یوپی انتخابات: توقعات اور امکانات

مبارک بدریؔ 

ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔کئی اعتبار سے یہ انتخابات توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ہوئی اتر پردیش کی حکمراں پارٹی کی خاندانی رسہ کشی کے تذکرے ابھی تک گردش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے نقصانات بھی محفلوں کا حصہ ہیں۔ جبکہ حکمراں پارٹی کی جانب سے کئے گئے ترقیاتی وعدے ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں۔ بیرون ممالک میں جمع امراء کی دولت (کالا دھن) کو لانے کا ڈھنڈورا جس زور شور سے پیٹا گیا تھا اس کو عملی جامہ نہ پہنا کر حکمراں پارٹی نے جس طرح سے عوام کی محنت و مشقت سے کمائی گئی دولت پر نشانہ لگایا ہے اس سے ملک کی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے اور ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ کاروبار کو بہت بڑا جھٹکا لگا ہے۔ خون پسینے سے کمائی گئی دولت کو حاصل کرنے کیلئے عوام بینکوں کی لائنوں میں خار ہوتے رہے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بناء پر یہ انتخابات ہر کسی کی توجہ کا حامل بنا ہوا ہے۔خاص طور پر اتر پردیش کا الیکشن ہر کسی کیلئے فکر کا باعث بنا ہوا ہے۔ جہاں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ کامیابی کا خواب دیکھ رہی ہے وہیں بی ایس پی اس الیکشن کوایس پی اور اپنے درمیان باری باری ہارجیت کی روایت کے طرز پر اپنی جھولی کا مقدر سمجھ رہی ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو بھی دوبارہ اقتدار میں آکر عوام کی فلاح و بہبود کی راہیں ہموار کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اسی خاکہ نگاری اورخیالی منصوبہ بندی کے تحت انہوں نے کانگریس سے اتحاد کیا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے نے ملک کی عوام پر غیر معمولی اثر چھوڑا ہے۔ جس کی وجہ بی جے پی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب اکھلیش یادو کی عوام میں بڑھتی مقبولیت اور عوام کے ان کے تئیں اظہار ہمدری نے اتر پردیش کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ظاہری طور پر اپنی مقبولیت کا دم بھرنے والی بی جے پی کی اندرونی صورتحال تشویشناک ہے۔ اکھلیش یادو کی عوامی مقبولیت اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جس روز ملائم سنگھ یادو کی جانب سے اکھلیش یادو کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا گیا اس دن اتر پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں کے عوام کی ایک بڑی تعداد غم زدہ ہوکر رہ گئی تھی ۔ لکھنؤ میں اکھلیش یادو کے گھر سامنے دو نوجوانوں کی طرف سے آگ لگاکر خود کشی کی کوشش کی گئی۔ جس میں دونوں نوجوان شدید طور پر زخمی ہوگئے ۔ میڈیا پر دکھائے گئے لائیو میں لوگ عجیب و غریب انداز میں اکھلیش سے اپنی محبت کا اظہار کرتے نظر آئے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اس روز اکھلیش کے گھر کے سامنے جمع تھی ۔ بزرگ و جوان رو رو کر اکھلیش کے حق میں دعائیں کر رہے تھے۔ دہلی کے اوکھلا علاقے کا رہائشی ایک بچہ (جو اکھلیش یادو کے کردار پر مبنی ایک ڈرٹی فلم میں اکھلیش کا کردار ادا کر رہا تھا) وہ صدمے کی وجہ سے اپنے کمرے میں بیہوشی کی حالت میں پایا گیا اس کی والدہ کے بیان کے مطابق اس نے اکھلیش یادو کے پارٹی سے نکالے جانے کے صدمے میں جان دینے کی کوشش کی۔ اس کی والدہ کے مطابق جب وہ اس کے کمرے میں گئی تو وہ بے ہوش پڑا تھا اور اس کے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔جس روز سماجوادی کے انتخابی نشان کو لے کر فیصلہ اکھلیش کے حق میں آیا اور الیکشن کمیشن نے غیر جانب دارانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تمام ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ اکھلیش خیمہ کے حق میں سنایا۔ اس روز میڈیا نے جس زور و شور سے 08 گھنٹے سے زیادہ تک اکھلیش یادو کی تشہیر کی اور اکھلیش یادو کی مقبولیت اور عوام کے دلوں میں ان کی محبت اوران کے صاف شفاف کردار کو واضح کردیا۔اس نے ملک بھر کے عوام کو بتا دیا کہ اکھلیش ایک ستارہ ہے جس کی چمک سے عوام الناس کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اکھلیش یادوکو عوام و خواص میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ ان کی عوام و خواص میں مقبولیت کی وجہ انکا سنجید ہ مزاج بھی ہے۔ سنجیدگی اور متانت نے اکھلیش کے کرادر کو عوام کے سامنے صاف ستھرا کرکے پیش کیا ہے۔ اپنے نظریات اور موقف کو سنجیدگی سے پیش کرنا اکھلیش کے سیاسی شعور اور مدبرانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کا مثبت رویہ اور مثبت تبصرے ان کی تعمیری سوچ کی علامت ہے۔ اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد سے ان کا سیاسی گراف روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ جبکہ مودی حکومت ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ گزشتہ لوک سبھا الیکشن کی طرح اس بار بھی عوام اس کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گے۔ مگر حکمراں پارٹی بہار کی ذلت آمیز شکست کو بھول رہی ہے۔ اور اکھلیش یادو کے صاف ستھرے کردار کی مقبولیت اور معنویت سے نظریں چرا رہی ہے۔ موجدہ سیاسی حالات کے پیش نظر ایس پی ۔ کانگریس اتحاد سے اکھلیش کے تئیں عوام میں جس قدر جوش و خروش ہے اس سے صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ ایک بار پھر اتر پردیش کے اقتدار پر سماجوادی پارٹی اپنا جھنڈا لہرائے گی اور فرقہ پرست طاقتوں کو دہلی اور بہار کی طرح ایک بار پھر ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ستم ظریفی ہے کہ اتر پردیش میں چند چھوٹی بڑی پارٹیاں بی جے پی کوبر سر اقتدار لانے کیلئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ اس باربہوجن سماج پارٹی کی صدر محترمہ مایاوتی کو اپنی پارٹی کے تئیں عوامی بیزاری کا پختہ یقین ہے۔ اسی لئے گزشتہ اسمبلی انتخابات کی طرح اس بار بھی وہ اپنے ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں ڈلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتر پردیش کی صورتحال کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ ہر پارٹی اسی فراق میں ہے کہ کس طرح اکھلیش یادو کو مات دی جائے؟ اور اتر پردیش کے اقتدار پر اپنا اثر قائم کیا جائے۔ذرائع سے حاصل تازہ معلومات کے مطابق اتر پردیش کے بہوجن سماج پارٹی کے صدر اندرون خانہ بی جے پی کی تشہیر کر رہے ہیں اور بہوجن سماج پارٹی کے حامیوں سے خفیہ میٹنگوں کے دوران بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کو اس بار یوپی میں کراری شکست ہونے والی ہے اس لئے بی ایس پی اندرونی ساز باز کے تحت اپنا ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں ٹرانسفر کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ بی جے پی نے بی ایس پی کی صدر مایاوتی سے معاہدہ کیا ہے کہ اگر بی جے پی اکثریت حاصل کرتی ہے تو یوپی میں وہ وزیر اعلی کے عہدے کی حقدار محترمہ مایاوتی ہونگی۔ جبکہ موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ یوپی انتخابات میں اکھلیش یادو کی کامیابی کے امکانات سو فیصد روشن ہیں۔ اور عوام سے امید ہے کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ اکھلیش یادو کی حمایت میں ڈالیں گے ۔