ایک بہتر زندگی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے: انیس الرحمن قاسمی مسلمانوں میں صدفیصدتعلیم کے لیے مسلم آبادیوں میں اداروں کا جال بچھانا لازمی ہے: مصطفی رفاعی قادری

جہان آباد : (پریس ریلیز) علم آج سے چودہ سو سال قبل دین اسلام میں فرض قرار دیا گیا۔ بتایا گیا کہ علم حاصل کرنا ہر بالغ مرد و عورت پر فرض ہے، یہاں تک کہا گیا کہ علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین کا سفر کرنا پڑے تو کرو، مگر علم حاصل کرو،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جس امت کو سب پہلے علم حاصل کرنے کو کہا گیا،آج وہی قوم تعلیم کے معاملے میں سب پیچھے ہے۔ کئی سرکاری رپورٹس نے بھی اس کو واضح کیا ہے کہ تعلیم کے معاملے میں دیگر قوم سے مسلم قوم غیرمعمولی طورپرپسماندہ ہے۔ آخر ہم اس جانب کب بیدار ہوں گے؟ گاؤں علاقوں میں جلسہ منعقد کر تعلیم کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنا اچھی بات ہے، مگر خیال رہے یہ صرف جلسہ تک ہی محدود نہ رہے۔ مذکورہ باتیں آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرمولاناانیس الرحمن قاسمی چیئرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے کائنات انٹرنیشنل اسکول،کاکو،جہان آباد سے خطاب کرتے ہوئے کہی،انہوں نے مزیدکہاکہ تعلیم کو معاشرہ اور ایک بہتر زندگی کے لئے لازمی قرار دیاگیاہے اور معاشرہ کے اصلاح کے لئے پہلے ہمیں خود اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے کردار و عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اس نبی کی امت ہیں جس نے پوری دنیا کو اخلاق کا درس دیا۔ جس نے سب سے پہلے تعلیم کو حاصل کرنا بتایا۔ آل انڈیاملی کونسل کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری مولاناسیدمصطفی رفاعی قادری ندوی نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت تسلیم شدہ ہے؛مگرتعلیم کے سلسلے میں مختلف تعلیمی رپورٹوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ مسلم طلبہ اورعام بالغ مسلمانوں کی خواندگی کی شرح قومی شرح خواندگی سے کم ہے،اوریہ فرق دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں زیادہ ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 6سال سے 14سال کی درمیانی عمروالے تقریباً 20فیصدمسلم بچے یاتوکبھی اسکول جاتے ہی نہیں اور جاتے بھی ہیں تودرمیان میں ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں،یہی حال اعلی تعلیم کاہے۔شہری علاقوں کے مردوں میں گریجویشن مکمل کرنے کاامکان ایس سی اورایس ٹی سے بھی کم ہوتاہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ جہاں تک خواتین کی تعلیم کاتعلق ہے شہری علاقوں میں یہ فرق کافی نمایاں ہے، شیڈولڈکاسٹ اور شیڈولڈٹرائب کے مقابلے مسلم خواتین کی شرح خواندگی کافی کم ہے،اس کی ایک وجہ مسلم علاقوں میں لڑکیوں کے لیے اسکولوں خاص طور پر گرلس ہائی اسکولوں کی عدم موجودگی ہے۔ کالج تواوربھی کم ہیں؛اسی لیے ہمارے طلبہ وطالبات ہائرسکنڈری اورکالج کی سطح پرنسبتاًزیادہ نقصان میں ہیں۔ مسلمانوں میں صد فیصد تعلیم ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی آبادیوں میں تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا جائے اورانہیں خصوصی مراعات دے کر تعلیم کی طرف لایا جائے۔تعلیم گاہ،گھر اورسماج کے ماحول کو تعلیمی بنایا جائے اورتمام طلبہ وطالبات کو تین سال کی عمر میں تعلیم سے جوڑا جائے۔ اسی لیے  آل انڈیا ملی کونسل نے ملکی سطح پر سماج کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی غرض سے ہدف ”مشن تعلیم 2050ء“ مقررکیا ہے، تاکہ جہل کے اندھیروں میں بھٹک رہی قوم کو علم کی روشنی عطاکی جائے،اس سلسلے میں ملکی سطح پر متعدد چھوٹے بڑے سیمیناروں اورپروگراموں کا انعقادکیا جا رہا ہے،یہ تحریک 2021ء سے 2050ء تک جاری رہے گی۔ارشاداللہ صاحب چیئرمین سنی وقف بورڈ،جناب احمداشفاق کریم صاحب ممبرآف پارلیمنٹ،احمدولی کریم ڈائریکٹرالکریم یونیورسٹی، وغیرہ نے اپنے خطاب میں تعلیم کوحاصل کرنے اوراس کی مہم چلانے پرزوردیااورمظہری صاحب صدرکائنات انٹرنیشنل اسکول، شکیل احمدکاکوی بانی کائنات انٹرنیشنل اسکول نے بچوں کے تعلیم کی تعریف کی،اس پروگروم میں ملی کونسل بہارکے رکن مولانااسلم مظاہری،جناب کلیم رحمانی کے علاوہ  کاکواورشہرکے لوگ بڑی تعدادمیں شریک تھے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com