فضلاء مدارس اور سوشل میڈیا

محمد افسر علی
ایک وہ زمانہ تھا،جب ہر چیز پر اسلامی چھاپ تھی، ہر فن کے رگ و ریشہ میں میں اسلام سرایت کرگیا تھا، سیاست، معیشت، تجارت، طب و صحت، تاریخ و سیاحت، ادب و فلسفہ، کیمیا اور منطق کے قلب و جگر میں علوم اسلامی نے اپنا نشیمن بنالیا تھا، ہرعلم و فن پر مسلم اسکالروں کی بالادستی قائم تھی، پوری دنیا اسلامی تعلیمات ہی کی روشنی میں سوچتی اور اس کی زبان میں لکھتی پڑھتی، بولتی اور تصنیف و تالیف کرتی تھی.
ہمارا ماضی اگر روشن اور تابناک ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے زمانہ کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا، زمانہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی، اسلام کا دفاع، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامی اسلوب میں کیا، اسلام دشمن عناصر جس ہتھیار سے مسلح ہوکر اسلام پر حملہ آور ہوئے، علماء نے اس کا دفاع اسی انداز سے کیا، جب فلسفہ سے اسلام پر یلغار ہوئی، تو علمائے متکلمین یہ کہہ کر خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ فلسفہ باطل ہے، یہ دہریت اور لادینیت پر مشتمل ہے؛ بلکہ اسلام کا دفاع کیا اور فلسفہ کا جواب فلسفہ سے دیا، صرف جواب ہی نہیں دیا، منطق اور فلسفہ کو مسلمان بھی بنادیا-
اس وقت اسلام پر جو منظم طریقہ پر یورش ہورہی ہے، اس میں سب سے اہم کردار پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کا ہے، تمام ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے، وہ جس خبر کو جس طرح چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں اور دل و دماغ پر بٹھا دیتے ہیں-
یہ ذرائع ابلاغ ہی کا کمال ہے کہ جس کے ذریعہ آج اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے اور تو اور مسلمان کا ایک طبقہ متأثر ہورہا ہے، ہمیں یہ کہنے سے دنیاوی مشکلات سے نجات نہیں مل سکتی ہے نہ صحافتی مہم اور حملہ کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اس باز پرس سے بچا جاسکتا ہے، کہ “ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، اور صحافت پر گندگی کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے،اخبارات، جرائد و رسائل اور سوشل میڈیا میں حوا کی بیٹیوں کی عریاں اور نیم عریاں تصویریں ہوتی ہیں۔
آج کی صحافت بے حیائی کو فروغ دے رہی ہے؛ اس لئے یہ ناجائز وحرام ہے” محض نفرت اور کنارہ کشی اس کاعلاج نہیں ہے، بلکہ حکمت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس میدان کو صاف کرنے کی ضروت ہے، اس کے ذریعہ جہاں اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کی جاسکتی ہے، وہیں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی نجی مجلسوں اور کمروں میں بیٹھ کر اظہارِ افسوس اور تبصروں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں، اپنے فنی و مادی وسائل کو بروئے کار لاکر ذرائع ابلاغ پر اپنا تسلط جمائیں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک، سوشل میڈیا کی طاقت اپنے حق میں استعمال کرنے کی جد وجہد کریں، اس میدان میں اہم پیش رفت کے بغیر مدارس اسلامیہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوسکتے ہیں، کم ازکم سوشل میڈیا میں تو ہم سرم گرم رول ادا کرہی سکتے ہیں۔
خدا کرے فضلاء مدارس کی ایک ٹیم تیار ہوجائے جو اس میدان میں سر گرم ہو اور اسلام کی ترجمانی کرے
اور اعتراضات کا جواب دے۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے نمائندہ ہیں)
(E-mail)afsarqasmi0@gmail.com

SHARE