2022 میں ہونے جا رہا اتر پردیش اسمبلی انتخاب سماجوادی پارٹی کے لیے کئی معنوں میں بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ریاست میں لگاتار 3 انتخاب ہار چکی سماجوادی پارٹی کے وجود کے لیے یہ انتخاب بہت معنی رکھتا ہے۔ سماجوادی پارٹی اس بار نئی پالیسی اور زبردست تیاری کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے جا رہی ہے۔ 2017 کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے بوتھ سطح تک کی زبردست تیاری کے ساتھ ساتھ ریاست میں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر اہم ذاتی فارمولہ تیار کیا تھا، جس کا بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ بھی ملا تھا۔ بی جے پی کی اسی پالیسی سے سبق لیتے ہوئے سماجوادی پارٹی نے اس بار بڑی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی جگہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لے کر انتخاب میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی اب تک سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی، راشٹریہ لوک دل، مہان دل، جنتا وادی پارٹی اور اپنا دل (کمیراوادی) کے ساتھ اتحاد کر چکی ہے اور حال کے دنوں میں عآپ راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ کے ساتھ بھی اکھلیش یادو کی ملاقات ہو چکی ہے۔
خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کے ساتھ خصوصی بات چیت میں سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے بھی دعویٰ کیا کہ 2014، 2017 اور 2019 کے حالات الگ تھے اور 2022 کے حالات مختلف ہیں۔ ان چھوٹی پارٹیوں کے بنیادی ووٹ بینک کے سہارے انتخاب جیتنے کے لیے پراعتماد اکھلیش نے تو آئی اے این ایس کے ساتھ بات چیت میں یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ اس بار ریاستی عوام بی جے پی کا صفایہ کرنے جا رہی ہے۔
دراصل 2017 کے اسمبلی انتخاب کی بات کریں تو اس میں بی جے پی کو ساتھی پارٹیوں کے ساتھ ملا کر تقریباً 3.59 کروڑ ووٹ کے ساتھ 325 سیٹو پر جیت حاصل ہوئی تھی، جب کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کر انتخاب لڑنے والی سماجوادی پارٹی کو تقریباً 1.89 کروڑ اور کانگریس کو تقریباً 54 لاکھ ووٹ ملے تھے۔ اس وقت سماجوادی پارٹی کو صرف 47 سیٹوں پر ہی جیت حاصل ہوئی تھی جب کہ کانگریس محض 7 سیٹ پر ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
اس بار سیاسی حالات بدلے ہوئے ہیں۔ 2017 میں این ڈی اے اتحاد کا حصہ رہی اوم پرکاش راجبھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی اس بار سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ رہی ہے۔ وہیں کانگریس بھی اس بار سماجوادی پارٹی سے الگ ہو کر انتخاب لڑنے جا رہی ہے۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج تقریباً 1.7 کروڑ ووٹوں کے فرق کو ختم کرنے کا ہے تاکہ اسے بی جے پی سے زیادہ ووٹ حاصل ہو سکے۔
سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ اور یادو فیملی کے اہم رکن دھرمیندر یادو نے آئی اے این ایس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ووٹوں کا یہ فرق بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس سے پہلے 2012 میں ہم نے ریاست میں حکومت بنائی تھی۔ انھوں نے بی جے پی پر 2017 میں ووٹروں کو ٹھگنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں بی جے پی نے ہر ذات کے ایک لیڈر کو وزیر اعلیٰ امیدوار کے طور پر پیش کیا تھا اور انتخاب جیتنے کے بعد کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا، اس لیے اس بار یہ ذاتیاں ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گی۔
کبھی ‘مائی’ (ایم وائی – مسلم اور یادو) فارمولہ کے سہارے ریاست میں جیت حاصل کرتے رہنے والی سماجوادی پارٹی اس بار خاص پالیسی کے تحت سب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آئی اے این ایس کے ساتھ بات چیت میں اکھلیش یادو نے دعویٰ کیا کہ اتر پردیش میں کسان، نوجوان اور کاروباری سمیت ریاست کی عوام اس بار ان کے ساتھ ہیں۔ سماجوادی پارٹی لیڈر دھرمیندر یادو نے بھی اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ذات، مذہب اور طبقہ کی سرحد سے الگ ہٹ کر اس بار سماج کے سبھی طبقات کی حمایت سماجوادی پارٹی کو مل رہی ہے۔ دھرمیندر یادو 2012 سے 2017 کے دوران اکھلیش یادو حکومت کی تمام حصولیابیوں کو شمار کراتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2022 میں کسان، نوجوان، کاروباری، خاتون، دلت اور او بی سی سمیت سماج کا ہر طبقہ سماجوادی پارٹی کو ووٹ کرے گا۔ ظاہر طور پر اس میں چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کا بڑا کردار رہنے والا ہے۔
اویسی کے اتر پردیش میں انتخاب لڑنے کے باوجود سماجوادی پارٹی مسلم ووٹوں کو لے کر پوری طرح سے پراعتماد نظر آ رہی ہے۔ دھرمیندر یادو نے کہا کہ ہر سیاسی پارٹی الیکشن لڑنا چاہتا ہے لیکن اس بار اتر پردیش میں صرف اکھلیش یادو کا ہی جادو چلنے جا رہا ہے۔ دھرمیندر یادو نے دعویٰ کیا کہ اس بار سماجوادی پارٹی کو کوئی مسترد نہیں کر رہا ہے۔
دراصل اس بار سماجوادی پارٹی ایک ساتھ کئی محاذ پر کام کر رہی ہے۔ ایک طرف جہاں سماجوادی پارٹی اپنے بنیادی ووٹ بینک رہے مسلم اور یادووں کو پوری طرح سے اپنے حصے میں بنائے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، تو وہیں دوسری طرف چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے ان کی بنیادی ووٹ بینک کے سہارے ووٹ فیصد اور سیٹوں کی تعداد میں بی جے پی پر سبقت بھی حاصل کرنے کی کوششوں پر کام کر رہی ہے۔
انتخابی ریلیوں کی تاریخوں اور اس میں زبردست بھیڑ جمع کر کے بھی سماجوادی پارٹی دراصل بی جے پی کے نہلے پر دہلا مارنے کی لگاتار کوشش کر رہی ہے۔ ‘لال ٹوپی’ تنازعہ پر سیدھے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بنا کر بھی اکھلیش اپنے حامی ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تنہا مودی اور یوگی جیسے بڑے لیڈروں سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
(بشکریہ قومی آواز)