے لئے ملک میں ہاہاکار مچی گزشتہ ستر سال میں کبھی ایسی ابتر صورتحال کسی نے نہ کبھی دیکھی نہ سنی تھی لیکن بی جے پی اس بات کو آج بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ نوٹ بندی عوام کے لئے راحت نہیں مصیبتوں کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ لوگوں کے روگار ختم ہوئے ہیں کسانوں کی فصلیں برباد ہو ئی ہیں مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی تک کی نوبت آگئی ہے ۔ حکمراں جماعت کے لوگوں کو حماقتیں اچھا لنے سے ہی فرصت نہیں عوام کی تکالیف کااحساس تو بی جے پی نیتاؤنکے آس پاس بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ اس معاملے میں خود وزیراعظم کا رویہ بھی غیر ذمہ دارانہ ہے وہ بھی عوامی تکلیف دور کرنے کے بجائے اپوزیشن کو کو سنے میں مصروف ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ایسالگتا ہے کہ وزیراعظم پانی پی پی کر اپوزیشن کو کوستے دکھائی دیتے ہیں ۔۔
اتر پردیش کے الیکشن اور ملک بھر کی سیاست اسوقت نوٹ بندش کے گرد ہی گردش کر رہی ہے ممتا مایا راہل ارو کیجریوال وغیرہ زیادہ سنجیدگی سے اس مسئلہ پر لڑائی لڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن حکمراں جماعت کے لیڈروں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ ہر ایک اپوزیشن لیڈر کو اور پارٹی کو بلیک میل کرنے کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں اور اسی پر کام کر تے ہیں ۔ جو بھی لیڈر حکومت کے فیصلہ کی تنقید کرتے ہیں فوراً حکومت انپر ذاتی اٹیک کرنا شروع کر دیتی ہے اس سے کچھ کمزور لیڈر ضرورخاموش ہوئے ہیں لیکن مایاممتا راہل اروند جیسے مضبوط لیڈروں کو حکومت کی اس غلط حکمت عملی کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ عوامی حمایت کا زبردست فائدہ ہوا ہے اور مزید ہونے والا ہے۔
دوہزار سولہ کے سال کو ہندوستانی عوام آسانی سے اس لئے بھی فراموش نہیں کر پائیں گے کہ اس پورے سال میں ملک کی اقلیتوں اور دلتوں پر ظلم و ستم کا بول بالا رہا دادری مین اخلاق مرحوم کے قتل کے بعد ملک بھر میں گائے اسمگلنگ کے بہانے تراش کر مسلمانو پر یلغار کردی گئی تھی ملک کے طول و عرض میں جگہ جگہ مسلمانوں کے جان و مال پر ہاتھ ڈالا گیا اور مسلمان روتا بلکتا رہا لیکن سب کا ساتھ سبکا وکاس والی حکومت کو مسلمانوں پر ذرا بھی ترس نہیں آیا قتل و خون اور نفرت کا جنونی کھیل جب ایک کاروبار بن گیا تو اسکی زد میں دلت بھی آگئے لیکن وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی دوسوسال پہلے والے دلت ہیں ۔ مجھے یاد ہے سابق وزیراعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن لاگو کیا تو بی جے پی نے اسکے خلاف پر تشدد طلبا تحریک چلائی تھی اس وقت رام بلاس پاسوان نے کہا تھا کہ یہ آزادی سے پہلے کے دلت نہیں ہیں کہ خوف زدہ ہوکر چھپ جاءینگے یہ کا نشی رام اور پاسوان کے دور کے دلت ہیں یہ منوواد کو مسلط کرنے والا سماج نہیں بنانے دینگے۔
حالانکہ آج وہی پاسوان منواد کے قدموں میں صبح شام ڈنڈوت کر رہے ہیں لیکن مایاوتی اور گجرات کی دلت تنظیموں نے واقعی یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ آزادی سے پہلے کے نہیں آج کے مایاوتی دور کے دلت ہیں جو صرف برہمن واد کو ہی نہیں حکومت کو بھی سدھارنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ گجرات میں گائے کے نام پر دلت لڑکوں کو پیٹا گیا تو دلتوں نے مردہ گا یوں کو اٹھانے سے منع کرتے ہوئے مردہ گایونکو گاڑیوں میں بھر کر کلکٹر کے دفتر پر لا ڈالا اور کہا کہ یہ جنکی ماتا ہے وہی اس کا انتم سنسکار کریں ہم نہیں اٹھا ئیں گے ۔۔۔ دلتوں کے اس غیر متوقع طرزعمل نے ناگپور سے لیکر دہلی تک کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا اس پوری دلت تحریک کے پیچھے کھڑی ہوئی بہوجن سماج پارٹی کی سپریم لیڈر کماری مایاوتی نے گجرات سے ہوتے ہوئے یوپی بہار وغیرہ میں جہاں بھی دلتوں پر حملے ہوئے وہیں اسکے خلاف مورچہ کھول دیا ۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مایاوتی پہلی بار سنگھ پریوار اور بی جے پی کے نشانے پر آگئی ہیں ۔ بی جے پی حکومت اور پارٹی بہت سوچ سمجھ کر مایاوتی اور انکی پارٹی کو ٹارگیٹ کر رہی ہیں بی جے پی اور سنگھ پریوار کسی بھی طرح یوپی الیکشن میں دلت قیادت کا خاتمہ کر کے دلتوں کو پھر سے برہمن واد کا غلام بنانے کی ہرممکن جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ !
سال دو ہزار سولہ کشمیر کے لئے بھی خاص رہا ہے پے مفتی سعید مرحوم کی پی ڈی پی کے ساتھ ملکر مشترکہ حکومت کے قیام سے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی نے ایک نئی کروٹ لی مفتی سعید مرحوم تک تو بی جے پی کوئی خاص رنگ نہیں دکھا سکی لیکن مفتی سعید کی موت کے بعد محبوبہ مفتی کو بی جے پی نے مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا اور اب بی جے پی کھل کر کشمیر میں اپنا کھیل رہی ہے ۔ ادھر کشمیری نوجوان مرحوم برہان وانی کی موت کے بعد وادی کشمیر کے حالات نہایت ابتر ہو چکے ہیں شاید کشمیر کی تاریخ میں اتنا طویل کرفیو کبھی نہیں دیکھا گیا ۔ شروع میں مودی سرکارمسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی سمت میں کافی بہتر طریقے سے قدم بڑھا ئے لیکن کسی کی نظر لگ گئی یا کسی کی سازش کام کر گئی کہ برہان وانی کی موت کا واقعہ رونما ہوا اور اسکے بعد جو ہوا آپ کے سامنے ہے ۔ پاکستان ہندوستان کے رشتوں میں بھی کشمیر کی وجہ سے تلخیاں بڑھ گئی ہیں ۔آگے کیا ہوگا اللہ جانے ۔ ابھی تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر اور کشمیریوں کے لئے سال دوہزار سولہ بہت دردناک رہا ہے ۔۔
دو ہزارسولہ مسلمانوں پر یلغار کا بھی سال رہا ہے لوجہاد ، مدرسوں پر نشانہ ، گھر واپسی ، گئو رکشا ، قربانی پر نشانہ ، تین طلاق کے بہانے شریعت پرحملے درگاہوں میں داخلے کے نام پر شریعت پرنشانہ ، پردے کے نام پر شریعت میں مداخلت کے بہانے ڈھونڈ نا بیف کے نام پر گئو کے نام پر مویشیوں کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا اور اب شاید مسلمانوں کو مذہب اور شریعت پر عمل کرنے کے لئے بھی لیمٹ طے کرنا چاہتی ہے شاید وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سرکار سے اجازت لیکر ہی نماز روزہ ادا کرسکیں۔ مسجد مدرسے کی تعمیر مرت کے خلاف آئے دن کے ہنگامے کرنا تو معمول بن گیا ہے ۔۔ قانون کے نام پر مسلمانوں کو یکطرفہ گھیر نا شریعت پر عدالتوں کے ذریعے وار کرنا وغیرہ کارنامے ایسے ہیں جو مودی سرکار میں مسلمانوں کے خلاف یلغار کے طور پر سال دوہزار سولہ کو یادگار سال بنا گئے شریعت کا تیا پانچہ کرنے کی چاہت کو سنگھ پریوار بے قرار ہے …!